بدنام اگر ہوں گے
اگر آپ نیک نام، محسن انسانیت، ایماندار، دیندار اہل سیاست کی فہرست تیار کرنے بیٹھیں تو مشکل میں پڑجائیں گے۔
اگرچہ لوگوں کی اکثریت ٹیلیویژن کا استعمال بغرض تفریح و معلومات کرتی ہے لیکن یہ آلہ کبھی کبھی لوگوں کی یادداشت کو تازہ کرنے کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔
حکمرانوں اور دیگر اہم شخصیات کو ٹیلویژن بہت Coverage دیتا ہے لیکن TV پر کہی گئی باتوں کو محفوظ کرنے والا ٹی وی چینلز کا شعبہ حکمرانوں کے بعض فرمودات کو نمبر لگا کر کسی آئندہ وقت پر ان ہی حکمرانوں کو یاد دلانے کے لیے آواز اور تصویر سمیت سنبھال لیتا ہے۔ یوں اگر کوئی حکمران اپنے پہلے کہے سے مکر جائے تو اس کا سابقہ بیانیہ منٹوں نہیں سیکنڈوں میں یاد دہانی کے طور پر ٹی وی اسکرین پر پوری دنیا میں نشر ہوجاتا ہے۔
چند روز قبل نواز شریف اور ان کے ساتھی کہہ رہے تھے کہ NAB کیسز کے اہم گواہ استغاثہ نے جرح کے دوران صاف کہہ دیا ہے کہ اس کے پاس نواز شریف کے نام پر اندرون و بیرون ملک ناجائز دولت کا ریکارڈ نہیں ہے تو ٹی وی چینلز نے فوراً ان کا تین سال پرانا مدلل بیان نشر کردیا جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ ''ناجائز اور کرپشن کی دولت بنانے والے ایسی کمائی کبھی اپنے نام پر نہیں رکھتے'' اتفاق سے نواز شریف صاحب کے خلاف استغاثہ کا بھی یہ کیس ہے کہ ان کی دولت ان کے نہیں بچوں کے نام پر ہے۔
اس موقع پر مجھے بیس سال قبل فوت ہوجانے والے سرکاری افسر کی یاد آگئی جو ہمیشہ حکمرانوں کا منظور نظر اور Lucrative پوسٹوں پر تعینات رہا جس نے بے حساب دولت کمائی اور ساری کی ساری اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے نام پر لگاتا رہا لیکن جب ریٹائر ہوکر دولت واپس لینے نکلا تو سارے رشتہ داروں نے اسے انگوٹھا دکھا دیا۔ وہ اس صدمے کو برداشت نہ کرسکا، کوئی چارہ جوئی بھی نہ کرسکا اور خالی داماں راہی ملک عدم ہوا۔
ایک دوست جس نے چالیس سال قبل سرکاری ملازمت کا آغاز مجسٹریٹ کے عہدے سے کیا، بتاتا ہے کہ تب انتظامیہ، عدلیہ اور محکمہ پولیس سے تعلق رکھنے والے کسی ضلع کے افسروں میں سے ایک یا دو ایسے ملازموں کی نشاندہی کرنا جن کی شہرت ایمانداری کے حوالے سے مشکوک ہو بڑا مشکل ہوتا تھا اور جب وہ سترہ گریڈ سے بیس گریڈ پر پہنچا تو حالات اتنے دگرگوں ہوچکے تھے کہ پورے پورے ڈسٹرکٹ میں دو ایماندار افسر تلاش کرنے ممکن نہ رہے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ بیوروکریٹوں کی اہل سیاست کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجے میں دیانت اور امانت کا جنازہ نکل گیا تھا۔
جب کسی ملک کے حکمران من مرضی کے فیصلے کرنا چاہیں تو تمام کاغذی کارروائی بذریعہ بیوروکریسی ہی ہوتی ہے اور اگر افسر اعلیٰ اختلافی نوٹ لکھنا چھوڑ کر حکمران کو پیش کردہ فائل یا Summary حسب الحکم بنائے گا تو قانون، اصول، پالیسی اور ضابطہ تمام سے روگردانی کا راستہ تلاش کرے گا۔ اسی غرض سے حکمران تمام منافع رساں یعنی Lucrative پوسٹوں پر من پسند اور Yes Men افسر تعینات کرتے ہیں اور اسی پالیسی کا خمیازہ ہمارا ملک عرصہ سے بھگت رہا ہے۔
ملک کی چاروں صوبائی حکومتوں کے آئینی منظور شدہ محکمے ہیں۔ ان کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ ہر محکمے کا انچارج صوبائی سیکریٹری ہے لیکن اس سے زیادہ تعداد صوبائی وزیراعلیٰ کی طرف سے قائم کی گئی کمپنیوں کی ہے جو C.S یا صوبائی سیکریٹریوں کے بجائے وزیراعلیٰ کو جوابدہ ہیں۔ صوبائی حکومتیں ماضی میں خوش اسلوبی سے اپنے سیکریٹریوں کے ذریعے کام نمٹا رہی تھیں۔
ایک چیف منسٹر کے لیے تو ممکن نہیں کہ وہ دو سیکریٹریٹ چلاسکے، اسے تو ان پچاس صوبائی سیکریٹریوں اور ساٹھ کے قریب کمپنیوں کے CEOS کے نام اور کام تک یاد نہ رہتے ہوں گے لیکن گزشتہ دنوں چیف جسٹس نے پنجاب میں قائم کمپنیوں کی قانونی حیثیت، ضرورت، کارکردگی اور ان کے چیف صاحبان کو دی جانے والی شاہانہ تنخواہوں اور مراعات کا نوٹس لیا ہے۔
کچھ کمپنیوں کے نام سے البتہ ان کی افادیت بھی سمجھ میں آتی ہے۔ ان کمپنیوں کے CEO حضرات کی تنخواہیں دو سے بیس لاکھ روپے ماہانہ، موٹر کاریں، مکان، اسٹاف اور دیگر مراعات ہیں۔ موجودہ چیف سیکریٹری پنجاب کی تنخواہ کسی بھی کمپنی کے CEO سے کم ہے۔
اگرچہ کسی بھی صوبے کا چیف سیکریٹری علاوہ تمام سیکریٹریوں کی کارکردگی دیکھنے کے، افسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر کا اختیار رکھتا ہے لیکن اب وہ کسی Lucrative عہدے پر تعینات افسر کی جواب طلبی کا اختیار نہیں رکھتا کیونکہ وہ کسی اور کا منظور نظر ہونے کی وجہ سے وہاں متمکن ہوتا ہے۔
مذکورہ کمپنیوں کے بعض چیف ایگزیکٹو جن پوسٹوں پر تعینات کیے جاتے ہیں، نہ انھوں نے کبھی پہلے اس کا نام سنا ہوتا ہے نہ کمپنی کے فنکشنز معلوم ہوتے ہیں ۔ اس لیے وہ صرف اس کے ساتھ ملنے والی مراعات بصورت تنخواہ، مکان، سرکاری موٹر کار اور دفتر وغیرہ کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں۔
سیاست، وزارت، شرافت، دیانت اور امانت ہم قافیہ الفاظ ضرور ہیں لیکن اگرچہ پہلے دو کا بعد والے تین سے مطابق معانی گہرا تعلق ہونا چاہیے لیکن تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو سیاست اور وزارت کے ساتھ خیانت کا میل ملاپ دنیا کے اکثر ممالک کے سیاسی ماحول میں چولی دامن کے رشتے سے بھی زیادہ گہرا نظر آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر آپ نیک نام، محسن انسانیت، ایماندار، دیندار اہل سیاست کی فہرست تیار کرنے بیٹھیں تو مشکل میں پڑجائیں گے لیکن بد، بدنام اور بددیانتوں کے نام ملکی اور عالمی سطح پر جمع کرنے کا ارادہ کریں تو ایسی شخصیات کی قطاریں لگی ملیں گی اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے مخلص، دیانندار اور امین و صادق حکمران خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ فرائض منصبی ادا کرنا پسند کرتے ہیں جب کہ نااہل حکمران اپنی کارکردگی تقریروں اور اشتہار بازی کے ذریعے نشر کرتے ہیں لیکن موخرالذکر جلد یا بدیر خدائی گرفت میں آجاتے ہیں لیکن ملکی میڈیا انٹرنیٹ ان کی خوب تشہیر کرتا ہے۔
اسی غرض سے میں نے انٹرنیٹ سے دس صادق و امین اور دس کرپٹ حکمرانوں کے نام پوچھے تو دس نیک نام شخصیات وہ تھیں جنھوں نے گوشۂ گمنامی میں رہ کر اپنے اپنے ملکوں اور لوگوں کی خدمت کی تھی اسی لیے ان کے نام بھی میرے لیے ذرا نئے اور غیر مشہور تھے جب کہ کرپٹ اور بدنام زمانہ دس حکمرانوں کے نام ایسے تھے جنھیں شاید ہمارے ناخواندہ اور عام شہری بھی انھیں پہچانتے ہوں گے۔ یعنی بات وہی کہ
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا