ایک اور چھانگا مانگا

مسلم لیگ کے نام پر پاکستان سے یہ مذاق شاید پنجاب کے عوام پسند کرلیں۔



قائد اعظم محمد علی جناح اگر سیاست میں نہ آئے ہوتے تو بھی ایک بڑے نامور انسان ہوتے، کیونکہ بحیثیت بیرسٹر ان کو سارا جہان جانتا تھا۔ ان کے بارے میں فاروق عبداﷲ نے کہاکہ ان کو ہند کی تقسیم کی طرف گاندھی اور پٹیل نے دھکیلا۔ فاروق عبداﷲ اب بھارت سے مایوس ہوکر سچ بولنے لگے ہیں ۔ قائد اعظم نے تو بہت سی چیزوں کو مان لیا تھا تقسیم سے پہلے جن کی یہ ہندو لیڈر مخالفت کرتے رہے تاریخ پڑھ کر دیکھ لیں۔

مگر سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ہندو صحافی صاحب جنھیں بھارتی ہندو کہنا مناسب ہوگا خود ہی یہ بات لکھ کر اس کی تردید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارتی ہندو کی اصلاح یوں استعمال کی کہ جو بھی بھارت جاکر بھارت نواز بن جائے وہ ہندو توا کے زیر اثر بھارتی ہندو بن جاتا ہے یا نام نہاد بھارتی جیسے عدنان سمیع اور چند بلوچستان کے بھٹکے ذہن والے لوگ جو گاندھی کی سمادھی کی چرن چھورہے ہیں۔

میں ان صاحب کا ترجمہ کردہ شایع کالم ضرور پڑھتا ہوں جو ان کی جنم بھومی کے مالک پاکستان کے خلاف ہوتا ہے۔ سیالکوٹ پاکستان میں رہ گیا وہ اسے ساتھ نہ لے جاسکے ان کا بیانیہ ان لوگوں کے بیانیہ سے ملتا ہے جو قانون کی دھجیاں بکھیر کر قانون کا جھوٹا راگ الاپ رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے تاکہ اقتدار مل جائے۔ سرکاری آلو گوشت اور سیر و تفریح کو طیارہ مل جائے۔ حالانکہ اب بھی سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں۔ قائد اعظم گورنر بنے تو کابینہ کی پہلی میٹنگ کے موقعے پر ان کے سیکریٹری نے پوچھا ''سر! اجلاس میں کافی ہوگی یا چائے؟'' قائد اعظم نے پوچھا کیوں؟ یہ لوگ گھر سے ناشتہ کرکے نہیں آئیںگے؟ کسی چیزکی ضرورت نہیں، چائے پینی ہے تو گھر جاکر پئیں عوام کا پیسہ اس لیے نہیں ہے۔

یہ تھی مسلم لیگ اور یہ تھے لیڈر۔

حکمران طبقہ ابھی تک عجیب نشے کی حالت میں ہے۔ ساری ترقی کچھ علاقوں تک محدود بقیہ پاکستان کے ساتھ ساتھ پنجاب کا بھی بڑا علاقہ ہر چیز سے محروم ہے۔ لوگ اسے تقدیر سمجھتے ہیں۔ راضی بہ رضا ہیں، شاید یہ آپ کی تقدیر نہیں یہ حکمران پارٹی لیڈر اور دوسروں کی کاریگری ہے۔ ووٹ آپ کا اور نوٹ سارے ان کے جو منصوبوں کے نام پر آپ کا ٹیکس ہڑپ کررہے ہیں، اپنی تصویریں سرکاری اشتہارات میں چھاپ رہے ہیں، کورٹ نے نوٹس لیا ہے، وزیراعلیٰ کو اشتہارات کی رقم اپنی جیب سے ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور ادا شدہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔

عوام کی آنکھوں پر یہ پٹی دوسرے صوبوں میں بھی باندھی گئی ہے، کورٹ کو وہاں بھی توجہ دے کر عوام کی رقم واپس سرکاری خزانے میں جمع کروانی چاہیے۔ اس کارروائی کے بعد ایک ایک صفحے کے نام نہاد ترقی کے اشتہارات ختم ہوئے اور وزیراعلیٰ بیمار پڑگئے۔ آج جو کچھ ہورہاہے اس کا آغاز غلام محمد نے کیا تھا جو سازش کے تحت قائد اعظم کے بعد گورنر بنا اور تاریخ کا بد ترین آدمی تھا یحییٰ خان کے بعد۔ فالج زدہ شخص جس نے پاکستانی سیاست کو ملیامیٹ کردیا۔

اس پنجاب نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کو مصلحتوں کے تحت پاکستان کا صدر بنایا اور پھر دونوں کا انجام کیا ہوا۔ عوام کو کچھ نہیں ملتا سوائے ایک انا کے کہ ہمارا آدمی وزیراعظم ہے، حالانکہ وہ آپ کا آدمی سے زیادہ خود کا آدمی تھا وہ کہاں پہنچ گیا، کچھ بھی نہ کرنے پر بیٹے اربوں کھربوں کے مالک، سمدھی وزیر خزانہ، اشتہاری مگر سینیٹر منتخب ہوگیا اور عوام گند، کیچڑ میں آباد بیمار اور بے روزگار۔ حکمران طبقہ کے لوگ ہر جگہ برسر روزگار بلکہ مالک!

پنجاب سے بھی انصاف نہیں ہورہا اور جب تک تمام شہریوں کو یکساں حقوق نہیں ملیں گے ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یہ سرکاری مشینری ان کے تابع ہے، ہر ضمنی الیکشن جیت رہے ہیں یہ پنجاب میں اور زرداری سندھ میں! پاکستان کو نواز یا زرداری کی سوچ نہیں چاہیے اصل قائداعظمؒ کی فکر اور عمل چاہیے۔

گندگی اور گٹر کے پانی میں ڈوبے شہری اب نواز اور زرداری کو ووٹ دیںگے، ضرور دیںگے کیونکہ ان کو سیاسی جادوگری سے پاگل کردیا گیا ہے۔ پنجاب میں کوٹا سسٹم ملازمتوں میں نہیں ہے، کہیں اور نہیں ہے، سندھ میں ہے، نصف صدی ہونے والی ہے یہ ظالمانہ قانون ختم نہیں ہوا جن پر نافذ کیا گیا ان کے لیڈر بھی قوم کے وفادار نہیں تھے آج تک نافذ ہے۔ سندھ میں اس کے تحت نوکریاں چھین لی گئیں، نا اہلوں، سفارشیوں کو دی گئیں اور اب تک فروخت سے جو نوکریاں بچتی ہیں اسی طرح دی جاتی ہیں اب تو 100 فی صد فروخت ہوتی ہیں۔

پنجاب جو 60 فی صد کا مالک ہے پاکستان کا، اس کے بھی غریب کو کچھ نہیں مل رہا دکھاوے کے علاوہ، بس ووٹ کا وقت آئے گا تو دیدار ''سیاسی پیر'' کے ہوںگے پھر پانچ سال اندھیرا اور بے جا بے تحاشا ٹیکس۔ چھانگا مانگا کس نے مشہور کیا تھا اس بار اعلیٰ ایوان کے لیے کہتے ہیں کہ منڈی کا بھاؤ تیز تھا چھانگا مانگا ہر جگہ ہوا۔

اگر ایسا ہے،، اگر ایسا ہوا ہے تو یہ بکے ہوئے لوگ اور خریدار دونوں گناہ گار تو ہیں ہی مگر عوام کے حقوق کے قاتل بھی ہیں۔ قاتلوں کے ہاتھ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ وہ آپ نے دیکھ لیا ہوگا۔ یہ عوام کے خیر خواہ نہیں خاندانوں کے خیر خواہ ہیں۔ عوام کے بچے بیماری سے لڑ رہے ہیں، بھوک سے مررہے ہیں، تھر سے لاہور تک ایک حال ہے غریبوں کی نہ عزت محفوظ نہ جان و مال۔

جان و مال ان کا ہے، عزت ان کے گھر کی لونڈی ہے، پاکستان ان کا ہے، قائداعظم کو ایک مزار دے دیا بس کافی ہے، باقی سب کچھ ہمارا ہے۔ وہاں علامہ اقبال کو مزار دے دیا باقی سب ہمارا ہے، خدا نے یہ جہاں صرف دو خاندان کے لیے نہیں بنایا۔ یہ میرا اور آپ کا بھی ہے انھوں نے تو ملک کو لوٹا ہی ہے عوام نے تو ملک کی خدمت کی ہے عوام کی وجہ سے یہ ملک ہے۔ مودی کے یار تو کشمیر کا بھی سودا کرنے کو ہیں تیار۔

کشمیر کمیٹی مال کھاتی رہی، کشمیری شہید ہوتے رہے، ہورہے ہیں، بھارت سے تجارت اول والے لوگوں کو خریدنا بھی جانتے ہیں یہ انھوں نے بے نظیر سے بھی سیکھا وہ ہمیشہ پیسے دے کر، پرمٹ دے کر ''اسلام خطرے میں ہے'' کے الارم کو خاموش کراتی رہیں یہ فن زرداری کو بھی ملا اور وہ بھی پانچ سال ''اسلام والوں'' کی خدمت کرتے رہے اب یہ نتائج نے بتادیا ہوگا کون کہاں بکا؟

پاکستان کو قرضوں میں ڈبودیا اور گروی پاکستان ہے، آپ کو پتا ہے کہ گروی رکھی چیز نہ چھڑوائی جانے تو فروخت کردی جاتی ہے۔ ''اقامہ کیبنٹ''سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں کیا یہ کوئی خیر کا کام پاکستانی عوام کے لیے کریںگے؟ ہرگز نہیں، وزارت سے پہلے ''ویسٹ کوٹ'' پہننے والے شاید ''سوٹ'' میں ہی سوتے ہوںگے پتا نہیں کب نا اہل بلالے۔ پاکستان میں زیادہ تر قومی اور صوبائی نا اہلوں کی حکومت رہی ہے۔ ''ملائی'' کوئی اور کھاتا رہا ہے، اب باقاعدہ نا اہل کے ہاتھ میں پورا پاکستان ہے کیونکہ نا اہل پاکستان کے ایک اور نا اہل ہوسکنے والے وزیراعظم کے دل کا وزیراعظم ہے۔

مسلم لیگ کے نام پر پاکستان سے یہ مذاق شاید پنجاب کے عوام پسند کرلیں کیونکہ قیام پاکستان کے متاثرین اور ہیں مگر خدا کو شاید یہ پسند نہ ہو، اس کا اظہار تو ہو رہا ہے مگر شاید ان کی آنکھیں دیکھنے سے قاصر ہیں اور شاید قدرت کا فیصلہ کسی اور فیصلے کی صورت آنے والا ہے اور شاید اب ان سب کو پتا چل جائے گا سزا کیا ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں