زبانی دعوے نہیں عمل کریں
کیسا جذبہ تھا اور فرض کی ادائیگی کا احساس کہ یہ مال حکومت کی امانت ہے۔
FLORIDA:
سب سے پہلے تو فرح اور مسرور کا شکریہ کہ انھوں نے پیار بھری ڈانٹ پلائی اور ہمیں یاد دلایا کہ وہ بھی ہر قدم، ہر شرارت، ہر واقعے میں ہمارے ساتھ تھے اور ہمیں بادام کھانے کا مشورہ دیا۔ خالی مشورہ دیا اگر بادام بھیج دیتے تو ہم کھا بھی لیتے۔
ہم ہوں یا ہمارے ساتھی، اکثریت کا یہ حال ہوگیا ہے کہ مثبت باتوں کی طرف توجہ ذرا کم رہتی ہے اور منفی چیزوں کی طرف زیادہ۔ اس لمبی تمہید کا خیال یوں آیا کہ حکومتی اداروں کے بارے میں اکثریت کا گماں یہ ہے کہ بروقت کام سر انجام دینا ان کی سرشت میں نہیں، مگر ایسا نہیں، ہر جگہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے ادارے کے ماتھے پر جھومر ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ کورنگی نادرا آفس کی دیوار کے ساتھ کچھ ٹائر پنکچر کے کیبین ہیں، کچھ دن ہوئے وہاں آگ لگ گئی یا لگادی گئی۔ شدت کی آگ جس کے شعلے عمارتوں سے بھی اوپر جارہے تھے، کیبنوں میں کمپریسر بھی موجود تھے۔
آگ نے نادرا کی دیوار کو بھی متاثر کیا لیکن کسی شہری کی اطلاع پر فوری طور پر فائر بریگیڈ کا عملہ پہنچ گیا کہ لوگ حیران رہ گئے، ساتھ ساتھ پولیس کی موبائل بھی موجود تھی، فائر بریگیڈ کے عملے نے آگ پر قابو پالیا اور اپنے کام کو سر انجام دے کر چلے گئے۔ نہ ستائش کی پروا، نہ صلے کی تمنا۔ مگر ان کے بروقت آنے کی وجہ سے ایک بڑی تباہی آتے آتے رہ گئی، جس کا شکریہ ادا نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ ابھی کچھ لوگ ہیں جنھیں اپنے فرائض کا احساس ہے۔ حقوق کی بات تو سب کرتے ہیں مگر بات تو یہ ہے کہ اپنے فرائض احسن طریقے سے سرانجام دیے جائیں۔
پاکستان کو بنے ہوئے 70 سال سے زائد ہوگئے، جب تک قائداعظم اور لیاقت علی خان موجود رہے، اس وقت تک ایک جذبہ جنوں تھا کہ نئی مملکت کو چلانا ہے اور تن من دھن سے اس کو قدموں پر کھڑا کرنا ہے، مگر آہستہ آہستہ یہ جذبہ ختم ہوکر رہ گیا۔ قدرت اﷲ شہاب اپنی کتاب شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ ''ایک جگہ میں نے دیکھا کہ ایک مفلوک الحال میاں بیوی، جو کہ بہت ضعیف تھے، چیتھڑوں کی صورت کپڑے پہنے، شکل سے ہی جو فاقہ زدہ لگ رہے تھے، دو بوریاں اپنے گدھے پر لادے چلے آرہے ہیں اور انھوں نے پاکستان کے بیت المال کے بارے میں پوچھا اور بتایا کہ ان بوریوں میں سونا چاندی جواہرات ہیں، جو صدیوں سے تباہ ان کے گاؤں سے ملے ہیں اور وہ حکومت پاکستان کو دینا چاہتے ہیں''۔
کیسا جذبہ تھا اور فرض کی ادائیگی کا احساس کہ یہ مال حکومت کی امانت ہے۔ امانت کا بار ان پر اتنا بھاری تھا کہ اس سے چھٹکارا پا کر ہی انھوں نے سکون کا سانس لیا ہوگا۔ آج یہ احساس فنا ہوگیا ہے، اربوں کھربوں ڈکار کر بھی معصوم اور مظلومیت کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ 'قرض اتارو، ملک سنوارو' جیسے حسین نعرے سے لوگوں میں ملک کے لیے جذبات ابھارنے والوں سے کوئی پوچھے کہ ملک کتنا سنوارا؟ کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ پیسہ کہاں گیا۔ کوئی حساب کتاب ہوتا ہے۔ کس مد میں وہ پیسے خرچ ہوئے۔ ملک کی ترقی کتنی ہوئی۔ جواب میں خاموشی یا پھر یہ جواب کہ ہمارے پاس جو دولت ہے کسی کو کیا۔
آج ہوتے ہوتے ملک کی یہ حالت ہوگئی کہ ڈالر بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ افغانستان، بنگلہ دیش جیسے ممالک میں بھی پاکستان سے انتہائی کم میں ڈالر ملتا ہے، لیکن صرف ذاتی جنگ کے سلسلے میں ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے راتوں رات ڈالر بلندی پر پہنچ گیا۔ ملک تو اپنا ہے، لڑائی اداروں سے ہے تو وہ لڑائی آئین اور قانون کے حقیقی دائرے میں رہتے ہوئے لڑیں۔ ملک اور عوام تو اپنے ہیں، ان ہی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلیوں تک جاتے ہیں اور بات کرتے ہیں ووٹ کے تقدس کی۔
یہ کیسا تقدس ہے کہ ووٹ دینے والوں کو ہی بھوک و افلاس سے مار دیا جائے، ہر چیز ان کی پہنچ سے دور کردی جائے۔ سابقہ نااہل وزیراعظم کا تازہ ارشاد ہے کہ میں پہلے کم نظریاتی تھا اب مکمل طور پر نظریاتی ہوگیا ہوں۔ واہ کیا بات ہے۔ اگر اﷲ نے آپ کو نظریاتی کر ہی دیا ہے تو اس کا ثبوت بھی پیش کریں۔ جتنی دولت ملک سے باہر ہے، خواہ اپنی ہو یا دوسروں کی، وہ سب واپس لائیں۔ تو پھر یقین آئے کہ آپ واقعی نظریاتی ہوگئے ہیں۔
نظریاتی تو کوریا کے حکمران تھے کہ جنھوں نے اپنے ملک کو سنوارنے کے لیے ایک وقت کھانے کی بات کی، تو عوام کے ساتھ ساتھ خود بھی کھانا نہیں کھایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوریا اقوام عالم میں بلند مقام رکھتا ہے۔ نظریاتی کہنے سے نہیں، کام کرنے سے ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ دن کی روشنی میں دھاڑ رہے ہیں اور رات کی تاریکی میں منت ترلے۔