مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف انتخابی امیدوار فائنل نہ کر سکیں

مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹ فائنل نہ ہونے کی وجہ امیدواروں کے معاملے پر قیادت میں پائے جانے والے۔۔۔


Khalid Qayyum April 09, 2013
مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹ فائنل نہ ہونے کی وجہ امیدواروں کے معاملے پر قیادت میں پائے جانے والے اختلافات ہیں۔ فوٹو : فائل

الیکشن میں ایک ماہ رہ گیا ہے، لاہور کے اندر دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ مقابلہ انہی دو جماعتوں کے مابین ہوگا، وہ ابھی تک نہ تو اپنے انتخابی امیدوار فائنل کرسکی ہیں اور نہ ہی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔

ادھر نواز شریف اور عمران خان کے گڑھ میں نسبتاً کمزور خیال کی جانے والی پیپلزپارٹی لاہور میں باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کرچکی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے پارلیمانی بورڈ نے اپنے امیدواروں کے حتمی ٹکٹ دو ہفتے پہلے ہی جاری کردیئے تھے جس کے فوراً بعد پارٹی امیدواراپنے اپنے حلقوں میں متحرک ہوگئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹ فائنل نہ ہونے کی وجہ امیدواروں کے معاملے پر قیادت میں پائے جانے والے اختلافات ہیں۔

اس حوالے سے مسلم لیگ(ن) کی ہی مثال لیجئے، این اے 126کا ٹکٹ سہیل ضیاء بٹ یا عمر سہیل بٹ کو دینے پر نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان بھی اختلاف ہے ۔ شہباز شریف 2008ء میں بھی عمر سہیل بٹ کو ٹکٹ دینے کے حق میں نہیں تھے ۔ وہ سہیل ضیاء بٹ کو اس زمانے سے ناپسند کرتے ہیں جب میاں نواز شریف کو بطور سیاستدان اندرون شہر میں لوگ بہت کم جانتے تھے ۔ سہیل ضیاء بٹ انہیں امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے کے شریف نوجوان کے طور پر متعارف کرایا کرتے تھے۔

کئی قارئین کے علم میں ہوگا کہ نواز شریف کا پہلا جلسہ سہیل ضیاء بٹ نے میاں یوسف صلاح الدین کی حویلی میں کرایا تھا جس کے بعد میاںصاحب باقاعدہ طورپر تحریک استقلال سے وابستہ ہوگئے۔ سہیل ضیاء بٹ ، نواز شریف کے کزن بھی ہیں تاہم سیاست میں سہیل ضیاء بٹ ، شریف خاندان اور نواز لیگ کا '' اٹوٹ انگ'' بن چکے ہیں۔ سہیل ضیاء بٹ لاہور کے کشمیری خاندانوں کا وہ واحد خانوادہ ہے جس نے 8 برس نواز شریف کے ساتھ سعودی عرب میں جلاوطنی میں گزاردیئے تاہم 2008ء کے انتخابات میں بی اے کی ڈگری کی شرط کی وجہ سے سہیل ضیاء بٹ الیکشن سے باہر ہوئے اور ان کے صاحبزادے عمر سہیل بٹ کو ٹکٹ دے دیاگیا، وہ ریکارڈ ووٹوں سے کامیاب ہوئے۔

تاہم شہباز شریف کے قریبی حلقوں کے مطابق سہیل ضیا بٹ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ چونکہ وہ نوازشریف کی ناک کا بال سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم اطلاعات ہیں کہ نواز شریف اس مرتبہ شہباز شریف اور ان کے ساتھیوں کے دباؤ میں آکر سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ سہیل ضیاء بٹ اور عمر سہیل بٹ دونوں کو ہی پارٹی ٹکٹ نہ دیا جائے۔ صورتحال یہ ہے کہ دونوں باپ بیٹا نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 126اور این اے 127سے پارٹی ٹکٹ مانگ رکھا ہے۔ اگر پارٹی قیادت بٹ برادران کے دباؤ میں آگئی تو انہیںصوبائی حلقے سے ٹکٹ دیا جاسکتا ہے۔

سہیل ضیاء بٹ اور عمر سہیل ضیا بٹ نے پی پی 152 اور پی پی 153 سے بھی کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے حال ہی میں نامزد سیکرٹری جنرل لطیف کھوسہ کے صاحبزادے خرم کھوسہ این اے 127سے پیپلزپارٹی کے امیدوار ہیں مگر ان کی ہٹ دھرمی سے پیپلزپارٹی لاہور اختلافات کا شکار ہے۔ پارلیمانی بورڈ نے خرم کھوسہ کو این اے 127اور ان کے ساتھ صوبائی حلقوں پی پی 153 میں جہانگیر بدر کے صاحبزادے علی بدر اور 154 سے فیصل میرکو ٹکٹ دیئے، اس پر خرم کھوسہ نے اعلان کیا کہ وہ دونوں کے ٹکٹ نہیں رہنے دیں گے۔

پہلے مرحلے میں جہانگیر بدر کے بیٹے علی بدر سے پی پی 153 کا ٹکٹ واپس کرادیا اور میاں طارق عزیز کو ٹکٹ دلوادیا۔ این اے 127 سے پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماء اسلم گل بھی امیدوار تھے مگران کی قربانیاںنظر انداز کردی گئیں جس پر جہانگیر بدر اور اسلم گل ناراض ہوکر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ فریال تالپور کی سربراہی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی طرف سے پی پی 154 کا ٹکٹ پروفیسر وارث میر کے صاحبزادے فیصل میر کو دیا گیا مگر وہ بھی انہیں قابل قبول نہیں ہیں۔

خرم کھوسہ اپنے قریبی عزیز مسلم لیگ(ق) کے فیاض بھٹی کو ٹکٹ دلوانے کے لئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ خرم کھوسہ کے حلقے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے پارٹی میں بڑی تشویش پائی جارہی ہے اور لیڈر شپ نے بھی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ خرم کھوسہ بطور لیگل ایڈوائزر پیپکو، تنخواہ ، پٹرول ،گاڑی اور دیگر سرکاری مراعات حاصل کررہے ہیں، ان کے خلاف ریٹرننگ افسر کے پاس اعتراضات بھی دائر کئے گئے مگر اتوار کے روز چھٹی کے باعث ان کا تقرر نامہ پیش نہ کیا جاسکا اور اب ان کے کاغذات نامزدگی الیکشن ٹربیونل میں تقرر نامے کے ساتھ چیلنج کئے جارہے ہیں۔

این اے 127 سے تحریک انصاف کے امیر ترین امیدوار عبدالعلیم خان اور ان کے گروپ نے بھی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر احتجاج کیا تھا۔ عمران خان انہیں نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لئے عبدالعلیم خان کو پی پی 153 اور 154 میں اپنی مرضی کے صوبائی امیدوار نامزد کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ تاہم عبدالعلیم خان نے حکمت عملی کے تحت اپنے امیدواروں کا بھی اعلان نہیں کیا۔

علیم خان این اے 125 سے امیدوار تھے مگر اس حلقے سے حامد خان ٹکٹ لینے میں کامیاب رہے۔ تحریک انصاف لاہور کے جنرل سیکرٹری عبدالرشید بھٹی بھی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی چھوڑ چکے ہیں اور اب وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ان کی بات چیت جاری ہے مگر ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔ رشید بھٹی 93ء اور 2002ء کے انتخابات میں پی پی 161 سے ایم پی اے رہ چکے ہیں۔الیکشن میں بہت کم وقت رہ گیا ہے، سیاسی قیادت اپنے اندرونی مسائل حل کرنے میں مصروف ہے، اس کھینچاتانی میں لاہور شہر میں انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔