آپ کا سیّد قاسم محمود

استادِ محترم نے اپنی زندگی میں تنِ تنہا اتنی علمی و ادبی خدمات انجام دیں کہ اہلِ دنیا کو حیران کردیا


علیم احمد March 31, 2018
شاہکار جریدی کتب کا اجراء ہو یا ضخیم انسائیکلوپیڈیا کی قسط وار اشاعت، ترجمے پر مہارت ہو یا اداریئے کا منفرد انداز، سیّد صاحب نے ہر میدان میں ایک نئی راہ متعین کی۔ (تصویر: انٹرنیٹ)

''سر! آپ نے اُردو زبان میں اداریہ نویسی کو ایک نیا انداز دیا ہے، آپ کے اداریوں پر ایم فل بھی ہوچکا ہے۔ لیکن اب تک آپ کے اداریوں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ سر! آپ اپنے اداریوں کا مجموعہ شائع کروایئے ناں!'' میں اور عباسی (سلیم انور عباسی) استادِ محترم سیّد قاسم محمود سے اسی طرح فرمائش کررہے تھے جیسے بچے اپنے بڑوں سے ٹافی کی فرمائش کرتے ہیں۔ میں نے تو کتاب کا عنوان بھی تجویز کردیا تھا: آپ کا، سیّد قاسم محمود۔

وہ 1989ء کی ایک گرم دوپہر تھی۔ عاصم (سید عاصم محمود) کو آسٹریلیا گئے ہوئے ابھی چند ہفتے ہوئے تھے۔ شمالی کراچی (نارتھ کراچی) سیکٹر الیون بی، باب الاسلام مسجد کے سامنے، ملک صدیق پوائنٹ کی پہلی منزل پر واقع ''شاہکار بک فاؤنڈیشن'' کے دفترِ ادارت میں یہ سارا مکالمہ جاری تھا۔

بظاہر ہماری بات سے اتفاق کرتے ہوئے استادِ محترم نے کہا: ''ٹھیک ہے! مگر اس کتاب کےلیے اداریئے جمع کرنے اور ترتیب دینے کا سارا کام تم دونوں ہی کو کرنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس کےلیے تمہیں لاہور بھی جانا پڑے۔ بولو! کرسکو گے؟''

یہ استادِ محترم سیّد قاسم محمود کا خاص انداز تھا کہ اگر وہ کوئی کام کرنے کےلیے خود کو ذہنی طور پر آمادہ نہیں پاتے تھے، اور ہماری جانب سے شدید اصرار ہوتا، تو وہ منع کرنے کے بجائے ''ٹھیک ہے! تم کرلو'' کہہ دیا کرتے تھے۔ آج بھی انہوں نے وہی کیا تھا۔

درست کہ استادِ محترم 31 مارچ 2010 سے اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن ایک فرد کی حیثیت سے وہ جتنے کارہائے نمایاں انجام دے گئے، ان کے سامنے ''تمغہ امتیاز'' اور ''تمغہ حسن کارکردگی'' پانے والے بہت سے ادیبوں اور دانشوروں کی مجموعی ''خدمات'' بھی بہت معمولی نظر آتی ہیں۔ سیّد صاحب کو شاید اس لیے بھی کسی ''سرکاری اعزاز'' کے قابل نہیں سمجھا گیا کیونکہ وہ خود ''مزدورِ قلم'' تھے اور ''عام پاکستانیوں'' کےلیے کام کرنے پر یقین رکھتے تھے۔
استادِ محترم کی یہ تحریر یقیناً نئے قارئین اور قلمکار، ہر دو کےلیے مشعلِ راہ ہوگی۔ پڑھیے اور خود اندازہ لگائیے کہ میں کس ہستی کا تذکرہ آپ کے سامنے کررہا ہوں: جب ایک ابھرتا ادیب روحانی واردات سے گزرا

وہ 1970 کے عشرے میں ''شاہکار جریدی کتب'' کا اجراء ہو یا ضخیم انسائیکلوپیڈیا کی قسط وار اشاعت، ترجمے پر مہارت ہو یا اداریئے کا منفرد انداز، ہر میدان میں انہوں نے ایک نئی راہ متعین کی... ایک ایسی راہ جس پر چل کر اُستادِ محترم کے بہت سے مقلدین، آج دوسروں کےلیے راہنما بنے ہوئے ہیں۔



سیّد صاحب نے اپنے ادارے یعنی شاہکار بُک فاؤنڈیشن سے تقریباً 200 کتابیں شائع کیں اور کوئی درجن بھر نئے مصنفین و مترجمین متعارف بھی کروائے۔ ان سب کے علاوہ افسانہ ڈائجسٹ، پاکستان ڈائجسٹ (مطالعہ پاکستان)، سائنس میگزین، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، اسلامی المانک، تاریخ نمبر (سائنس میگزین کا خصوصی ضخیم شمارہ)، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، علم القرآن (قرآنِ پاک کی اُردو تفاسیر سے انتخاب و خلاصہ)، انسائیکلوپیڈیا فلکیات، انسائیکلوپیڈیا ایجادات، ہماری کائنات (انسائیکلوپیڈیا)، مسلم سائنس (انسائیکلوپیڈیا)، اسلامی سائنس (انسائیکلوپیڈیا) اور ان جیسے نہ جانے کتنے ہی منصوبے تھے جو اُستادِ محترم کے ہاتھوں سے مکمل ہوئے... اور بہت سے منصوبے ادھورے بھی رہ گئے۔

استادِ گرامی سیّد قاسم محمود کے ان تخلیقی کارناموں سے کتنے لوگ فیضیاب ہوئے؟ یہ بتانا بہت مشکل ہے کیونکہ استادِ محترم کی کتب سے فیض پانے والوں کی تعداد بلاشبہ لاکھوں میں ہوگی۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی پوری زندگی میں صرف تین شاگرد بنائے تھے: سلیم انور عباسی، یہ احقر (علیم احمد) اور سیّد عرفان احمد۔

پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، ایک بار پھر لکھ رہا ہوں کہ استادِ محترم سیّد قاسم محمود کے تین شاگردوں میں سے ایک ہونا، میرے لیے باعثِ فخر و اعزاز ہے۔ لفظ کی حرمت، ترجمے کا سلیقہ، اداریہ نویسی اور فنِ ادارت کی پیچیدگیاں، غرض استادِ گرامی نے ہر معاملے میں کچھ ایسی تربیت دی کہ صحافت و ابلاغِ عامّہ میں کسی بھی سند سے بے نیاز کردیا... ویسے بھی سیّد صاحب کا براہِ راست شاگرد ہونا اپنے آپ میں بہت بڑی سند ہے۔



دعویٰ تو نہیں کرسکتا کہ میں نے استادِ محترم کی علمی و فکری میراث مکمل طور پر حاصل کرلی ہے؛ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ جب جنوری 1998 میں ''ماہنامہ گلوبل سائنس'' کا اجراء کیا اور باقاعدگی سے اداریئے لکھنا شروع کیے، تو اپنے اُستاد کی تقلید کرتے ہوئے میں بھی ہر اداریئے کے اختتام پر ''آپ کا، علیم احمد'' لکھنے لگا۔

سیّد صاحب کی ایک خاص عادت تھی: انہیں جب ہمیں (یعنی سلیم انور عباسی، سیّد عرفان احمد اور اس ناچیز کو) کچھ سمجھانا ہوتا تو وہ بالعموم شام کی چائے کے وقت ہم تینوں کو اپنے کمرے میں بلا لیا کرتے اور پھر ایک سے دو گھنٹے تک اپنے مطلوبہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کیا کرتے۔

یہ بلاگ بھی ضرور پڑھیے: استادِ محترم سیّد قاسم محمود کے کچھ عملی مشورے

ویسے تو استادِ محترم کا کام مختلف و متعدد سمتوں میں بکھرا ہوا ہے لیکن اگر اُن کی شخصیت کے صرف دو پہلوؤں یعنی افسانہ نگاری اور اداریہ نویسی ہی پر بات کرلی جائے تو نئی نسل سے تعلق رکھنے والے بہت سے قلم کاروں کا بھلا ہوجائے گا۔

راقم کا تعلق ''غیر افسانوی ادب'' (نان فکشن)، بالخصوص سائنس نگاری سے ہے۔ لیکن کئی مرتبہ سنجیدہ سائنسی تحریروں میں بھی افسانوی انداز بہت مفید ثابت ہوتا ہے اور اپنی بات مؤثر طور پر قارئین تک پہنچانے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ ایک روز استادِ محترم سیّد قاسم محمود کے دل میں نجانے کیا آئی کہ مجھے اور عباسی کو اپنے پاس بٹھا لیا اور ''افسانے کی تکنیک'' سمجھانے لگے۔ اس طویل گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ کسی بھی افسانے کا خمیر، حقیقی معاشرے سے اٹھایا جاتا ہے۔ افسانہ نگار اس بات کا پابند نہیں ہوتا کہ وہ حالات و واقعات کا پس منظر بیان کرے یا افسانے کے کرداروں کا تعارف کروائے۔ وہ افسانے کو شروع کرتا ہے اور بتدریج (لیکن خاصی تیز روی سے) اسے نقطہٴ عروج (کلائمیکس) تک پہنچاتا ہے... اور کلائمیکس کے فوراً بعد افسانے کا اختتام ہوجاتا ہے۔

قارئین کی دلچسپی کےلیے اضافہ کرتا چلوں کہ افسانہ نگاری سے سیّد صاحب کی محبت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی بڑی بیٹی کا نام ہی ''افسانہ سیّد'' رکھ دیا تھا۔

استادِ گرامی چونکہ بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے، اس لیے ان کے اداریوں پر بھی افسانوی رنگ ہی غالب تھا۔ وہ اس خوبی اور پُرکاری سے اپنے اداریوں میں حالات و واقعات اور اپنے منصوبوں کا تذکرہ کردیا کرتے تھے کہ پڑھنے والا ان کی بات صرف سمجھ ہی نہیں جاتا تھا بلکہ وہ باتیں گویا اُس کے دل میں اُترتی چلی جاتی تھیں۔ ایسا ہی ایک اداریہ ''جوگی والا پھیرا'' تھا جو اُستادِ محترم نے ماہنامہ سائنس میگزین کےلیے تحریر کیا تھا۔ اگر مجھے درست یاد ہے تو کم از کم اُردو زبان کی تاریخ میں یہ سفری اداریہ نویسی کی واحد مثال تھی۔

کہنے کو تو وہ اداریہ تھا لیکن اس میں کراچی سے لاہور تک کے ایک سفر کا تفصیلی احاطہ کیا گیا تھا۔ منظر نگاری سے لے کر ادبی چاشنی اور اظہارِ جذبات و خیالات تک، اس اداریئے میں وہ سب کچھ تھا جو کسی سفرنامے یا افسانے میں ہونا چاہیے۔ نئے قلم کاروں، بالخصوص بلاگروں کو وہ اداریہ ضرور پڑھنا چاہیے؛ کیونکہ اس ایک تحریر کو پڑھ کر وہ بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔ (وعدہ رہا کہ اگر موقع ملا تو اِن شاء اللہ اسی بلاگ سیکشن میں وہ پورا اداریہ، حرف بحرف آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔)

استادِ محترم سیّد قاسم محمود کے بارے میں ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن ایک غلط فہمی کے ازالے پر اختتام کروں گا۔

چند سال پہلے ایک معروف کالم نگار نے سیّد صاحب کی کراچی سے لاہور واپسی کے بارے میں لکھا تھا کہ کراچی میں ان کے بیٹے پر ایک لسانی تنظیم کے لڑکوں نے خوفناک تشدد کیا اور وہ مرتے مرتے بچے۔ اس کے بعد، 1990 کی دہائی میں سیّد صاحب کو کراچی سے بوریا بستر سمیٹ کر واپس لاہور لوٹنا پڑا۔ اس پورے بیان میں کوئی صداقت نہیں۔

سیّد صاحب کی کراچی سے واپس لاہور منتقلی کا عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے بتانا چاہوں گا کہ اگرچہ استادِ محترم کی مذکورہ ''لسانی تنظیم'' سے کبھی نہیں بنی لیکن لاہور منتقلی کی وجہ کچھ اور تھی۔

پس منظر یہ ہے کہ عاصم (سیّد عاصم محمود)، 1991 کی ابتداء میں آسٹریلیا سے پاکستان واپس آگیا تھا اور اُسی سال سیّد صاحب نے ایک خصوصی تقریب میں، شاہکار بُک فاؤنڈیشن کے سارے عملے کی موجودگی میں، اسے اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ (البتہ یہ فیصلہ صرف چند ماہ بعد واپس بھی لے لیا تھا۔) پاکستان واپسی کے چند سال بعد ہی، غالباً 1995 یا 1996 میں، سیّد عاصم محمود کے سر میں ہر وقت درد رہنے لگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درد کی شدت بڑھتی ہی چلی گئی۔

سیّد صاحب نے جب دماغ کے ماہر ڈاکٹروں (نیورولوجسٹس) کو دکھایا تو انہوں نے کئی ٹیسٹ کروانے کے بعد دل دہلا دینے والا انکشاف کیا: عاصم ایک ایسی تکلیف میں مبتلا ہے کہ کراچی کی مرطوب آب و ہوا اس کی جان بھی لے سکتی ہے۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اگر انہیں اپنے بڑے کی زندگی عزیز ہے تو اس کے خشک ماحول میں رہنے کا بندوبست کرنا ہوگا... بہ الفاظِ دیگر، اسے لاہور بھیج دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے سیّد صاحب نے، اپنی اہلیہ اور دونوں صاحبزادیوں (افسانہ اور گل جانہ) کے ہمراہ، عاصم کو فی الفور کراچی سے لاہور بھیج دیا جہاں ان کے بیشتر رشتہ دار پہلے ہی سے مقیم تھے۔

1981 میں کراچی آمد سے لے کر تب تک پندرہ سولہ سال بیت چکے تھے اور اس دوران کراچی میں شاہکار بُک فاؤنڈیشن کا کام خاصا پھیل چکا تھا، جسے سمیٹنا ضروری تھا۔ علاوہ ازیں سیّد صاحب کا ذاتی کتب خانہ بھی اس پورے عرصے میں وسیع تر ہوچکا تھا جو اُن دنوں ''حاجی فضل ٹاؤن'' (منگھوپیر) میں خریدے گئے ایک بنگلے کے تین بڑے کمروں پر محیط تھا۔ اسی لیے سیّد صاحب نے اپنے چھوٹے بیٹے کاشف (سیّد کاشف محمود) کو اپنے ساتھ روک لیا تھا تاکہ تمام ضروری کارروائیاں نمٹانے میں انہیں کسی کی معاونت حاصل رہے۔

یہ سارا تام جھام سمیٹنے کے بعد، جنوری 1998 میں، سیّد صاحب نے بالآخر لاہور واپسی کےلیے رختِ سفر باندھا اور کراچی سے رخصت ہوئے۔ اس کے بعد میری سیّد صاحب سے کبھی بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی، البتہ کبھی کبھار فون پر ضرور بات ہوجایا کرتی تھی۔ اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی اطلاع بھی انہوں نے ایک مختصر خط کے ذریعے، 2008 میں مجھے دی تھی... جو میرے اور استادِ محترم کے مابین آخری رابطہ بھی ثابت ہوئی۔

31 مارچ 2010 کے روز سیّد صاحب اس دنیا سے رُخصت ضرور ہوگئے لیکن کم از کم میرے لیے تو وہ زندہٴ جاوید ہی ہیں۔ اُستادِ محترم اکثر کہا کرتے تھے کہ انسان کو اپنی زندگی میں اتنا کام کرنا چاہیے کہ وہ اپنے تخلیق کرنے والے کو حیران کردے۔

فردِ واحد کی حیثیت سے سیّد صاحب نے مجموعی طور پر جتنے علمی و ادبی کارنامے انجام دیئے، اُن جیسے منصوبوں پر پاکستان کے بڑے بڑے سرکاری اداروں میں کروڑوں روپے صرف کرکے صرف سوچ بچار ہی کی جاسکی... خالق کا تو معلوم نہیں لیکن استادِ محترم سیّد قاسم محمود نے مخلوق کو ضرور حیران کردیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں