جھوٹ بولنے والے اور سننے والے
ہمارے ملک کے جھوٹ سننے والے تمام کے تمام لوگ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں۔
MELBOURNE, AUSTRALIA:
ہم دنیا کی سب سے زیادہ جھوٹ سننے والی قوم بن گئے ہیں، ایک سے ایک بڑا لیٹرا، چور بد دیانت اپنے آپ کو شریف، اچھا اور دیانتدار ثابت کرنے کے لیے دن رات ہم سے جھوٹ پہ جھوٹ بولے چلے جا رہا ہے اورہم ہیں کہ ان کے جھوٹ پہ جھوٹ سننے ہی جا رہے ہیں نہ جھوٹ بولنے والوں کو شرم آرہی ہے اور نہ ہی جھوٹ سننے والوں کو شرم آرہی ہے۔
یہ عمل سالوں سے جوں کا توں اسی طرح سے جاری و ساری ہے، اب پاکستان دو حصوں میں بٹ کے رہ گیا ہے ایک جھوٹ بولنے والے اور دوسرے جھوٹ سننے والے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ جھوٹ بولنے والوں کو شاباشی اور داد دینے کو بہت دل چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کی ہمت، جرأت اور دیدہ دلیری کو بھی بار بار خراج تحسین پیش کرنے کو دل چاہتا ہے کیونکہ وہ ڈھٹائی، بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ مسلسل اور لگا تار جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہیں اور وہ بھی مسلسل اور تسلسل کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ کہ ان کے جھوٹ اثر دکھا رہے ہیں رنگ لارہے ہیں اور لوگ ان کے جھوٹ کوکھلا سچ تسلیم کرنے لگے ہیں۔کیا یہ دلچسپ بات نہیں ہے کہ یا وہ سب شاباشی کے قابل نہیں ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ سب ڈبل شاباشی کے حقدار ہیں تو غلط نہ ہوگا۔
آئیں! اس ''ڈبل شاباشی'' پر بات کرتے ہیں فرض کریں ایک شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکہ ڈالتا ہے یا بددیانتی کرتا ہے اور پکڑا جاتا ہے پھر وہ اپنے کرتوت کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے یہ تو ہوئی ایک بات۔ لیکن دوسری طرف ایک آدمی مسلسل لگا تار چوری پہ چوری کررہا ہے ڈاکے پہ ڈاکے ڈالے ہی جارہا ہے بد دیانتی پہ بد دیانتی کرتے ہی جا رہا ہے اور اس بات پر بھی بضد ہے کہ اسے شریف، اچھا ،ایماندار اور دیانتدار نہ صرف مانا جائے بلکہ سرعام تسلیم بھی کیا جائے اور ساتھ ساتھ اسے ان خوبیوں کا سرٹیفیکیٹ بھی دیا جائے اور مزے کی بات یہ ہے کہ چور، ڈاکو اور بد دیانت کہنے پر ناراض ہوجائے۔
غم و غصہ کرنے لگے اور کہنے والوں کو برا بھلا کہنے بیٹھ جائے اپنے حامیوں اور ساتھیوں کی عوامی عدالت لگا لے اور ان سے اپنے حق میں فیصلے پہ فیصلہ لیے جائے اور کہے کہ عوامی فیصلے کے بعد مجھے چور، لٹیرا اور بددیانت کیوں کہا جا رہا ہے، اب آپ ہی کہیں کہ کیا ایسا شخص '' ڈبل شاباشی'' کا حقدار نہیں ہے۔
آپ دنیا بھر کی تاریخ اٹھا کر باربار پڑھ لیں ایسی دلچسپ صورتحال جس کا کہ ہمیں سامنا ہے آپ کو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی حتیٰ کہ قبل از مسیح میں بھی کسی قوم کو ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔
یاد رکھیں دیانتداری، ایمانداری ایک مسلسل عمل ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے وہ کسی بھی عمل کا نتیجہ یا سرٹیفیکیٹ نہیں ہوتا ہے جو آپ کو ایک بار مل جائے تو آپ ساری زندگی کے لیے دیانتدار اور ایماندار بن جاتے ہیں اور اسے اٹھائے اٹھائے پھرتے رہتے ہیں اور لوگوں کو اس کی نمائش کرتے پھرتے ہیں۔
نامور مصنف ہال اربن لکھتا ہے ''میرے ایک ایسے دوست نے جو میرے علم میں آنے ولا سب سے زیادہ دیانتدار شخص ہے ایک دن مجھ سے کہا میں اپنی زندگی کے ہر روز دیانتدار بننے کے لیے جدوجہد کرتا ہوں اس کی بات سن کر میں حیران ہوا اور متجس بھی، چنانچہ ہم نے اس موضوع پر ایک طویل بحث کی اس بحث کے نتیجے میں مجھے اس حقیقت کا علم ہوا کہ ہم سب خیرو شر کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں یہ زندگی کی ایسی قوتیں ہیں جو کہ وقت کے آغاز سے ازل سے موجود ہیں اور ان کے درمیان سے فرار ہونا ناممکن ہے۔
ہمیں حقیقتاً ان دونوں قوتوں کے عین درمیان رکھا گیا ہے اور ہمیں ہر روز ان دونوں میں انتخاب کرنا پڑتا ہے افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی بددیانتی کے گھیرے میں ہیں ۔'' کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ بددیانتی ہمیں ویسا شخص نہیں بننے دیتی جیسا کہ ہم بننا چاہتے ہیں اور بن سکتے ہیں، یہ سرطان کی طرح ہوتی ہے ابتدا تھوڑی بددیانتی سے ہوتی ہے اور اگر اس کا سراغ نہ لگایا جائے اور مکمل طور پر ختم نہ کیا جائے تو یہ پھیل کر قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور با لآخر ہمیں تباہ کر دیتی ہے، اسے کسی بھی بیماری سے زیادہ انسانوں کو برباد کرتے دیکھا گیا ہے۔
اہم نفسیات دان اور مصنف لیوئس اینڈریو نے 1989ء میں شایع ہونے والی اپنی کتاب To Thine Own Be True میں لکھا ہے کہ بددیانتی کا رویہ ہمارے بیشتر نفسیاتی مسائل کی جڑ ہے وہ لکھتا ہے کہ ہمیں ایک فرد کی اقدار اور اس کی صحت کے درمیان رشتے پر ایک سنجیدہ نگا ہ ضرور ڈالنی چاہیے، اگر ہم اپنے ملک کے بد دیانتوں پر ایک سنجیدہ نگاہ ڈالیں تو ہم اس حقیقت سے آشنا ہوجائیں گے کہ وہ سب کے سب نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، ان میں سے ہمیں ایک بھی شخص ایسا نہیں ملے گا جو ذہنی و جسمانی طور پر صحت مند ہو۔
یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص بددیانت ہو اور وہ ذہنی طورپر صحت مند بھی ہو ۔ سینٹ آگسٹائن نے آج سے تقریباً سولہ سو سال پہلے اپنی آپ بیتی ''اعترافات'' میں لکھا تھا کہ اس نے دھوکہ دہی اور لوگوں کا حق مارکر سماجی ومعاشرتی اعتبار سے ترقی کی ایک دن اس نے تقریرکے دوران ایک فقیر کو دیکھا اور اس نے اس تقریرکے دوران جھوٹ بولے تھے اس نے دیکھا کہ فقیر نہایت مطمئن اور مسرور دکھائی دے رہا ہے جب کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔
اس کے بر عکس اس نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے لیکن سخت بے اطمینان اور اضطراب زدہ ہے، اس نے غورکیا تو اسے حقیقت کا علم ہوا کہ وہ فقیر ایک مصدقہ شخص ہے اپنے ساتھ سچا ہے جب کہ آگسٹائن اپنے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ اس سے اسے یہ سمجھنے میں مدد ملی کہ اس نے مستقل طور پر غلط کام کرنے کی وجہ سے خود کو ''سرتا پا بدحال'' بنا لیا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے ملک کے جھوٹ سننے والے تمام کے تمام لوگ مطمئن اور مسرور دکھائی دیتے ہیں حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ جب کہ جھوٹ بولنے والے جنہوں نے سب کچھ حاصل کرلیا ہے سخت بے اطمینان، اضطراب ذرہ اور سر تا پا بدحال دکھائی دیتے ہیں وہ سب کچھ حاصل کر لینے کے بعد بھی کنگال، مفلس اور بھکاری کے بھکاری ہی رہے۔