بوبی اورجہاں آراء
بوبی اورجہاں آراء نام کے پالتوجانوروں کی شادی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والانواب بھی گمنامی کی مٹی اوڑھے سورہاہے۔
مہابت خان،کرشناواڈیر،عثمان علی،جے سنگھ،جگجیت سنگھ، عمارزالہ،اِندرادیوی اورمادھوسنگھ کے نام سنکرآپکے ذہن میں کیاتاثرآتاہے۔شائدنناوے فیصدلوگوں کے لیے یہ تمام نام مکمل طور پر اجنبی ہوں۔کسی انسیت کے بغیرصرف اور صرف چندالفاظ۔گنے چنے لوگ جنھیں برصغیرکی تاریخ سے شغف ہو،ان گمنام ناموں کوجانتے ہوں۔
مگرصاحبان!یہ وہ لوگ تھے جوبرصغیرمیں لوگوں کی قسمتوں کے مالک تھے۔ان کے جاہ وجلال سے لوگ تھرتھرکانپتے تھے۔ان کی دولت کااندازہ لگانا تقریباًناممکن تھا۔برصغیرکے یہ راجہ،مہاراجہ کس قدرشان وشوکت کے مالک تھے،آج ہم تصوربھی نہیں کرسکتے۔مگرنکتہ یہ ہے کہ محض سات سے دس دہائیاں قبل کے زمینی خداؤں کوآج کوئی نہیں جانتا۔کوئی نہیں پہچانتا۔اس سے بھی زیادہ اہم بات،کہ کوئی بھی ان لوگوں یاان سے منسلک خاندانوں پرغورکرنابھی پسندنہیں کرتا۔
عرض کرناچاہتاہوں کہ یہ بے نام سے لوگ اپنی زندگی میں کیالگتے تھے اورآج کیاہیں۔یہ سب کچھ اس لیے کہ پاکستان کے دولت مندترین،اہم ترین اورطاقتورترین خاندان سمجھ سکیں کہ صرف اورصرف دوتین دہائیوں کے بعدوہ بھی مکمل طورپربے نام ہونگے۔ان کی قبریں بھی ترسیں گی کہ مہینوں میں کوئی تودعاکرنے کے لیے آجائے۔ کوئی توفاتحہ پڑھ لے۔بیابان اوراندھیرے میں اَبدی نیند سوئے ہوئے آج کے زمینی آقابالکل اسی قدرتی عمل سے گزریں گے جو ان سے پہلے کے اہم ترین لوگوں کا مقدر تھا۔
نواب مہابت خان،جوناگڑھ ریاست کاآخری حکمران تھا۔اس کی مجموعی دولت تین سے آٹھ بلین ڈالرکے برابر تھی۔ ہوسکتاہے کہ خزانہ،محل،قلعہ اورہیرے جواہرات ملاکراس سے بھی زیادہ ہو۔نواب صاحب کے شوق ملاحظہ فرمائیے۔ آٹھ سوپالتوکتے رکھے ہوئے تھے۔ہرکتے کے لیے ایک الگ کمرہ اورملازم تھا۔کمرے میں ایک ٹیلیفون بھی موجود تھا۔ مہابت خان کے تمام کتوں کوشاہی خلعت پہنائی جاتی تھی۔ گلے میں رسی نہیں ہوتی تھی۔بلکہ بیش قیمت ہیروں کاایک ہار موجود ہوتا تھا۔
مہابت خان جس بیش قیمت جانور کو ہر وقت آنکھوں کے سامنے رکھتاتھا،اسکانام جہاں آراء تھا۔ نواب کی سرکاری تصویرمیں نواب سونے سے مزین ایک کرسی پربیٹھاہے اورجہاں آراء،ہیروں سے آراستہ ہوکر اس کے قدموں میں بیٹھی ہوئی ہے۔جہاں آراء کسی خوبصورت کنیزیاکسی شاہی بیگم کانام نہیں بلکہ یہ ایک کتیاتھی۔نواب نے اس کی شادی بوبی نام کے ایک کتے سے کروائی۔یہ شادی شاہانہ رسم ورواج سے ہوئی۔جوڑے کوچاندی کی پالکی میں دربارمیں لایاگیا۔
درباریوں نے انھیں سلامی دی۔قیمتی تحفے تحائف دیے گئے۔وائس رائے ہند،لارڈ اردن کوبھی اس شاہی شادی کادعوت نامہ بھجوایاگیا۔کیاآپ اندازہ کرسکتے ہیں،کہ نواب مہابت خان نے ان تقریبات پرکتنے پیسے خرچے۔شادی پرتین لاکھ بائیس ہزارروپے صَرف ہوئے۔ آج کے حساب سے یہ چارکروڑروپے بنتے ہیں۔ شادی والے دن،ریاست میں عام تعطیل کااعلان کیاگیا تھا۔ جونا گڑھ کے بادشاہ کے سچے واقعات افسانوی حدتک عام تھے۔
جوناگڑھ کے شرفاء اوردرباری،پالتوکتوں کوخوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے تاکہ بادشاہ ان سے خوش رہے۔ دوسری طرف جوناگڑھ کے عوام حددرجہ غربت میں سانس لے رہے تھے۔بھوک،مفلسی،تعلیم کی کمیابی اورمعاش کے جائزطریقے ہرلحاظ سے مفقودتھے۔عام لوگ بادشاہ کے محبوب جانوروں سے بھی نچلی سطح پربے کسی سے سانس لے رہے تھے۔
نواب مہابت خان کے جانوروں کے لیے اعلیٰ اسپتال تھا،جس میں انگریزڈاکٹرتھے،مگرعوام کے لیے شفاء خانے نہ ہونے کے برابرتھے۔وہ راجہ جواپنے جانوروں کی شادیوں پرکروڑوں روپے خرچ کرتاتھا،آج اسکاخاندان کہاں ہے۔کس حال میں ہے۔کوئی نہیں جانتا۔
بالکل اسی طرح الور،کابادشاہ جے سنگھ ایک تاریخی کردارتھا۔جے سنگھ گرمیوں کی چھٹیاں لندن میں گزارتا تھا۔ اس کے ہمراہ اس کی بیگمات،کنیزیں،خادموں کی اَن گنت قطاریں اور سازوسامان کے ہوائی جہازجاتے تھے۔ایک دن جے سنگھ لندن کی سڑک پرپیدل سیرکررہاتھا۔شاہی خلعت اورہیروں کی بیش قیمت مالاگلے میں پہن رکھی تھی۔
اچانک جے سنگھ کی نظردنیاکی قیمتی ترین گاڑی، رولز رائس کے شوروم پرپڑی۔شوروم میں داخل ہوکراسے ایک گاڑی پسندآگئی۔ وہاں ایک انگریزسیلزمین کام کررہا تھا۔ جے سنگھ نے گاڑی کی قیمت دریافت کی۔بوڑھے انگریز کا سوال تھا،کہ یہ بہت قیمتی کارہے۔کیاآپ اسے خریدسکتے ہیں؟جے سنگھ کویہ سوال اس قدرناگوارگزراکہ غصے سے کا نپناشروع ہوگیا۔ دیوان کوحکم دیاکہ شوروم پرجتنی رولزرائس گاڑیاں موجود ہیں، فوری طورپرخریدکرالورپہنچائی جائیں۔
حکم کے تحت تمام گاڑیاں خریدی گئیںاوردخانی جہازکے ذریعے ریاست پہنچادی گئیں۔بادشاہ نے برصغیرواپس آکرحکم دیا،کہ تمام گاڑیاں، صفائی کرنے والے ادارے کے حوالے کردی جائیں اوران سے کوڑا اُٹھوانے کاکام لیاجائے۔حکم کی تعمیل ہوئی۔دنیاکی مہنگی ترین گاڑیوں کوکچرااُٹھانے پرمامور کردیاگیا۔پورے برطانیہ میں کہرام مچ گیا،کہ جوگاڑی برطانیہ میں ملکہ اورلارڈ استعمال کرتے ہیں،وہ الورمیں گنداُٹھانے کاکام کررہی ہیں۔
جے سنگھ کی اَنااس قدربلندتھی کہ وہ کسی کوخاطرمیں نہیں لاتاتھا۔جے سنگھ نے برطانیہ کے اندرکہرام کوقطعاًاہمیت نہیں دی۔حکومت برطانیہ نے کمپنی کے مالک کوحکم دیاکہ وہ الور جائے اوربادشاہ سے ذاتی طورپرمعافی مانگے۔مرتاکیانہ کرتا،رولزرائس کمپنی کامالک ہندوستان آیا۔ الور پہنچا اور جے سنگھ سے باضابطہ معافی مانگی۔جے سنگھ اس درجہ اَنا پرست تھا کہ حکم دیاکہ تحریری معافی دربارمیں سب کے سامنے مانگی جائے۔ سب کچھ ایسے ہی ہوا۔جیسے بادشاہ چاہتا تھا۔
بھرے دربار میں مالک نے لکھ کرمعافی نامہ جمع کروایا۔ اس کے بعد برطانوی تاجرکومعاف کردیاگیا۔جے سنگھ کی شخصیت میں خودپسندی اورتکبراس قدرتھاکہ دربارمیں اس کی مرضی کے بغیرایک لفظ نہیں بولاجاتاتھا۔وہ اپنی تمام دولت،قسمت اور تکبرکے ساتھ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیاگیا۔ یہ واقعہ کوئی سیکڑوں برس پہلے کا نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف چندبرس پہلے کا ہے۔ تقسیم ہندسے تھوڑاسا پہلے کا۔
بیسویں صدی میں دنیاکے مہنگے ترین جوتے بنانے والے کانام سیلوٹورفریگ گامو(Salvatore Ferragamo)تھا۔اٹلی میں مقیم یہ شخص اس درجہ قیمتی جوتے بناتاتھاکہ عام آدمی اس کے کارخانے اورشوروم کے سامنے سے گزرتک نہیں سکتاتھا۔اندرادیوی،بہارمیں واقع ایک ریاست کی رانی تھی۔اس کے عجیب وغریب شوق تھے۔ ایک شوق جومثبت تھاکہ وہ برصغیرکی پہلی عورت تھی،جس نے یوگاسیکھی اوربعدمیں شاہی خاندان کوسکھاتی رہی۔
اندرادیوی سے پہلے یوگاکے اُستادصرف مردہوتے تھے۔مگررانی کا دوسراشوق بہت ہی عجیب تھا۔اسے انتہائی قیمتی جوتے پہننے کاجنون تھا۔پورے برصغیرمیں اس کے ذوق کی تسکین کے حوالے سے کوئی بھی کاریگرنہیں تھا۔رانی نے جب سیلوٹور کا نام سنا،تو فرمان جاری کیاکہ اسے شاہی مہمان بناکر بہار بلوایاجائے۔اٹلی سے فریگ گامواپناسازوسامان لے کر بہار آگیا۔وہاں رانی نے اسے ایسے جوتے بنانے کی فرمائش کی جودنیامیں کسی عورت کے پاس نہ ہوں۔یہ چیلنج بہت بڑا تھا۔ کیونکہ فریگ پوری دنیاکی اشرافیہ کے جوتے بناتاتھا۔اسے کچھ سمجھ نہیں آیاکہ کیاکرے۔
ایک دم ذہن میں خیال آیاکہ آج تک پورے کرہِ اَرض پرکسی عورت نے اپنے جوتوں میں ہیرے جواہرات نہیں لگوائے۔اندرادیوی نے اس کی بات مان کرایسے جوتے بنوانے شروع کردیے جن پرقیمتی ترین ہیرے،سونااورنایاب پتھرلگے ہوئے تھے۔اندازہ کیجیے،کہ اندرادیوی نے کوئی دس بارہ جوڑے نہیں بنوائے بلکہ چھ سوجوتوں کے جوڑے بنواڈالے۔
پوری دنیامیں اتنے بیش قیمت جوتے کسی شہزادی،ملکہ یارانی کے پاس نہیں تھے حتیٰ کے ملکہ برطانیہ بھی اتنے قیمتی جوتے بنوانے کے متعلق تصوربھی نہیں کرسکتی تھی۔یہ صرف اورصرف ستربرس پہلے کا واقعہ ہے۔آج اندرادیوی کے جوتے کدھرہیں۔وہ نادر ہیرے جواہرات چوری ہوگئے یاکسی عجائب گھرمیں ہیں، کوئی نہیں جانتا۔اندراکی لاش کوجلاکرراکھ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔مہارانی کانام ونشان تک موجودنہیں ہے۔
شروع میں جودیگرنام درج ہیں،وہ بھی راجہ ،مہاراجہ اوربادشاہ تھے۔مگرآج کی دنیامیں کوئی انھیں جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ذہن میں سوال ہوگاکہ تاریخی تناظرمیںان لوگوں کاذکرکیوں کررہاہوں۔اس کی کیا ضرورت ہے۔صاحبان!اَشدضرورت ہے۔آج ہمارے ملک میں دولت مندترین اورطاقتورترین دس پہلے خاندانوں کی فہرست بنائیے۔تقریباًہرایک کی مرتب کردہ لسٹ میں شامل خاندان یکساں ہونگے۔
ان مقتدرخاندانوں اوربرصغیرکے پرانے راجے ،مہاراجوں میں رَتی بھرکافرق نہیں۔ان کی بیگمات اور بچوں کاتقابلہ اگراندرادیوی سے کیاجائے،توشائدخودنمائی اورشوقین مزاجی میں یہ بہارکی اس اندرا رانی سے ہزاروں قدم آگے ہوں۔پوری دنیامیں ان کے خزانے اورشاہی قلعے موجودہیں۔درباری ان کی عقل اوردانش کے گیت گاتے ہیں۔سردھنتے ہیں۔ مگر ہمارے مقتدرخاندان یہ بھول گئے ہیں کہ یہ چندسالوں بعد اسی بے نام تابوت میں گڑے ہونگے،جس میں وہ بادشاہ موجودہے۔
جس کی ریاست کاکچرا،رولزرائس اُٹھاتی تھی۔ان کی خواتین بھی بھولی ہوئی ہیں کہ اندرادیوی کے ہیروں والے جوتے نہ رہے،توان کے زیورات اورجواہربھی برباد ہوجائینگے۔ عوام کے پیسوں کولوٹ کریہ چندخاندان یہ بھی بھول گئے کہ بوبی اورجہاں آراء نام کے پالتوجانوروں کی شادی پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والانواب بھی گمنامی کی مٹی اوڑھے سورہاہے۔بوبی اورجہاں آراء کے انجام کوہی سامنے رکھ لیں۔دونوں جانور،بادشاہ کے مرنے کے بعدسزاکے طورپرگاڑی سے کچل دیے گئے تھے۔یہ ہوتی ہے نفرت!سمجھیے اورہوش میں آئیے۔