سانحے کا ملبہ دوسروں پر نہ پھینکیں
آپ اپنے علاوہ سب کو قصور وار اور ذمے دار ثابت کرنے میں اپنی ہر چیز کو حتی کہ اپنے آپ کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔
مقام تبدیل ہوتے رہتے ہیں، تبدیلی کے پیچھے کوئی اور نہیں بلکہ آپ خود ہوتے ہیں، آپ ایسے حالات و واقعات کو جنم دیتے رہتے ہیں کہ پھر مقام کی تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے اور جب ایک دفعہ مقام تبدیل ہو جاتے ہیں تو پھر اسے دوبارہ حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
آپ اپنے علاوہ سب کو قصور وار اور ذمے دار ثابت کرنے میں اپنی ہر چیز کو حتی کہ اپنے آپ کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں کیونکہ آپ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مقام کی تبدیلی کی وجہ سے سلب ہو چکی ہوتی ہے۔ مقام کی تبدیلی میں تین قوتیں کار فرما ہوتی ہیں۔
(1) خواہشات اور جذبات (2) غرور و تکبر (3) آرزو اور تمنا۔
آئیں! باری باری ان تینوں قوتوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ کس طرح سے آپ کے خلاف کام کرتی ہیں۔ (1) خواہشات اور جذبات ۔ ہم سب لوگ اکثر خواہشات اور جذبات کے بھنور میں آ کر پھنس ہی جاتے ہیں پھر وہ بھنور روز بروز بڑے سے بڑے ہوتے جاتے ہیں اور ہم بونے سے بونے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے معدے کے غلام ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی عادات کے بھی غلام ہوتے ہیں ۔ ان کا معدہ ان کے ذہن اور جسم کو کنٹرول کرتا ہے، جب ہمیں اپنی فکر زیادہ لاحق ہو جاتی ہے تب ہم دوسروں کی ضروریات کو فرامو ش کردیتے ہیں۔ ہم اپنے آپ پر ناراض ہوتے ہیں غصے ہوتے ہیں لیکن یہ ناراضگی اور غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں۔
ہم بہت جلد مشتعل ہو جاتے ہیں، لہذا جب ہماری خواہشات وجذبات ہمیں کنٹرول کرتے ہیں تب ہم رشتے ناتوں، تعلقات، فرائض اورذمے داریوں کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں پھر آپ اپنے کے علاوہ اورکچھ نہیں سوچتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پہنچانے کے لیے آپ کا بس تھوڑی دیر کے لیے مختلف ٹی وی چینلز کا دیکھنا ہی کافی ہوگا۔ آپ کی ملاقات شناسائی اور پہچان، خواہشات اور جذبات کے غلاموں سے ہوچکی ہوگی۔ اس کے لیے آپ کو کافی تگ ودو کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج کل یہ حضرات فراوانی سے سارا وقت ٹی وی چینلز پر نظر آرہے ہوتے ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب اپنے آپ کو برا بھلا کہنے کے بجائے مخصوص لوگوں کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ سوچے سمجھے بغیر کہ انھیں دیکھنے اور سننے والے ان سے زیادہ ذہین، سمجھدار اور عقل مند ہیں اور وہ ان کے کرتوتوں سے بھی بخوبی آگا ہ ہیں۔
(2) غروروتکبر :۔ جب ہم اپنے آپ کو محفوظ محسوس نہیں کرتے جب ہم اپنی صلاحیتوں اور قابلیت سے زیادہ حاصل کرلیتے ہیں اور اس ''زیادہ حاصل''کو حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ، ہر طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ ہم اسی قدر زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں، ہم جتنا عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، ہم اتنا غرور و تکبر کا کھیل کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔ اسی کھیل کھیلنے میں ہم اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہتے ہیں یہ دھوکا دراصل ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہم اپنے آپ کو خطرے میں محسوس کررہے ہوتے ہیں کہ یہ ''زیادہ حاصل'' شدہ چیزیں ہم سے چھین نہ لی جائیں۔ اس لیے ہم مکمل بہروپیے بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھنے اور پہچاننے کے لیے بھی آپ کو کافی بھاگ دوڑ کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ ایسے لوگ ٹی وی، اخبارات کے ساتھ ساتھ آپ کو سڑکوں پر عظیم الشان گاڑیوں میں طویل پروٹوکول کے ہمراہ باآسانی دیکھنے کو مل جائیں گے اور اگر آپ کو انھیں بہت ہی قریب سے دیکھنے کی خواہش ہوتو پھر اس کے لیے آپ کو کافی جدوجہد کرنے کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ ان کے بڑے بڑے عالیشان آفسوں اور گھروں تک رسائی عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے، اگر آپ جن یا بھوت ہوتے تو پھر الگ بات تھی۔ اس لیے آپ کو پہلے ان کی چمچہ گیری یا ان کی خوشامد کرنے والوں کی چمچہ گیری یا خوشامد کرنے کی قربانی دینا لازمی ہوگی لیکن آپ کو اپنا دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ خدا کو قربانی بہت ہی پسند ہے جب آپ یہ قربانی دے چکے ہوں گے تو پھر آپ ایسے لوگوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کرچکے ہوں گے، انشاء اللہ ملاقات کے بعد آپ طویل عرصے تک اپنے آپ کو برا بھلا کہتے اورکوستے رہیں گے۔
(3) آرزو /تمنا۔ جب ہم آرزو / تمنا کے ہاتھوں عقل کے اندھے ہو جاتے ہیں اور اپنی بینائی گنوا بیٹھتے ہیں تو ہماری اولین کوشش اس بات کی ہوتی ہے کہ شان وشوکت، عہدہ، اختیار اور ترقی جلد ازجلد حاصل کرلیں، بجائے وقت کا انتظارکریں اور اپنی ذہانتوں کو بروئے کار لائیں۔ اس وقت آپ ہر چیزکی تشریح اس حوالے سے کررہے ہوتے ہیں کہ یہ میرے لیے کیاکرے گی۔ اس سے مجھے کیا فائد ہ حاصل ہوگا، ایسے لوگوں کا ہرکوئی رقیب ہوتا ہے،ان کے رشتے، ناتے، ساتھی اور تعلقات خواہ کس قدر قریبی ہی کیوں نہ ہو ں وہ بھی ان کے لیے رقیب بن جاتے ہیں وہ اپنی آرزو و تمنا پوری کرنے کے لیے ہرقسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بعد اپنی بقیہ زندگی جیل یا جلاوطنی میں گزارتے ہیں لیکن عقل کی بینائی پھر بھی حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور قصور وار دوسروں کو ہی ٹہرا رہے ہوتے ہیں، اگر ہم میں سے کسی کے ساتھ مقام کی تبدیلی کا سانحہ پیش آجائے تو اس سے درخواست ہے کہ وہ اس سانحے کا ملبہ دوسروں پر پھینکنے کی غلطی ہرگز ہرگز نہ دہرائے۔ اس لیے کہ وہ ملبہ واپس اسی کی طرف پھینکنا جائے گا اور پھر وہ اس ملبے کے تلے اتنا دب جائے گاکہ اس سے باہر نکلنے کی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوجائیں گی اور آخر میں ہم ان کے ساتھ ساتھ ان کی آواز سننے سے بھی محروم ہو چکے ہوں گے۔