یہ کون مری ہے کس کی بیٹی ہے
یہ مرض اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہزاروں تک آ گیا ہے۔
دنیا بھر میں بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں سب سے زیادہ برصغیر اور افریقہ میں ہوتی ہیں، مگر اس خطے میں ہندوستان اور پاکستان سرفہرست ہیں ۔ ملک بھر میں ہر جگہ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی، اغوا اور قتل معمول بن گیا ہے ۔ بلوچستان سے تو چالیس خواتین کی اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے۔
سندھ میں خاص کر کے تھرپارکر ، نگر پارکر، عمرکوٹ اسلام کوٹ اور میر پور خاص میں ہر ماہ دو سے دس لڑکیاں جن کی عمریں بمشکل بارہ سے سولہ سال کی ہوتی ہیں کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کوئی اگر درخواست تھانے یا عدالت میں دے تو لڑکی کے والدین کو تیس من گندم جرمانے کے طور پر ادا کرنا ہوتا ہے۔ اغوا کارکوکوئی سزا نہیں دی جاتی ہے۔
پختون خوا کے ضلع کوہاٹ کی عاصمہ رانی اور مردان کی اسماء کے قاتلوں کوگرفتارتوکیا گیا لیکن ابھی تک سزا صرف زینب کے قاتل کو سنائی گئی ہے۔ خیبر پختون خوا کی گلوکارہ غزالہ جاوید اور سنبل کے قاتل جہانگیر خان کوگرفتار توکیا گیا لیکن ابھی تک کوئی سزا نہیں ہوئی ۔ پنجاب میں تو ایسے واقعات کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ صرف فیصل آ باد میں گزشتہ تین ماہ میں چھبیس لاشیں ملی ہیں ۔
قصورکے واقعات کسے نہیں معلوم ۔ ابھی حال ہی میں یعنی پچیس مارچ کو یونیورسٹی کی ایک طالبہ کو اغوا کیا گیا۔ تین دن کے بعد بدھ کو فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ سے اس لڑکی کی لاش ملی ۔ پولیس ابھی قاتل کوگرفتار نہیں کر پائی ہے ۔ عابدہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں ایم اے انگریزی کی آخری سال کی طالبہ تھی ۔ گولڈ میڈل لسٹ تھی اور وزیر اعظم اسکیم کے تحت اس نے لیپ ٹاپ بھی حاصل کیا تھا۔
اس کے اغوا کے بعد جب اس کے بھائی تھانے ایف آئی آرکٹوانے گئے تو تھانے دار نے اسے ایف آئی آرکاٹنے سے منع کردیا اورکہا کہ لڑکی مل جانے کے بعد ہمیں بتا دینا۔ جب عابدہ کی لاش ملی تو پھر ایف آئی آرکاٹی گئی ۔ تھانے کے خلاف تساہل اور فرض ناشناسی پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی ۔جب عابدہ کی کلاس فیلوز نے پنجاب اسمبلی کے ایک ایم پی اے کو اس دردناک واقعہ کی اطلاع دی اور یہ بات اسمبلی میں پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ عابدہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ۔
انصاف کے حصول کے لیے یونیورسٹی طلبہ احتجاج کرتے ہو ئے جب سڑکوں پہ نکل آئے تو پولیس نے ان پر تشدد کیا اورگرفتاریاں بھی ۔ احتجاجی طلبا وطالبات مطالبہ کررہے تھے کہ قاتل کو فوری گرفتار کر کے سخت سزا دی جائے ۔ ان احتجاجیوں کا نہ کوئی رہنما تھا اور نہ کوئی سیاسی جماعت ۔ یہ احتجاج طلبہ یکجہتی اور ظلم کے خلاف رد عمل اور بغاوت تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ موبائل فون سے ڈیٹا ملا ہے، جس کے ذریعے قاتل تک پہنچنے میں مدد ملے گی مگر ابھی تک کوئی ثبوت نہیں ملے ۔ ڈی این اے کا نمونہ لاہور فرانزک لیبارٹری کو بھیجا گیا ہے، پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ اوکو پنجاب حکومت نے معطل کردیا ہے ۔
دوسرا واقعہ آزاد کشمیر میں رونما ہوا۔ ضلع پونچھ میں تین ہفتے قبل لاپتہ ہونے والی ایک لڑکی کو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش برساتی نالے میں پھینک دی گئی۔ پولیس کے کارروائی نہ کرنے پر عوام نے احتجاج اور مظاہرے کیے ۔ان اندوہناک واقعات پر صرف بیانوں کے حد تک ساری جماعتیں محدود ہیں۔
ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اور پی پی پی نے بھی واقعے پرکوئی مظاہرہ،کوئی جلوس اور نہ کوئی ہڑتال کی ۔ انھیں تو صرف جواب در جواب اور نان ایشوز پر بات کرنے سے فرصت نہیں ہے ۔ مذہبی جماعتیں ویسے تو خواتین کے خلاف ہر وقت تلوار لیے کھڑی رہتی ہیں ۔ پردہ کرو، حجاب کرو، برقع پہنو اور بال کھلے ہو ئے نہ رکھو وغیرہ وغیرہ۔ مگر جب ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ ظلم و ستم ڈھائے جاتے ہیں تو یہ مذہبی جماعتیں اور علماء خاموش ہو جاتے ہیں۔
ان مظلوم لڑکیوں کو اغوا کرنے پر کوئی احتجاجی ریلی نکالتے ہیں نہ دھرنا دیتے ہیں، نہ کوئی مارچ کرتے ہیں اور ایک گھنٹے کے لیے بھی ہڑتال نہیںکرتے ۔ رؤسا اور اشرافیہ کی بیٹیاں کتنی محفوظ ہوتی ہیں، اس لیے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں آتی جاتی ہیں ، ان کے ساتھ سیکیورٹی ہوتی ہے اور اگر ذرا بھی چھیڑچھاڑ ہوجائے تو قیامت آجاتی ہے، مگر محنت کشوں کی بیٹیاں روز اغوا ہوتی ہیں ، زیادتی کا شکار ہوتی ہیں اور قتل کردی جا تی ہیں تو سوائے ان کی کمیونٹی ، خاندان، دوست اور محلے والے ہی احتجاج کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔
یہی صورتحال مشال خان اور نقیب اللہ کے ساتھ بھی پیش آئی تھی ۔ قاتلوں کو ابھی تک کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ذرا سوچیں کہ ہلاک ہونے والی یہ کس کی بیٹی تھی ۔آپ کی ، میری یا کسی اور انسان کی ۔ اگر آپ کی اپنی بیٹی ہوتی تو آپ کی کیا کیفیت ہوتی ؟
یہ مرض اتنا بڑھ گیا ہے کہ ہزاروں تک آ گیا ہے۔ منظور پشین کے مطابق اب تک محسود قبائل اور فاٹا کے چھ ہزار افراد لا پتہ ہیں جن میں سے صرف تین سو افراد بازیاب ہوئے ہیں ۔ ملک میں جبری لاپتہ افرادکی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کے سر براہ عابد علی آرائیں کے مطابق لاپتہ افراد کے زیر التوا مقدمات کی تعداد 1710 ہوگئی ہے ۔ اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ عابدہ کو اپنی بیٹی سمجھتے ہوئے زیادتی کے خلاف احتجاج کریں ۔
صرف قاتلوں کو سزا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ لڑکیوں اورخواتین کے خلاف غلامانہ اور نفرت انگیز سوچ اور رویوں کو نہ صرف بدلنا ہو گا ،اسے قانونی حیثیت دینی ہوگی۔ مردوں کی حکمرانی والے معاشرے میں کہیں چوراہوں ، فٹ پاتھوں،کھیل کے میدانوں یا ہوٹلوں میں خواتین کا جم غفیر کہیں نظر نہیں آئے گا ۔ وہ تو باورچی خانے اور دھوبی گھاٹ میں ہی پھنسی رہتی ہیں ۔ عابدہ تو انگریزی میں ایم اے کی طالبہ تھی ، نہ جانے کیا کیا اس کے خواب تھے۔
وہ تعلیم کے بعد مصنف بنتی، پروفیسر بنتی، ادبی تخلیقات کرتی، صحافی بنتی یا سماجی سائنس دان۔ یہ سب کچھ تب ممکن ہوتا جب قاتل اسے زندہ چھوڑ تے ۔رانی عاصمہ بھی زندہ ہوتی تو ڈاکٹر بن کر نہ جانے ہزاروں، لاکھوں مریضوں کا علاج کرتی، انسانیت کی خد مت کرتی۔ ان ہی خدمات کے عوض پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر فیدل کاستروکو خصوصی اعزاز سے نوازا ہے۔ عابدہ کے قتل پر مذہبی ٹھیکیدارکہاں ہیں،کیوں طلبہ کے ساتھ سڑکوں پہ نظر نہیں آتے۔
کیوں مزید عابداؤں کے مستقبل میں ہونے والی زیادتیوں کے خلاف سینہ سپر ہوتے دکھائی نہیں دیتے ۔
ہیں قتل گاہیں یہ عدل گاہیں،انھیں بھلا کس طرح سراہیں
غلام عادل نہیں رہیں گے ، غلط سزائیں نہیں رہیں گی
بنے ہیں جو خادمان ملت وہ کرنا سیکھیں ہماری عزت
وگرنہ ان کے تنوں پہ بھی سجی قبائیں نہیں رہیںگی