4 اپریل سوچنے کا دن
بھٹو کو 4اپریل 1979 کو پھانسی دی گئی مگر ابھی تک ان کے نام پر لوگ ووٹ دیتے ہیں۔
DAMASCUS:
ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے دوسرے سیاسی رہنما ہیں جنہوں نے کئی نسلوں پر اپنے اثرات چھوڑے۔ بھٹو کو 4اپریل 1979 کو پھانسی دی گئی مگر ابھی تک ان کے نام پر لوگ ووٹ دیتے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو 1957 میں بیرسٹری کر کے پاکستان آئے تو انھوں نے کراچی میں پریکٹس شروع کی اور ایس ایم لاء کالج میں تدریس کے فرائض انجام دینے شروع کیے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس زمانے میں قوم پرستانہ نظریات سے متاثر نظر آتے تھے وہ صدر اسکندر مرزا کی کابینہ میں جونیئر وزیر کی حیثیت سے شامل ہوگئے۔ جنرل ایوب خان کی حکومت میں پہلے وزیر صنعت اور وزیر خارجہ کے عہدوں پر تعینات رہے۔ انھوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئے بین الاقوامی رجحانات کے تحت استوار کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کی آزادی کے لیے ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا اعلان کیا، یوں وہ آپریشن جبرالٹرکے مصنفین میں شامل ہوئے۔
1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی۔ پھر روس کے وزیر اعظم کوسیجن کی کوششوں سے صدر ایوب اور بھارتی وزیر اعظم لعل بہادر شاستری تاشقند میں جمع ہوئے اور پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند ہوا جس کے بعد احتجاجاً ذوالفقار علی بھٹو ایوب حکومت سے علیحدہ ہوگئے اور یہ نعرہ لگایا کہ معاہدہ تاشقند کی خفیہ شقوں کا وقت آنے پر انکشاف کریں گے۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے بائیں بازو کے نظریات کے حامل بابائے سوشلزم شیخ رشید، جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن کو ساتھ ملایا۔
بائیں بازو کے معروف سابق طالب علم رہنما معراج محمد خان بھٹو کی شخصیت سے متاثر ہوئے، یوں پیپلز پارٹی قائم ہوئی۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (N.S.F)، مزدوروں اور کسانوں کی انجمن اور دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیمیں بھٹو کی حامی ہوگئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہر فرد کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کا پر کشش نعرہ دیا۔ بھٹو نے عملی طور پر مزدوروں اور کسانوں سے تعلق کا اعادہ کیا۔
پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں زرعی اصلاحات ، صنعتوں اور بینکوں کو قومیانے، ریاست کو ہر شہری کی تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کا فریضہ انجام دینے جیسے بنیادی نکات درج کیے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کو عوام تک پہنچانے کے لیے قمیض شلوار کو رائج کیا۔ وہ بڑے کلبوں، ہوٹلوں، جلسوں اور دعوتوں میں یہ لباس پہن کر جانے لگے۔ کھلے گریبان اور کھلی آستینوں کے ساتھ جلوسوں میں عوامی زبان میں خطاب کی بناء پر وہ سندھ، پنجاب اور سرحد کے لوگوں کی پسندیدہ شخصیت بن گئے۔
بھٹو صاحب نے 1970ء کے انتخابات میں پنجاب میں پہلی دفعہ درمیانے طبقے اور نچلے درمیانے طبقے کے رہنماؤں کو ٹکٹ دیے۔سندھ کا جاگیردار اور متوسط طبقہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوا۔ لیاری کا علاقہ جہاں نیشنل عوامی پارٹی نے طویل جدوجہد کی تھی ، اب یہ علاقہ پیپلز پارٹی کا گڑھ بن گیا۔
سرحد میں مسلم لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے مقابلے میں پیپلز پارٹی ابھری۔ پھر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دیا۔ 90 ہزار فوجیوں کو بھارت کی قید سے رہائی دلائی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بنیادی اصلاحات کیں، لیبر پالیسی سے مزدوروں کو کئی فائدے حاصل ہوئے اور زرعی اصلاحات کے نتیجے میں بے زمین کسانوں کو زمینیں مل گئیں۔
اس کے بعد بھٹو حکومت بیوروکریسی کے لپیٹے میں آگئی۔ معراج محمد خان جیل پہنچادیے گئے، جے اے رحیم معتوب ہوئے اور پیپلز پارٹی مذہبی نعروں میں آگئی۔ 1977 کے انتخابات میں وہ مقتدرہ کی سازش کا شکار ہوئے۔ انھوں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کیا اور ایک متنازعہ عدالتی فیصلے میں پھانسی پاگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی جان کی قربانی نے انھیں سیاست میں امر کردیا۔
بھٹو کی جان بچانے کے لیے پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں نے برسوں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ کئی کارکن جل کر مر گئے ، فوجی عدالتوں سے کوڑے کھائے اور سیکڑوں افراد ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہوئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو اور صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے ضیاء الحق کی آمریت کو چیلنج کیا، پولیس کی لاٹھی سے بیگم نصرت بھٹو کا سر پھٹ گیا۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کرائے اور پھر اپنے نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو برطرف کر کے تاریخ کے کوڑے دان میں کھو گئے۔
بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی 1988 سے 1999 تک دو دفعہ اقتدار میں آئی۔ یہ کامیابی پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی قربانی اور ان کی مظلوم طبقات کے لیے جدوجہد کی بناء پر حاصل ہوئی لیکن پیپلز پارٹی میں سیاسی کلچر کمزور ہوتا چلا گیا۔ پیپلز پارٹی نے مزدوروں اور کسانوں کی سیاست سے منہ پھیر لیا اور کرپشن پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں نظر آنے لگی۔ مگر دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی پھر اقتدار میں آئی۔
اب آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے مختار کل بن گئے۔ آصف زرداری نے ایک طرف اپنی اہلیہ بے نظیر بھٹو اور میاںنواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کا پاس کیا جس کے تحت صدر کے قومی اسمبلی کو توڑنے کے اختیارات ختم ہوئے اور 1940 کی قرارداد لاہور کی بنیاد پر صوبوں کو خودمختاری حاصل ہوئی مگر دوسری طرف پیپلز پارٹی کو ایک تجارتی کمپنی میں تبدیل کردیا گیا۔
اب صدر زرداری کے قریبی دوست پارٹی کے کلیدی عہدوں اور حکومتی عہدوں پر براجمان ہوئے۔ پارٹی میں نظریاتی و سیاسی کلچر دم توڑنے لگا۔ پیپلز پارٹی کا مزدوروں کی جدوجہد، کسانوں کی بہبود کے لیے زرعی اصلاحات اور غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے لیے جدوجہد سے تعلق نہ رہا۔ سابق صدر آصف زرداری نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے روڈ میپ پر قدم جما کر چلنا شروع کیا۔
حال ہی میں ذوالفقار علی بھٹو کی رہائی کے لیے جیل جانے والے رضا ربانی اور فرحت اﷲ بابر معتوب ہوئے۔ کرپشن نے پہلے وفاقی حکومت اور پھر سندھ حکومت کو مکمل طور پر حصار میں لے لیا۔ ہر نشست بکنے لگی، یوں پیپلز پارٹی کی کشش مردہ ہونے لگی۔
ذوالفقار علی بھٹو پہلے ایوب خان کے دور میں وزیر رہے ، پھر 1972 میں وزیر اعظم بنے ، ان پر حزب اختلاف نے بہت سے الزامات لگائے تھے مگر کرپشن کا کوئی الزام بھٹو صاحب پر نہ لگا، یوں اب پیپلز پارٹی اور عوام میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ بھٹو کی جماعت کا مظلوم عوام سے ناتا ٹوٹنا جمہوری نظام کے لیے ایک زبردست جھٹکا ہے۔ اب پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی طرح عسکری مقتدرہ کی جماعت ہے، یوں پیپلز پارٹی اپنی کشش کھو رہی ہے۔
تحریک انصاف اور کالعدم مذہبی جماعتیں پیپلز پارٹی کا خلاء پر کرنے کی کوشش کررہی ہیں مگر پیپلز پارٹی کے انحطاط کا عام آدمی کو نقصان ہوا ہے۔ اب مظلوم عوام کے لیے جدوجہد کرنے والی کوئی سیاسی جماعت دستیاب نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی مظلوم عوام کی آواز تھی، کیا یہ آواز پھر طاقت ور ہوسکتی ہے؟ 4اپریل کا دن یہ بات سوچنے کے لیے بہترین دن ہے۔