انصاف کا پامال ہونا
ہم میں انصاف دینے کی طاقت تب پیدا ہو گی جب ہم اعتراف کرنے کی جرأت پیدا کرینگے۔
سپریم کورٹ نے اسماء نواب اور دو ملزمان کو تہرے قتل کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت سے ملی ہوئی سزائے موت کو کالعدم قرار دے دیا اور خود سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی۔ انصاف ملتے ملتے بیس سال بیت گئے، یوں کہیے کہ عمر قید کی سزا تو اسماء نے جیل کی سلاخوں کے پیچھے فیصلے کے انتظار میں گزار دی۔
اسماء کو بری کرنے کی بنیاد یہ تھی کہ اس کے خلاف کوئی براہ راست گواہی نہ تھی، چشم دید گواہ نہ تھا۔ ان کے خلاف بنیادی گواہی خود ان کا اعتراف جرم تھا اور بہت سی گواہیاں جو ایسی تھیں وہ مکمل نہ تھیں۔ مختصر یہ کہ استغاثہ اپنا کیس سو فیصد ثابت نہ کرسکا اور اس طرح ملزمان کو شک کا فائدہ (benefit of doubt) دیتے ہوئے آزاد کردیا۔
اسماء نواب کے کیس کو Miscarriage of Justice یا یوں کہیے کہ انصاف کے پامال ہونے کے زمرے میں نہیں ڈالا جاسکتا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو دو اپیلوں کا حق ملا اور بالاخر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کی بینچ جسکی سربراہی جسٹس عظمت سعید کھوسہ کر رہے تھے، نے اسماء کو بری کردیا۔
یہ کہیے کہ یہ واپس دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی نہ بھیجا اور ملزمان کو معصوم پایا۔ لیکن دوسرے حوالے سے یہ Miscarriage ہے کہ فیصلہ آتے آتے بیس سال گزر گئے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے ایک شخص کو مکمل اسی طرح معصوم پایا اور اس کو بھی بری کیا، لیکن اس درمیان دو تین دہائیاں بیت گئیں اور پتہ یہ چلا کہ ملزم کو پھانسی بھی ہوگئی کیونکہ جیل انتظامیہ وغیرہ کو یہ پتہ بھی نہ چل سکا کہ ملزم کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا پڑی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ Justice delayed is justice denied ۔ لیکن پھر بھی غنیمت جانیے کہ اسماء نواب کو پھانسی نہ ہوئی اور ویسے بھی ایک عورت کو سزائے موت نہیں ہونی چاہیے اس کے باوجود بھی کہ وہ قاتل ثابت ہو۔ اسے صرف عمر قید کی سزا دی جانی چاہیے۔ عورت اور مرد دونوں کو۔ عمر قید کی سزا سے بڑی سزا مہذب معاشروں میں نہیں ہوا کرتی۔ حادثے اچانک جنم نہیں لیتے۔
قاتل ایک رات میں پیدا نہیں ہوتا وہ اندر سے بگڑتا جاتا ہے۔ وہ اندر سے خود بہ خود نہیں بگڑتا، حالات اس کو اسی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کی پرورش میں کوئی خامی رہ جاتی ہے جو اس کو اس حد تک لے آتی ہے۔ کچھ لوگ Aggression میں آکے قتل کر دیتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو بھی مار دیتے ہیں۔ اکثر قاتل ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ ان ذہنی امراض کی اکثر اہم وجوہات ماحول ہوتا ہے، جہالت ہوتی ہے اور پھر اس طرح ایسے قاتل کے ظہور پذیر ہونے میں بحیثیت سماج ہم خود ذمے دار ہوتے ہیں۔
یہ جو طالبان بنے یا یہ جو جنرل ضیاء الحق نے تشریح کی یا خود جو ہم سرد جنگ میں امریکا کی آشیر باد پر آمریتیں برپا کرتے کرتے رہے۔ خود جو یہاں دیہی پاکستان میں سماجی ٹوٹ پھوٹ نہیں رہی۔ یہ جو دیہی کیفیت ہے بالخصوص دیہی سندھ، شمالی پنجاب، بلوچستان اور فاٹا میں یہ جرم کو جنم دیتی ہے، یہ جہالت کو جنم دیتی ہے اور پھر قاتلوں کے انبار لگنا تو بس ایک بہانہ ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کا کیس تو سو فیصد Miscarriage of Justice تھا۔ میں جب یہ آرٹیکل لکھ رہا ہوں، وہ ان کی برسی کا دن ہے چار اپریل، جب انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی ایک جھوٹے مقدمے میں۔ ان کا کیس ٹرائل کورٹ میں نہ چلا، یقیناً یہ قانون کے تحت ہوا کہ ان کا کیس سیدھا ہائی کورٹ میں چلا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس مولوی مشتاق نے فیصلہ سنایا۔ انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں، جنرل ضیاء نے امریکا کی آشیر باد سے عوام کی منتخب حکومت کا تختہ الٹایا تھا۔
ان کو ایک اپیل کا حق دیا گیا اور سپریم کورٹ کے سات ججوں میں تین جج صاحبان نے ان کی سزائے موت کی مخالفت کی اور چار نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو صحیح قرار دیا اور یوں بھٹو کو پھانسی ہوئی۔ اس کیس میں بھی کوئی اسماء نواب کی طرح بھٹو کے ملوث ہونے کے Direct evidence نہ تھے۔ اک اعتراف جرم تھا اس فورس کے سربراہ کا جو بھٹو نے بنائی تھی۔ ملزم مسعود محمود نے اعتراف جرم کیاکہ اسے ایسا کرنے کے لیے بھٹو نے کہا تھا اور یہ اعتراف ایسا ہی تھا جیسا اسماء نواب کا تھا۔
اسماء کو پھانسی کی سزا نہ ہوئی۔ سزا بھٹو کو ہوئی۔ ہماری کیا، دنیا کی ہر عدالت پر ایسے Miscarriage of justice کے کلنک لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی عدالتیں جیسا کہ امریکا، برطانیہ، وغیرہ جب ان کو پتہ چلتا ہے کہ ان سے غلطی سرزد ہوئی ہے۔ چاہے کیوں نہ ایسا ملزم پھانسی چڑھ گیا ہو وہ اعتراف کرتی ہیں، اور ایسا داغ اپنے ادارے سے مٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ آئین کے اس حوالے سے ایک صدارتی ریفرنس آرٹیکل 186 کے تحت سابق صدر آصف زرداری نے بھی سپریم کورٹ میں فائل کیا تھا لگ بھگ دس سال ہونے کو ہیں مگر کورٹ کا جواب ابھی تک نہیں آیا۔
ہم میں انصاف دینے کی طاقت تب پیدا ہو گی جب ہم اعتراف کرنے کی جرأت پیدا کرینگے۔ آج ملک میں طرح طرح کے شرم ناک پنچائیتی فیصلے سننے کو ملتے ہیں۔ بہاولپور میں ڈیڑھ سالہ لڑکے کی شادی بیس سالہ لڑکی کے ساتھ کرا دی۔ اگر بھائی نے زنا بالجبر کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی لڑکی کا بھائی یہی کام اس مجرم کی بہن کے ساتھ کریگا۔ یہ کاروکاری، جرگوں کے فیصلے یہ غیر قانونی عدالتیں۔ یہ سب اسلیے ہیں کہ ملک، آئین، قانون، نظام عدل، مقننہ ، پارلیمنٹ صحیح طرح کام نہیں کررہے ہیں۔
ہمارا آئین Grand norms نہیں۔ ابھی بہت سے norms رواج رسم ایسے ہیں جو آئین کے برخلاف ہیں۔ کچھ واضح نظر آتے ہیں تو کچھ محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ فاٹا پر ہمارے آئین کااطلاق نہیں ہوتا اور فاٹا بلیک ہیون بن گیا ۔سارے مجروں کی آماجگاہ بن گیا۔ مغوی اٹھائے اور وہاں سے افغانستان چلے گئے۔ہمیں اگر انصاف کو پانا ہے تو اس کے لیے صرف عدالتیں اکیلے کچھ نہیں کر سکتیں، ہم سب کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔
سپریم کورٹ کے اسماء نواب والے کیس کو خوش آمدید اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصول ہے کہ اگر کسی ملزم پر جرم سو فیصد ثابت نہ ہو یعنیٰ Behind reasonable doubt ثابت نہ ہو تو اسے بری کیا جائے تاکہ کسی معصوم کو سزا نہ ملے۔ کہتے ہیں کہ Anglo Saxon law کا اصول ہے ایسے ملزموں کے برابر ہے ایک مجرم یعنی ایسے ملزموں کو چھوڑ دو جن پر بہت گہرا شک ہو اور تاکہ ایک معصوم کی جان بچ سکے اور اصول کے تحت اسماء نواب بچ گئیں، مگر بھٹو کا قتل اب بھی کلنک کی مانند ہے۔