لوگوں کے لیے سہولتیں اور حکمران
عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہر حکومت کا فرض اولین ہوتا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ بابا رحمتے کا تصور انھوں نے اشفاق احمد سے لیا ہے اور بابا وہ ہے جو لوگوں کے لیے سہولتیں پیدا کرتا ہے لوگ جو چاہیں تنقید کریں مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے جب سے فراہمی آب اور طبی سہولیات کے ناقص معاملات پر توجہ مرکوز کی ہے حکمرانوں کے بعض حلقے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ حکمران ہی نہیں بلکہ اپوزیشن کی طرف سے بھی کہا جا رہا ہے کہ معمولی باتوں پر سوموٹو لینے والے فلاں فلاں معاملات پر سوموٹو ایکشن کیوں نہیں لے رہے۔
اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے پی کے میں بلین ٹری منصوبے پر ایکشن کیوں نہیں لے رہے۔ عمران خان بھی بعض معاملات پر چیف جسٹس سے ایکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں تو سندھ میں اپوزیشن کے رہنما چیف جسٹس کی توجہ سندھ میں ہونے والی کرپشن کی طرف مبذول کرا کر ایکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سندھ حکومت کا کہنا تھا کہ صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ کراچی نہیں، لاہور میں بھی ہے جس کے بعد سپریم کورٹ کو لاہور کا معاملہ بھی دیکھنا پڑا اور جب چیف جسٹس نے لاہور کے اسپتالوں کے دورے شروع کیے تو حکمران بلبلانے لگے۔
سپریم کورٹ اہم سیاسی فیصلے کرنے کے بعد اب عوامی مسائل پر توجہ دے رہی ہے تو سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اپنے مخالف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے خلاف بھی سوموٹو ایکشن اور تحقیقات کے مطالبے شروع ہوگئے ہیں اور سیاسی معاملات کے بعد اب حکومتی معاملات میں بھی مداخلت کے لیے سپریم کورٹ کو مجبورکیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے بہت سارے ایشوز کو اکٹھا ٹیک اپ کیا ہے اب ہر معاملے کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے۔
سپریم کورٹ اب سیاسی معاملات سے زیادہ عوام کے بنیادی مسائل اور عوامی سہولیات کی فراہمی کے وہ معاملات دیکھنے پر مجبور ہوئی ہے جن کا تعلق حکمرانوں اور حکومتوں سے ہے مگر حکومتوں اور حکمرانوں نے ان مسائل پر کبھی توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور ہر سیاسی و غیر سیاسی حکومت محض اپنے نعروں سے عوام کو بہلاتی رہی ہے۔ عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہر حکومت کا فرض اولین ہوتا ہے مگر حکومتوں نے مسائل حل کرنے کی بجائے مسائل حل کرنے کی صرف یقین دہانیوں کو اپنا فرض اولین بنا رکھا ہے۔ عوام کے مسائل محض یقین دہانی سے نہیں بلکہ عملی کارروائیوں سے حل کرائے جاسکتے ہیں۔
کسی بھی سیاسی پارٹی کا اقتدار میں آجانا مسائل کا حل نہیں ہوسکتا بلکہ حکومتوں کو اپنی ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں اور ان ترجیحات میں عوام کے بنیادی مسائل کو شامل کرنا پڑتا ہے مگر بدقسمتی سے حکمرانوں کی ترجیحات عوامی مسائل کے برعکس ہوتی ہیں اور ہر جگہ اپنے سیاسی مفادات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی ملک میں ہر حکمران اور سیاسی جماعت کی ترجیحات مختلف ہیں ایک حکومت اگر اپنے صوبے میں میٹرو بس شروع کرے تو اس پر تنقید کی جاتی ہے اور سالوں بعد اپنی تنقید کو بھول کر میٹرو بس منصوبہ اپنالیا جاتا ہے تو عوام حیران ہوتے ہیں کہ پہلے میٹرو پر تنقید پھر تقلید کیوں ہو رہی ہے۔
بڑوں کا کہنا ہے کہ یہ دیکھو کیا کہا جا رہا ہے یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے مگر پاکستانی سیاست میں مخالف اگر دن کو دن بھی کہے تو اس پر تنقید لازمی بنالی گئی ہے۔ جو کام حکومتوں کے کرنے کے ہیں وہ حکومتیں نہیں کرتیں تو انھیں بے لگام نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اگر سندھ میں سپریم کورٹ ایکشن نہ لیتی تو واٹر کمیشن کبھی نہ بنتا اور نہ سندھ بھر میں فراہمی آب کے معاملات کو کوئی دیکھتا۔
سندھ واٹر کمیشن کے دورے سے ہولناک انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ لاہور میں چیف جسٹس اگر سروسز اسپتال، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی اور پھول نگر میڈیکل کالج کا دورہ نہ کرتے تو شرمناک حقائق منظر عام پر نہ آتے کہ ایسے بھی ڈاکٹر ہیں جنھیں بلڈ پریشر چیک کرنا نہیں آتا تو وہ ڈاکٹر کیسے بن گئے انھیں عوام کی صحت اور جانوں سے کھیلنے کی ڈگری کیسے مل گئی۔ پی ایم ڈی سی کو ایڈٹ کرانے کی چیف جسٹس کو ضرورت کیوں پڑی۔
سندھ کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں صرف ایک دو معاملوں ہی میں کچھ بہتری ہے باقی ہر جگہ حکومت کی طرف سے محض جھوٹے دعوؤں سے سندھ کے عوام کو دھوکہ دیا جا رہا ہے کہ سندھ خدمت میں سب سے آگے۔ سپریم اور ہائی کورٹوں میں سندھ حکومت کے گڈ گورننس کے دعوؤں پر برہمی اور صوبائی محکموں کی کارکردگی پر سوالات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ دس سالوں میں پی پی حکومت نے لوٹ کھسوٹ کے سوا صوبے میں کچھ نہیں کیا۔ سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کی تحریک التوا کے مطابق سندھ میں صرف گزشتہ مالی سال میں دو کھرب 73 ارب روپے کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں اور یہ سب کچھ سندھ کے بلدیات اور تعلیم کے محکموں میں ہوا ہے جو اہم محکمے ہیں۔ یہ بے ضابطگیاں آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے بعد منظر عام پر آئی ہیں۔
پنجاب میں عمران خان کے بقول میٹرو منصوبوں میں کرپشن ہوئی ہے اور اسفند یار ولی کے پی کے میں بلین ٹری کے منصوبے میں کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ ضرور ہونی چاہئیں۔
خیبر پختون خوا کے دیگر معاملات بھی درست نہیں جب کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے 5 سالوں میں یہ تیسری حکومت آئی ہے اور دو ماہ بعد تینوں حکومتوں کے دور کی کرپشن کی غضب کہانیاں منظر عام پر آئیں گی۔ سپریم کورٹ کیا کیا کرے کیا نہ کرے صرف کے الیکٹرک کے معاملات پر ہی سوموٹو ایکشن لے لے تو سندھ کی چاروں بڑی پارٹیوں کے مالی مفادات عیاں ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر عاصم حسین نے پی ایم ڈی سی میں جو کیا اس پر چیف جسٹس نے میڈیکل کالجوں کے اکاؤنٹس کو چارٹرز کے ذریعے آڈٹ کرانے کا حکم دے دیا ہے اور ملک کے طبی اداروں کی حالت خود دیکھ لی ہے جو ماضی میں حکومتوں نے دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی حالانکہ یہ کام حکمرانوں کا تھا جنھوں نے عوام کو سہولتیں دینے کی بجائے عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھایا اور غریبوں کا جینا حرام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔