انڈونیشیا میں دریا کی قسمت جاگی
دریائی آلودگی انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحول دشمن بھی ہے۔ قدرت کے ساتھ کھلواڑ کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔
اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ بیس برس میں تین براعظموں کے دریاؤں کا پانی معیار سے کہیں نیچے گرچکا ہے۔ آلودگی کے باعث ان دریاؤں سے کروڑوں افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کئی بار وارننگ جاری کرتے ہوئے اس صورتحال کو پریشان کُن قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ہر7 کلومیٹر کے بعد یہ دریا انتہائی درجے کی آلودگی کا شکار ہو چکے ہیں جنکی وجہ انسانی سرگرمیاں اور تیزی سے قائم ہونے والی صنعتیں ہیں۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں سالانہ 34لاکھ افراد ان دریاؤں کا آلودہ پانی پینے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں میں جو دریا سب سے زیادہ آلودگی کا شکار ہوئے ہیں، ان میں انڈونیشیا کے صوبے مغربی جاوا کا دریائے سیٹارم بھی ہے جسکو یوکرین اور نائیجیریا کے دریاؤں کے بعد دنیا کے دس بڑے آلودہ دریاؤں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
1970ء کے بعد دریا کے کنارے آٹھ سو سے زیادہ صنعتیں قائم کی گئیں جسکے نتیجے میں دریا کے قدرتی پانی کا رنگ بدلتے بدلتے اب کالا ہو چکا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہیں کہ صنعتی ترقی نے انسان کی زندگی کو آسان توکیا لیکن ساتھ ساتھ موت کی طرف بھی دھکیل دیا ہے۔ مغربی جاوا کا یہ دریا کبھی ایک خوبصورت دریا ہوا کرتا تھا۔ اس پر عوام کا انحصار صرف پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے نہیں بلکہ یہ بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار کا بھی بڑا ذریعہ تھا۔
دریا کے آس پاس بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور صنعتوں کی وجہ سے دریا کا پانی رفتہ رفتہ زہریلا ہوتا چلا گیا۔ 2009ء میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے پانچ سو ملین ڈالر انڈونیشی حکومت کو دیے تاکہ اس دریا کی مکمل صفائی کا کام یقینی بنایا جائے لیکن یہ منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہی دریا بُرد کر دیا گیا۔
مغربی جاوا میں تین سوکلومیٹر پر محیط یہ دریا کئی سال سے بین الاقوامی ماہرین کی توجہ کا خصوصی مرکز بنا ہوا ہے۔ یہ بدبودار کچرے سے ڈھکا ہوا ہے۔ لمحے بھر سانس لینا یہاں محال ہے۔ اس دریا کو پارکرنے کی کوشش کرنیوالے گندگی اور غلاظت سے ہوکر ہی اسے سر کر پاتے ہیں۔ یہاں صرف پلاسٹک، کچرا، بوتلیں، گندے ڈائپرز ہی نہیں بلکہ مردہ جانور بھی اس کی سطح پر تیرتے نظر آتے ہیں۔
دریا کے آس پاس مقیم انسانی آبادی کے لیے فضلے اورکچرے کے ڈھیر سے نجات پانے کا واحد ذریعہ یہ دریا ہی ہے۔ وہ اپنے روزمرہ صفائی کے تمام امور اسی دریا کے کنارے انجام دیتے ہیں حتیٰ کہ یہاں بسنے والے بچوں کی تفریح کا واحد اور سستا ترین ذریعہ دریا کے اسی متعفن پانی میں ڈبکیاں لگانا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس دریا میں آلودگی کس درجے تک پہنچ چکی ہے۔
مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ اس آلودگی کی ذمے دار صنعتیں بھی ہیں جو انسانیت کی فلاح کے نام پر دریا کے کنارے لگائی گئیں۔ حیرت اور افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مغربی جاوا کی ایک بڑی آبادی کی زندگی کا اب بھی انحصار اسی دریا کے پانی پر ہے کیونکہ وہ صاف پانی کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہیں جسکے باعث کینسر، پھیپھڑوں اور معدے کے امراض ملیریا، ٹائیفائیڈ اور متعدد جلدی امراض یہاں کے باشندوں کے لیے معمول کا روگ بن چکے ہیں۔ آلودگی کے باعث مچھلیاں اور دیگر آبی جانور اس دریا کی بھینٹ چڑھ کر ختم ہوگئے ہیں۔
دریا میں مچھلیاں نہ ہونے کی وجہ سے مچھیرے پریشانیوں کا شکار ہیں۔ دریا سے لوٹنے کے بعد ان کے جالوں میں مچھلیوں کے بجائے صرف کچرا ہوتا ہے۔ اب وہ اسی کچرے میں سے پلاسٹک الگ کرکے اسکو بیچ کر گزر اوقات کر رہے ہیں۔ دیر سے ہی سہی لیکن اس دریا کی سوئی قسمت اب جاگی ہے جس میں دو فرانسیسی بھائیوں کا کردار بہت اہم ہے۔ انھوں نے پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی ہوئی کشتیوں پر بیٹھ کر دریا کا دورہ کیا اور ویڈیو بنا کر دریائی آلودگی کے بدترین مناظر دنیا کو دکھاکر ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
انھوں نے انڈونیشیا میں اسکولوں کا بھی دورہ کیا اور zero waste lifestyle کا شعور اجاگر کیا۔ خوش قسمتی سے ان بھائیوں کی محنت کچرے کے ڈھیر میں تبدیل نہ ہوئی اور اب بڑے پیمانے پر اس دریا کی صفائی کے مشکل ترین کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ انڈونیشین ملٹری بھی اس کام میں شریک ہے۔ 22 کرنیلوں کی نگرانی میں پانچ ہزار فوجی دریا کی صفائی کے کام میں حصہ لے رہے ہیں۔
منصوبے کے تحت صفائی کا کام مکمل ہونے کے بعد دریا کے کناروں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے تاکہ دریا کو دوبارہ آلودہ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جاسکے۔ انڈونیشیا کے صدر نے حالیہ ایک فیس بک پوسٹ میں عزم ظاہرکیا ہے کہ دریا کہ اوپری دھاروں سے لے کر نچلی سطح تک صفائی کر کے نئے قوانین بنائے جائینگے ساتھ ہی ماحول کے تحفظ کے لیے گرین بیلٹس بنائی جائینگی اور ان افراد اور صنعتوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی جو دریا کو برباد کرنے کی کوشش کرینگے۔
پانی کا مسئلہ تو پوری دنیا میں ہی سنگین رخ اختیار کرچکا ہے۔ بحران کے اس دور میں اپنے اپنے آبی ذخائر کی حفاظت کرنے والی قوم ہی اصل معنوں میں محب وطن کہلائے جانے کی حقدار ہے۔ پاکستانیوں نے بھی آگ، خون اور آنسوؤں کے دریا تو دیکھے ہی ہیں، لیکن اب دریائی آلودگی یہاں بھی ایک بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔کچرے اور فضلے کی بھر مار ہے۔
کراچی آلودگی کے معاملے میں گویا خطرے کے ٹائم بم پر بیٹھا ہے۔ یہ سارا کچرا محفوظ طریقوں سے تلف کرنے اور دوبارہ قابل استعمال بنانے کے طریقوں پر کسی کی توجہ نہیں۔ صرف کراچی سے روزانہ سات سے آٹھ ہزار ٹن سالڈ ویسٹ نکلتا ہے۔ اس کچرے کا صرف دس فی صد ہی قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔
اس کچرے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے نہ لگانا ان گیسوں کے اخراج کا سبب بنتا ہے جو گلوبل وارمنگ کی ذمے دار ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے روزانہ سیوریج کا دو سو ملین گیلن پانی نکلتا ہے۔ وہ بھی آخرکار دریاؤں سے ہی جا ملتا ہے، جس کی وجہ سے خوفناک بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
ساتھ ہی پاکستان میں دریاؤں کو آلودہ کرنیوالی بھی وہی صنعتیں ہیں جن سے اب ترقی یافتہ دنیا عاجز آچکی ہے۔ خیبر پختونخوا میں بھاری مقدار میں صنعتی فضلہ بنا کسی تطہیری عمل سے گزارے دریائے کابل کی نذر کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں واقع پانچ بڑے صنعتی زونزکے فضلے کا آخری ٹھکانا بھی دریا ہی ہیں۔ دریائے راوی، سندھ، چناب اور دریائے سوات کا نوحہ بھی یہی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی رپورٹ کے مطابق دریائے راوی کا پانی نہ صرف انسانی استعمال کے قابل نہیں رہا بلکہ یہ فصلوں اور جانوروں کے لائق بھی نہیں۔ فیصل آباد، ملتان، لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں بھی صنعتیں انسانیت کی دشمنی میں اندھی ہوکر دریاؤں کو آلودہ کر رہی ہیں۔ ان دریاؤں کے پانی کا استعمال ہر فرد خصوصاً حاملہ عورتوں اور بچوں کی صحت کے لیے خطرناک ہے۔
یو ایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال ڈھائی لاکھ بچے آلودہ پانی کے استعمال کے باعث بیمار ہوکر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ سیوریج کا پانی جب دریاؤں کو آلودہ کرتا ہے تو متعدد وبائی امراض پھوٹ پڑتے ہیں جب کہ صنعتی فضلے کے باعث آلودہ ہونے والا پانی ذہنی امراض، بہرے پن، جگر اور گردوں کی خرابی، کوما، کینسر، نمونیا، ٹی بی اور ہیپاٹائٹس اے اور سی سمیت لاتعداد جان لیوا امراض کا باعث ہے۔
دریائی آلودگی انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحول دشمن بھی ہے۔ قدرت کے ساتھ کھلواڑ کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا۔ سچ ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھوں ہی پریشان ہے۔ پوری دنیا میں آلودگی خاص طور پر دریائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے لیکن انڈونیشیا کی مثال کو سامنے رکھیں تو ناممکن کو ممکن بنانا کچھ ایسا دشوار بھی نہیں۔
انڈونیشیا نے اگرچہ اس نیک کام میں بہت دیر کردی لیکن پاکستان سمیت دیگر ممالک چاہیں تو خطرے کی چاپ پر کان لگاتے ہوئے وقت پر حاوی ہوسکتے ہیں لیکن اس کے لیے مضبوط قوت ارادی اور بہترین منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ورنہ چند دہائیوں بعد ماسوائے رونے کے اور کیا چارہ ہوگا۔