صحرا کا سفید پھول
سفید صحرا عمر کوٹ سے لے کر ہتھونگو، گھوٹکی سے گزرتا ہوا پنجاب سے جا ملتا ہے۔
سندھ ایک زرخیز خطہ ہے۔ پانچ ہزار پرانی تہذیب کے وارث سندھ کا کل رقبہ ایک لاکھ سینتیس ہزار نو سو نوے کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ جس میں 68000 کلومیٹر پر ایرڈ زون (Arid Zone) یعنی خشک علاقہ پھیلا ہوا ہے۔ سندھ کا رقبہ 63 فیصد ہے۔ ایرڈ زون کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس میں کوہستان کا رقبہ تینتالیس ہزار، تھرپارکر کا بائیس ہزار اور نارا ریجن (سفید صحرا) تئیس ہزار کلومیٹر پر محیط ہے۔ سفید صحرا کی اپنی الگ خوبصورتی ہے۔ جس میں سندھ کے پانچ شہر سانگھڑ، نواب شاہ، خیرپور، سکھر،گھوٹکی وغیرہ شامل ہیں۔
جو ہندوستانی سرحد تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ رقبے کے لحاظ سے تھرپارکر سے بڑا ہے۔ سفید صحرا عمر کوٹ سے لے کر ہتھونگو، گھوٹکی سے گزرتا ہوا پنجاب سے جا ملتا ہے۔ جس کے آگے چولستان کی خوبصورتی بکھری ہوئی ہے۔ سفید صحرا چولستان اور تھرپارکر کے بیچ میں واقع ہے۔ سفید صحرا کی ریت سفید چاندی جیسی ہے۔ یہ ریت پانی کو روکنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ علاوہ ازیں کھیتی باڑی میں کسانوں کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں کیونکہ پودے آسانی سے جڑ نہیں پکڑ سکتے۔ لہٰذا تھرپارکر اس خطے کی نسبت برسات کے بعد زیادہ سرسبز ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفید صحرا کے لوگ کھیتی باڑی کے علاوہ آمدنی کے لیے مختلف ذرایع پر انحصار کرتے ہیں، جس میں ہاتھ کے ہنر یا دستکاری بھی شامل ہیں۔
سانگھڑ سفید صحرا کا اہم شہر ہے۔ ہر شہر کی اپنی الگ خوبصورتی، مزاج و کشش آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ سانگھڑ کی شامیں خاموش، معطر اور پراسرار دکھائی دیتی ہیں۔ ہوائیں بھی سہمے انداز میں خوشبوؤں کو بکھیرتی رہتی ہیں۔ منصورہ کے پرانے آثار قدیمہ بھی سانگھڑ کے قریب واقع ہیں۔ یہ شہر کبھی اپنی ثقافت کی رنگارنگی وکاروبار کے مواقعے کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ منصورہ کا قدیم شہر کیسے تباہ ہوا، تاریخ نویس ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائے۔ سانگھڑ سے بہتی ہوئی ناراکینال اور مکھی دریا نے اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔مکھی دریا فطرت کا ایک حسین تحفہ ہے۔
پانی، زمین اور جنگلی پودوں کی ملی جلی مہک فضاؤں میں تیرتی ہے۔ وہ ہوا آلودہ سانسوں کی ساری تھکن اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے، اس سکوت میں دریا کی لہروں کا ترنم کانوں کو بھلا لگتا ہے۔ اس دریا کا اصل نام ماکھی ہے یعنی شہد کی مکھی کیونکہ جب ماکھی جنگل بہت گھنا تھا تو یہاں شہد کی مکھیاں وافر انداز میں پائی جاتی تھیں۔ مکھی دریا حر تحریک کا مرکز رہا ہے۔ یہ 1843ء کی بات ہے جب انگریزوں نے میروں کو شکست دے کر سندھ فتح کر لیا تھا۔ 1880ء میں پیر پگاڑا سید صبغت اللہ شاہ نے حر تحریک کی بنیاد ڈالی۔ آپ نے بارہ سال کی عمر میں چھٹے گدی نشین کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے شروع کیے۔
پیر صاحب نے ہمیشہ انگریز سرکار سے ان کی زیادتیوں پر احتجاج کیا یوں 1930ء میں انھیں بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کے جرم کی پاداش میں آٹھ سال کی سزا سناکر رتنا گری، مدنا پور اور علی پور کی جیلوں میں رکھا گیا۔ مگر بغاوت کی آگ صبغت اللہ شاہ کے دل میں بھڑکتی رہی۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد انھوں نے انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لیے اپنے مریدوں کو تیار کیا۔ جب 1940ء میں انھیں دوبارہ قید کیا گیا تو حر جماعت نے انگریزوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں، جس کے بعد انھیں 1943ء میں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مکھی کی ہواؤں میں آج بھی گئے دنوں کی ایک قدیم اور اسرار بھری مہک محسوس ہوتی رہتی ہے۔
دریاؤں کے قریب پروان چڑھنے والی قومیں رنگا رنگ تہذیب کی مالک ہوتی ہیں۔ اس خطے میں ہاتھ کے ہنر کی گھریلو صنعتیں بھی موجود ہیں۔ سانگھڑ اور اس کے قرب و جوار میں رلیاں بہت خوبصورت بنائی جاتی ہیں۔ رلی سندھ کا ایک قدیم فن ہے جو ری سائیکلنگ (پرانی چیزوں کو دوبارہ کام میں لانا) کی بہترین مثال ہے۔ رلی سندھ کی عورت کی فنکارانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جو لوک ورثے کی ذہانت اور سگھڑ پن کی مثال ہے۔ رلی میں استعمال ہونے والے رنگوں کا امتزاج قابل دید ہے۔ رلی کے مختلف دیدہ زیب ڈیزائنز ملتے ہیں، جن میں چاند تارا، چومکھی، ماٹی سندھ، کھجی ٹاری وغیرہ شامل ہیں۔
یہ نام فطرت سے لیے گئے ہیں جو جانوروں، ستاروں، پھولوں، پودوں وغیرہ سے منسوب ہیں۔ کٹ ورک کی بنی ہوئی رلیوں کی بہت ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ یہ ہاتھ کے ہنر کی گھریلو صنعتیں مقامی لوگوں کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکیں کہ شہر کے ہوشیار بیوپاری ان سے گج، رلیاں اور ہاتھ کے کڑہائی والے کپڑے سستے داموں خرید کر شہر میں کئی گنا مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں۔ آج کل ہاتھ کی بنی ہوئی ان مصنوعات کی ملک و بیرون ملک بڑی مانگ ہے۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے، جب محنت کشوں کو ان کی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ چاہے کھیتوں میں کپاس چننے والی خواتین ہوں یا کھیتی باڑی میں مصروف کسان ہوں۔ یہاں کے کمہار، بڑہئی، جولاہے و دیگر محنت کشوں کی زندگیاں معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہیں۔
اگر ہم قرب و جوار کے ممالک کو دیکھیں جیسے انڈیا، بنگلہ دیش اور چائنا وغیرہ تو وہاں پر محنت کش کا معیار زندگی قدرے بہتر ہے۔ ایشیا کے ملکوں جیسے انڈونیشیا، سری لنکا، ملائشیا، سنگاپور اور نیپال وغیرہ کی بہتر معیشت میں ان کے محنت کشوں کا بھرپور حصہ رہا ہے۔ جنھیں اپنے کام کا اچھا معاوضہ مل جاتا ہے۔سندھ کے معروف محقق و تارخ دان اشتیاق انصاری لکھتے ہیں ''سفید صحرا میں مختلف قسم کی گھاس و پودے ملتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے جنگلی جانوروں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔ یہاں ہرن، خرگوش، لومڑی، نیل گائے، بارہ سنگھا وغیرہ پائے جاتے ہیں یہاں مختلف قسم کے پرندے بھی ہیں۔ کچھ دریاؤں میں مگر مچھ بھی دیکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے دریا و تالاب ہجرت کرنے والے پرندوں کا سائبان بنے رہتے ہیں۔''
مکھی دریا کے آس پاس بہت سے پرندے پائے جاتے ہیں، جن میں اکثر ہجرت کر کے آنے والے پرندے شامل ہیں۔ وہاں نصب واچ ٹاور سے شام کے وقت پرندوں کے اڑنے کا منظر بہت حسین دکھائی دیتا ہے۔ مکھی کی لہروں پر وہاں کی شام کے جو دھنک رنگ دیکھے ہیں وہ آج بھی آنکھوں میں ڈوبتے سورج کی کرنوں کی طرح جھلملانے لگتے ہیں۔