جب میں حرم کا مسافر بنا حصہ اول
حرم شریف میں جب داخل ہوئے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب کعبے کی طرف سات چکر لگائیں جسے طواف کعبہ کہتے ہیں۔
میں نے ایک انتہائی مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ہم نے اپنے بچپن میں اپنے گھر میں ریڈیو سے صرف خبریں سنتے ہوئے ہی اپنے والد کو دیکھا تھا، ریڈیوکے دیگر پروگرامز ان کے نزدیک سننے کے قابل نہیں ہوتے تھے ہاں کبھی کبھی ریڈیو سے نعتوں اور قوالیوں کے پروگرام بھی والد صاحب سنتے تھے تو وہ ہمارے کانوں میں بھی پڑ جایا کرتے تھے مگر میں کبھی کبھی اپنی آپا (والدہ کو ہم سب بہن بھائی آپا کہتے تھے) کچھ خوشامدانہ انداز کی باتیں کرکے کچھ دیر کے لیے فلمی گیتوں کے پروگرام بھی سن لیا کرتا تھا، جسے میری والدہ کوئی اچھی بات نہیں سمجھتی تھیں۔
لیکن جیسے ہی والد صاحب کے آنے کی سن گن ملتی تو ان کی آہٹ سے پہلے ریڈیو کا کان مروڑ دیا جاتا تھا۔ ہاں رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر کے ریڈیو کی قسمت بھی جاگ اٹھتی تھی اور گھر والے نعتوں کے ساتھ ساتھ مذہبی قسم کے پروگرام سن لیا کرتے تھے۔ اس طرح رمضان میں ریڈیو پر کچھ ہماری بھی اجارہ داری ہو جایا کرتی تھی۔
ریڈیو پر ایک نعت گلوکارہ شمشاد بیگم کی آواز میں بہت زیادہ نشر ہوا کرتی تھی جس کے بول تھے آیا ہے بلاوا مجھے دربارِ نبی سے۔ وہ نعت سارے گھر والے بھی بڑی دلچسپی سے سنا کرتے تھے وہ نعت بہت ہی دلکش تھی اور میری آپا تو وہ نعت سن کر اکثر رو دیا کرتی تھیں۔ ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے والد سے پوچھا کہ اس نعت میں جو رمضان میں روزانہ ریڈیو سے نشر ہوتی ہے آیا ہے بلاوا اس کا کیا مطلب ہے۔
بلاوا تو دعوت ہوتا ہے یہ گلوکارہ بلاوے کا بار بار کیوں ذکر کرتی ہے کس کے لیے کرتی ہے۔ میرے والد نے میری طرف بڑی شفقت کی نظر سے دیکھتے ہوئے کہا۔ بیٹا! یہ بلاوا بھی دعوت ہی سے مطلب رکھتا ہے مگر یہ بلاوا دربار نبیؐ کی طرف سے جس کسی کو آتا ہے اس کی قسمت کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں اور یہ بلاوا ہر کسی کو نہیں ملتا ہے۔ بڑے بڑے پیسے والے پیسہ پاس ہونے کے بعد بھی اس بلاوے سے سدا محروم ہی رہتے ہیں پھر جب ذرا بڑا ہوا اور میرے والد کے علم میں بھی یہ بات آگئی تھی کہ میں شاعر ہوگیا ہوں اور ریڈیو کے لیے گیت اور غزلیں بھی لکھتا رہتا ہوں تو انھوں نے مجھ سے بڑے پیار کے ساتھ کہا تھا۔
برخوردار! شاعری کرتے ہو۔ یہ شاعری بڑے بڑوں کو نکما بنا کے چھوڑ دیتی ہے۔ اب اگر تم شاعر ہو ہی گئے ہو تو ایک کام کرو پھر تم بھی شاعر بہزاد لکھنوی اور شاعر ماہر القادری کی نعتیں پڑھا کرو اور سنا بھی کرو۔انھیں سن کر تم بھی نعتیں کہنے کے قابل ہوجاؤ گے۔ اس طرح تمہاری دنیا بھی سدھر جائے گی اور تمہاری آخرت بھی۔ اب رہی بلاوے کی بات تو نبی کریمؐ کے دربار ہی کی طرف سے مقدر والوں کو بلاوا آتا ہے۔ پھر بات آئی گئی ہوگئی۔
کچھ عرصے بعد سونک انٹرپرائزز کمپنی والوں کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ وہ اب موسیقی اور گیتوں کے بعد نعتوں کا کیسٹ بھی تیار کر کے مارکیٹ میں لا رہے ہیں اور وہ مشہور نعت خواں فصیح الدین سہروردی کی آواز میں کچھ نعتیں جلد ہی ریکارڈ کر رہے ہیں۔ اور تم سے نعتیں لکھوانا چاہتے ہیں واضح رہے کہ میں سونک والوں کے لیے گیتوں کے کئی البم لکھ چکا تھا اور گلوکار تحسین جاوید کا پہلا گیتوں کا کیسٹ میرا ہی لکھا ہوا تھا جو بقر عید پر ریلیز ہوا اور تحسین جاوید کا وہ البم بڑا ہٹ ہوا تھا اور وہ میرے لکھے ہوئے گیت جن کی موسیقی موسیقار محبوب اشرف نے دی تھی اکثر فنکشنوں میں گاتا تھا۔
مجھے اپنے والد محترم کی بات بھی اچھی طرح یاد تھی میں نے بڑی کوشش اور لگن کے ساتھ دو تین نعتیں لکھیں وہ سونک کمپنی کو سنائیں تو انھیں بھی پسند آئی تھیں پھر وہ نعتیں نعت خواں فصیح الدین سہروردی کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھیں نعتوں کے کیسٹ پر ٹائٹل گبند خضرا کا دیا گیا تھا اور میری پہلی نعت کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی جس کے بول قارئین کی نذر ہیں:
جہانِ رنگ و بو میں رحمتوں کی جستجو کرلوں
درِ آقا پہ جا کے پوری اپنی آرزو کرلوں
ہو صحن مسجد نبوی کروں سجدے میں جی بھر کے
ملے موقع مدینے کی ہواؤں سے وضو کرلوں
سفر طیبہ کا ہو دیوانگی ہو دیدنی میری
کبھی چاک گریباں ہو کبھی اس کو رفوکرلوں
یہی پہلی یہی ہے آخری خواہش مری ہمدمؔ
کھلے روضے کا دروازہ تو خود کو روبرو کرلوں
جس وقت میں نے یہ نعت لکھی تھی شاید وہ قبولیت کا وقت ہوگا میرے تصور میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ دربار نبیؐ کی طرف سے اس نعت کے بعد بلاوا میرے مقدر میں بھی لکھ دیا گیا ہوگا۔
اس بات کا احساس کچھ برسوں بعد مجھے ہوا جب میں اس بار کراچی گیا تو جانے سے پہلے میں نے اپنے بھانجے نعمان صدیقی سے فون پر کہا کہ میں اور بیگم امریکا سے اس بار کراچی آکر عمرے کی غرض سے مکہ اور مدینہ جانا چاہتے ہیں اس کا کیا طریقہ ہوگا۔ اس نے بھی بے ساختہ کہا کہ ماموں اگر بلاوا آگیا ہے تو آپ فکر نہ کریں سارا بندوبست ہوجائے گا آپ اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپیاں بھجوا دیں باقی سارا کام میری ذمے داری ہے۔
میں نے ایسا ہی کیا پھر جب میں اور بیگم کراچی گئے تو ایک ہفتے کے اندر اندر ہمارے پاسپورٹ پر سعودی عرب کا ویزا لگ چکا تھا اور پھر میں نے اور میری بیگم گل افروز نے عمرے کی سعادت حاصل کرلی تھی اور یہ بلاوا ہی تھا جو دربار نبیؐ سے آیا تھا اور ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں ہمارے والد کی دعائیں بھی تھیں جو انھوں نے ہمارے لیے اپنی زندگی میں کی تھیں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ میرے والد نے تین حج کیے تھے جن میں ایک حج میں میری والدہ بھی ساتھ تھیں۔
میں نے اپنی بیگم کے ساتھ عمرے کے دوران پانچ دن مکہ میں اور پانچ دن مدینے میں گزارے تھے اور جب میں نے حرم شریف میں پہلی حاضری دی تھی تو مجھے یوں لگا تھا کہ میں روحانیت کی ایک نئی دنیا میں آگیا ہوں۔ اور وہ دنیا رنگ و بو کی دنیا سے ہٹ کر روحانیت کے سرور میں ملبوس کوئی الگ ہی دنیا ہے۔ حسن اتفاق سے مکہ اور مدینے میں ہم جن ہوٹلوں میں ٹھہرے وہ دونوں ہوٹل حرم شریف اور مسجد نبوی سے چند قدموں کے فاصلے پر تھے۔
حرم شریف میں جب داخل ہوئے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب کعبے کی طرف سات چکر لگائیں جسے طواف کعبہ کہتے ہیں۔ تو حرم کی مسجد کی سیڑھیاں اترتے وقت نظریں نیچی رکھیں اور اس وقت نظریں اوپر اٹھائیں جب کعبہ شریف نظروں کے سامنے ہو اور پھر جو پہلی دعا مانگی جائے گی وہ قبول کرلی جاتی ہے۔ تو میں نے اور بیگم نے بھی ایسا ہی کیا اور جب کعبہ پر میری پہلی نظر پڑی تو میں نے پہلی دعا اپنے والدین کی مغفرت اور ان کے درجات بلند کرنے کی مانگی تھی۔ کیونکہ اللہ نے ہمیں اچھے والدین عطا کیے تھے اور پھر ان والدین نے ہماری پرورش کے ساتھ ہماری تربیت بھی اچھی کی تھی۔ پھر ہم نے اپنے بچوں کی بہتر زندگی کے لیے دعائیں کیں۔ پھر پوری امت مسلمہ کے لیے بھی دعائیں کیں۔
کعبہ کا طواف کرنے کے بعد پھر ہم دونوں سعی کرنے گئے۔ سعی وہ رسم ہے جو حضرت حاجرہؓ کی ذات گرامی سے جڑی ہوئی ہے۔ جو پانی کی تلاش میں اپنے شیر خوار بچے کو ایک میدان میں لٹا کر پانی کی تلاش میں جاتی تھیں اور پھر تیز تیز قدموں سے اپنے بچوں کو دیکھنے کے لیے بھی پلٹ کر آتی تھیں اس عمل میں ان کی پریشانی، ان کی بے چینی اور بچے کی محبت اسلامی تاریخ کا ایک باب ہے کہ جب بی بی حاجرہؓ کے بیٹے زمین پر بار بار اپنے پیر مارتے تھے اور زمین سے پھر پانی بہنے لگ گیا تھا۔
بی بی حاجرہؓ جب انھیں دیکھنے آئیں تو ان کے بچے کے پاس بے تحاشا پانی بہہ رہا تھا جسے دیکھ کر انھوں نے اس پانی کو پھر رکنے کا کہا اور عربی کے الفاظ زم زم ادا کیے جن کا مطلب ہے کہ رک جاؤ۔ بی بی حاجرہ کی اس کیفیت کو سعی کا نام دیا گیا ہے۔ سعی کی رسم کے بعد سر کے بال بھی کٹوانے پڑتے ہیں۔ مرد کے سارے سر کے تھوڑے تھوڑے بال اور عورت کے دو تین انچ صرف چٹیا کی جانب سے کاٹے جاتے ہیں۔ حرم کی مسجد کے باہر بال کاٹنے کی بھی بہت سی دکانیں تھیں۔ (جاری ہے)