ایک عظیم پاکستانی صحافی کا فرضی انٹرویو

خبر وہ ہے جو بندے کی ٹیوب سے ساری ہوا نکال دے، جسے پڑھ کر وہ ایسے رک جائے جیسے ایک موٹرسائیکل پنکچر ہوکر رک جاتی ہے


شہباز علی خان April 05, 2018
خبر وہ ہے جو بندے کی ٹیوب سے ساری ہوا نکال دے، جسے پڑھ کر وہ ایسے رک جائے جیسے ایک موٹرسائیکل پنکچر ہوکر رک جاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

میں ہوں آپ کا جانا پہچانا میزبان۔ آج کی شام ایک صحافی کے ساتھ میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

عوامی ذرائع ابلاغ میں صحافت کو اعلی مقام حاصل ہے اور ہر دور میں معاشرے کی تربیت، قیام امن، ثقافت اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں صحافت کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ صحافت نے معاشرتی زندگی کو متوازن اور مثبت رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کچھ لوگ اسے صرف تجارت کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ زیادہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی اعلی مقصد کو نصب العین بنا کر صحافت کے میدان میں قدم جمائے رہنا ہر حال میں قابل احترام ہے جس کے تحت صحافی، معاشرے کو مستعد اور چوکنا رکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے اور معاشرتی اصلاح و بہبود اس کا بنیادی مقصد ہے۔ اسی سلسلے میں آج ہم نے دعوت دی ہے ایک جانی پہچانی شخصیت کو، فن صحافت میں ان کا ایک بلند مقام ہے تو آئیے پروگرام کا آغاز کرتے ہیں۔

میزبان: آپ نے اس شعبہ کا انتخاب کیوں اور کیسے کیا؟

ارے ارے ایک منٹ! ٹھہرئیے! آپ نے جانی پہچانی شخصیت کہہ کر ہمارا اصل نام کیوں ایڈٹ کر دیا۔ میں اپنے متاثرین سے اپنا تعارف خود کرواتا ہوں۔ جی تو میرے پیارے اور بے خبر ساتھیوں، میرا نام چنو میاں ہے، اور بیشتر صحافیوں کی طرح میں نے بھی ایک افلاس زدہ گھر نما دڑبے میں آنکھ کھولی۔ مگر وہ صحافی ہی کیا جو غربت میں آنکھ کھولے اور مفلسی ہی میں مر پٹ جائے۔ اب آتے ہیں میرے نام کی طرف۔

تو جناب جب ہم پیدا ہوئے تو بے نام ہی تھے۔ کچھ دنوں بعد ہمارے ابا میاں نے محسوس کیا کہ ان کے ''چندے ماہتاب'' کی آنکھیں تو موجود ہیں مگر کچھ چھوٹے سائز کے ساتھ ساتھ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد بند ہو جاتی ہیں... تو بس انہوں نے ہمیں ''چنو'' کا نام دیا۔ میٹرک میں دو تین بار فیل ہوئے تو دادا حضور نے کہنا شروع کر دیا ''او میاں! کب سمجھ آئے گی تمہیں؟ اور کچھ نہیں تو میٹرک ہی کرلو۔'' مجھے یہ ''میاں'' نام بھا گیا۔ پہلے سوچھا کہ چنو کے شروع میں لگاؤں مگر کسی نے کہا یہ تو شہر کا نام بن جائے گا؛ بس پھر میں نے چنو کے آگے میاں لگا دیا اور یوں چنو سے ''چنو میاں'' بن گیا۔

1977 سے 1988 تک میں جرنل ازم کو ایسا شعبہ سمجھتا اور سنتا رہا جس میں طاقت چھپی ہوتی ہے اور مجھے یہ لفظ جرنل بہت متاثر کرتا چلا گیا۔ وہ تو بعد میں میرے ایک ساتھی نے تصحیح کی کہ چنو میاں تمہیں جرنل اور جنرل کا فرق ہی نہیں پتا! تم ایک دن بہت بڑے جلیل القدر صحافی بنو گے۔ میں نے کہا کہ میرا دماغ خراب نہ کرو، مجھے نہیں جاننا۔ دیکھو بھائی صحافی اور موسیقار وہی اچھے جو پبلک ڈیمانڈ پر چلتے ہیں۔

خیر! میں بتا رہا تھا کہ ہمارے ابا کی پرچون کی دکان تھی۔ بس ابا نے دیکھا کہ کہیں میں ان کے جوڑوں ہی میں نہ بیٹھ جاؤں تو انہوں نے دکان پر بٹھا دیا۔ سرخ مرچ، چینی اور دالوں کے اوزان بڑھانے کےلیے کون کونسے سستے آئٹمز کس مقدار میں ملانے ہیں؟ اس سائنسی علم پر عبور تو ہم نے دودھ کے دانت ٹوٹنے سے بھی پہلے حاصل کر لیا تھا۔ ابا جی نے جب دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھی تو کیش کےلیے بڑا باکس بنا دیا۔

ہائے! اس دن کتنے خوش تھے وہ! بس غریب غرباء کی نظرِ بد کھا گئی اور ایک دن اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھے چینی کی ایک پھنکی منہ میں ڈال لی، بس دوسرا سانس نہیں آیا کیونکہ میں نے ابھی تازہ تازہ سوڈے کی ملاوٹ کی تھی اور مکسنگ کی نہیں تھی۔

میزبان: بہت افسوس ہوا مگر میرا سوال بیچ ہی میں رہ گیا کہ آپ صحافت میں آئے کیسے؟

چنو میاں: ایک تو آپ حضرات مہمان کی بات کاٹ کر اپنا راگ شروع کر دیتے ہیں۔ مہمان میں ہوں یا آپ؟ خبردار اب ایک سوال بھی منہ سے نکالا تو! پتا ہے مجھے سب سوالات کا۔ چپ کر کے سنو! خیر، تو ایک دن ہوا یوں کہ ایک بندہ آیا، اس نے کھلا گھی اور دال لی، اگلے دن وہ پھردوکان پر آیا اور خوش ہو کر کہنے لگا کہ بھائی چنو... وہی والی دال دینا جسے کھا کر منہ میں چکن کا ذائقہ آجاتا ہے، میں جانے کن سروں میں بیٹھا تھا، میں نے کہا کہ دال نہیں بلکہ گھی کا بھی کمال تھا کیونکہ وہ گھی تو چکن کی چربی سے بنا ہوا تھا۔ بس پھر کیا تھا، جب وہ مجھے مارتا پیٹتا تھانے لے گیا تو پتا چلا کہ وہ پولیس کانسٹیبل تھا۔ ایس ایچ او کوئی بھلا مانس تھا، اس نے دو تین چھتر مارنے کے بعد لیکچر دیا اور ایک کونے میں بٹھا دیا۔

رات گئے کسی کو خیال آیا تو انہوں نے دوبارہ چھترول کر کے مجھے بھگا دیا۔ وہ سارا دن میں نے تھانے میں گزارا تھا اور دیکھتا رہا تھا کہ ہوتا کیا ہے۔ میں نے یہ جان لیا تھا کہ پولیس جسے بھی پکڑ کر لاتی، تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی بڑے آدمی کا فون آجاتا اوراس بندے کو رہائی مل جاتی تھی؛ جبکہ میں یتیموں کی طرح اکلوتا ہی پڑا ہوا تھا۔ خیر میں نے اپنے دوست پپو سے مشورہ کیا کہ وہ میری کسی بڑے آدمی سے جان پہچان ہی کروادے۔ وہ تو حجام ہے اور کوئی نہ کوئی بڑا آدمی اس کے استرے کے نیچے آتا ہی ہوگا۔ تب اس نے کہا کہ چپ کرکے یا تو وکالت پاس کرو یا پھر صحافی بن جاؤ، کیونکہ سارے محکمے اب انہی دو بندوں سے ڈرتے ہیں۔

میں نے سوچا کہ اب وکالت تو بہت مشکل ہے، صحافی تو کوئی بھی بن سکتا ہے۔ تب میں ایک اخبار ''میری خبر، تیری قبر'' کے پاس گیا، اس نے جب میری کتھا سنی تو کہا کہ اوئے بھولو! یہ لو ہمارے سو اخبار اور بیچ کو آؤ۔ وہ دس روپے کا اخبار تھا، میں اخبار لے کر چلا گیا اور گھر جا کر رکھ دیئے۔ اگلے دن ایک ہزار روپے اسے دے دیئے۔ وہ بہت خوش ہوا اور اس نے مجھے اس دن 200 اخبارات دیئے۔ میں نے وہ بھی گھر جا کر رکھ دیئے اور اگلے دن 2000 روپے جب اس کی جھولی میں ڈالے تو اس نے مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا: ''جا بچہ! تو آج کے بعد صحافی بن گیا۔ اب کوئی بھی تجھے تنگ نہیں کرے گا۔ اپنی دکان کے بورڈ کے ساتھ روزنامہ میری خبر تیری قبر ( نمائندہ خصوصی) لکھوا دے۔ پھر کسی بھی محکمے کا بھوت پریت تیرے سائے سے بھی دور بھاگے گا۔''

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا پروفائل بنتا گیا۔ اب میں نے بڑے اخبارات پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا اور ان کی سرکولیشن بڑھاتا گیا۔ تاہم اب میری پبلک ریلشننگ بڑھ گئی تھی۔ چوری چکاری، دو نمبری تو ہر شعبے میں ہے، آہستہ آہستہ میں نے بڑے آدمیوں پر بھی ہاتھ پھیرنا شروع کردیا۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ کوئی اخبار بکے یا نہ بکے مگر شام تک سارے اخبارات کی تعداد کے حساب سے پیسے مالکان کی جیبوں میں ہوتے تھے۔ ہاں! اب آخری سوال آپ پوچھ سکتے ہیں۔

میزبان: ایک خبر کیا ہوتی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کس ذمہ داری کا کام ہے؟

چنو میاں: یہی سوال میں نے شیدے سے کیا تھا جس کی ٹائر پنکچر کی دوکان ہے۔ اس نے جو جواب دیا وہ کمال کا تھا۔ اس نے کہا کہ خبر وہ ہے جو بندے کی ٹیوب سے ساری ہوا نکال دے۔

خبر پڑھنے کے بعد وہ اس طرح رک جائے جیسے ایک موٹرسائیکل جس پر چار بچے اور میاں بیوی سوار ہوں اور وہ چلتے چلتے اس کی ٹیوب پٹاکا (پٹاخہ) مار کر آگے چلنے سے انکاری ہو جاتی ہے۔ ''پٹاکے'' کی آواز سننے والے بھی ڈر کر رک جائیں کہ ان کے سر پر بم پھٹا ہے۔

میزبان: ویسے تو آپ کے تاریخی پس منظر کو سنتے ہوئے یہ سوال پوچھنا ہی بیکار ہے لیکن سینئر ایڈیٹر نے سوال لکھ کر دیا تھا تو اس لیے پوچھنا ہی پڑے گا کہ آپ موجودہ حالات میں پاکستان میں صحافت اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا کہیں گے؟

چنو میاں: پنجاب فوڈ اتھارٹی کی وجہ سے اموات کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی معدے ملاوٹ کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ خالص اشیاء ناقابل قبول ہیں اور ہر شاخ پر پکے ہوئے سر اور کچے جوتے ہی جوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

میزبان: جناب میرا سوال آپ سے ملکی صحافت اور مستقبل پر تھا۔ مگر کوئی بات نہیں۔ اب وقت ختم ہوتا ہے۔ امید ہے کہ آپ سب بھی چنوں میاں کی باتوں سے بہت فکرمند ہوگئے ہوں گے، مگر گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ایک دن سب اچھا ہوگا۔

اگلے انٹرویو میں معاشرے کے ایک اور اہم ستون سے آپ کی ملاقات ہوگی۔ اس وقت تک اپنے میزبان کو اجازت دیجیے۔ اپنا خیال خود رکھیے گا۔ آپ کا خدا ہی حافظ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں