لیاری جاگ رہا ہے

لیاری میں امن قائم ہوتے ہی سماجی اور سیاسی سرگرمیاں پھر تیز ہوگئیں


Dr Tauseef Ahmed Khan April 11, 2018
[email protected]

PESHAWAR: لیاری میں خوشگوار تبدیلیاں جنم لے رہی ہیں۔ لیاری کے فرزندوں نے تخلیق کے میدان میں نئے ریکارڈ قائم کرد یے۔ لیاری کے بارے میں ایک اور کتاب "Lyari on the rise" شایع ہوگئی ۔ یہ لیاری میں قائم بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی، شعبہ انگریزی کے طالب علم عمیر رزاق نے تحریرکی ۔ اس سے قبل لیاری کی سماجی اور سیاسی تاریخ پر ایک سماجی کارکن رمضان بلوچ کی کتاب '' لیاری کی ادھوری کہانی'' اور سماجی تاریخ پر لطیف بلوچ کی کتاب '' لیاری کا مقدمہ '' شایع ہوئیں۔

معروف وکیل وحید نورکا شعری مجموعہ ''سکوت بول پڑا'' بھی شایع ہوا ۔ رمضان بلوچ نے اپنی کتاب میں لیاری کا پس منظر اور اہم سیاسی اور سماجی تحریکوں پر روشنی ڈالی تھی ، اس کتاب میں کئی اہم انکشافات درج تھے۔ لطیف بلوچ نے لیاری کا پس منظر ، لیاری میں چلنے والی طلبہ و سیاسی تحریکوں خاص طور پر بائیں بازوکی تحریکوں اورکارکنوں پر روشنی ڈالی ہے۔ وحید نور کے دیوان کا دیباچہ پروفیسر سحر انصاری نے تحریر کیا ہے۔ عمیر رزاق کہتے ہیں کہ لیاری میں گینگ وار نے سب کچھ تباہ کیا۔ اس لڑائی کو لیاری کے عوام پر مسلط کیا گیا تھا ۔ لیاری کے لوگوں نے مجرمانہ کردار کے حامل افراد کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی ۔

یہی وجہ ہے کہ لیاری میں امن قائم ہوتے ہی سماجی اور سیاسی سرگرمیاں پھر تیز ہوگئیں۔ فٹ بال کے نائٹ میچ ، مہینوں جاری رہنے والے فٹ بال ٹورنامنٹ ، باکسنگ کلب ، لڑکیوں کا باکسنگ کے کھیل میں عملا دلچسپی لیا ، پھر غیر سرکاری تنظیموں کی سرگرمیوں نے ایک مثبت ماحول پیدا کردیا۔ اب لیاری میں لڑکیاں سائیکل چلارہی ہیں۔ لیاری کے اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ٹیم کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگئی ہے مگر میڈیا لیاری کا تشخص بحال کرنے کو تیار نہیں۔ اب بھی لیاری کے باسیوں کو بدنام زمانہ مجرموں سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عمیر نے لیاری میں ہونے والی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے ایک انگریزی کے رسالے میں آرٹیکل تحریرکیے۔ پھر ان آرٹیکلز کو جمع کر کے ایک معلوماتی کتاب کی شکل دی۔ عمیر رزاق کی یہ کتاب 172 صفحات اور 35 مختصر ابواب پر مشتمل ہے۔

اس کتاب کے بارے میں آراء پر مبنی مضامین رمضان بلوچ ، ڈاکٹر اختر بلوچ اور معروف سماجی کارکن عابد حسین بروہی نے تحریرکیے ہیں۔ رمضان بلوچ لکھتے ہیں کہ جب ہم لیاری کا ذکرکرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلاچی کی پہلی بستی کا ذکرکر رہے ہیں، ارتقائی عمل کے نتیجے میں کلاچی ،کراچی میںتبدیل ہوگئی۔ لیاری کے لوگوں کوکچھ شکایتیں بھی ہیں ۔ ان کا سیاسی استحصال ہوا۔ یہاں کے لوگ غربت ، غیر مستحکم زندگی اور معاشی محرومیوں کا شکار ہیں مگر میڈیا کی طاقت لیاری کو گندا، میلا اور مجرموں کی آماجگاہ قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان عمیر اس تحریک کو تحریرکرنے پر مجبور ہوئے۔

لیاری کے فرزند اور لیاری میں قائم ہونے والی پہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ لیاری میں آرٹ، کلچر، ادب، کھیل، صحافت، موسیقی اور تعلیمی میدان میں تخلیق کاروں نے جنم لیا۔ وہ عمیر رزاق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عمیر رزاق جو پیدائشی طور پر لیاری کی آواز ہیں۔ عمیر نے اپنی صحافتی اور سماجی ذمے داریوں کو پورا کیا ہے۔ معروف وکیل اور شاعر وحید نور Shuttering the black night کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ لیاری کے فرزندوں پروفیسرعلی محمد شاہین، لالہ لعل بخش رند، رحیم بخش آزاد، جدوک بلوچ، یوسف نسقندی، فیض محمد بلوچ ، ن ، م، دانش اور یوسف مستی خان وغیرہ کے کرداروں کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔وہ لکھتے ہیں کہ کچھ بد نما چہروں کو پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا انتہائی غیر ضروری توجہ دیتا ہے، جس سے لیاری کا تشخص خراب ہوتا ہے۔

اس کتاب کے پہلے باب میں لیاری کے نوجوانوں کے کارناموں کو بیان کرتے ہوئے ۔ عمیر لکھتے ہیں کہ لیاری کے محلہ شاہ بیگ لائن کے غریب والدین کی بیٹی مریم آسکانی نے دل کے مریضوں کے لیے ایک آلہ تیارکیا جو دل سے ملنے والی غیر معمولی سگنلز کو ریکارڈ کرتا ہے۔ اسلام آباد میں 2016ء میں ہونے والی ایک نمائش میں اس آلے کی تیاری پر مریم آسکانی کو پہلا انعام دیا گیا۔ اسی طرح عاصمہ حیا بلوچ ایک مصور ہیں ، ان کا پنسل ورک مشہور ہے۔ لیاری کے علاقے بہار کالونی کی مکین کاملا رضا نے آغا خان بورڈ کے میٹرک کے ملک بھر میں ہونے والے امتحانات میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ سنیئر صحافی نرگس بلوچ کی بیٹی مہوش بلوچ جنہوں نے امریکا میں قانون کی تعلیم حاصل کی تھی انھیں نیویارک کی تمام عدالتوں میں وکالت کی اجازت ملی۔ ماہرہ احمد میانجی کو ان کی تعلیمی خدمات پر Pakistan Youth Icon کا اعزاز حاصل ہوا۔

احسان شاہ کو ان کی فلم جاور (جو امن کے بارے میں ہے) پر بین الاقوامی ایوارڈ ملا۔ احسان شااہ او ان کی اہلیہ نازین کی ایک دوسی ٹیلی فلم ''پریزن ود آؤٹ وال'' Prison without wallکی نمائش بے نظیر یونیورسٹی آڈیٹوریم لیاری میں گذشتہ اتوار کو ہوئی۔ گذنو روز غنی کو امن کی کوششوں پر ایوارڈ ملا۔ اصیلہ عبداﷲ محمد علی جناح یونیورسٹی کے بزنس مینیجمنٹ کے شعبے میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے پر گولڈ میڈل کی حقدار قرار پائیں ۔ باکسر امیر علی نے نیشنل چیمپئن شپ کے مقابلوں میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ عمیر نے لکھا ہے کہ اگلے دو سال لیاری کے لیے انتہائی اہم ہیں، اگر نوجوانوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہ کیا تو ناپسندیدہ عناصر اس پیدا ہونے والے خلاء کو پر کریں گے اور مقامی اور قومی میڈیا پھر ان عناصر کی سرگرمیوں کو اجاگر کریں گے۔ عمیر نے کتاب کے دوسرے باب میں لکھا ہے کہ ایک سماجی تنظیم سوشل ویلفیئر فاؤنڈیشن کے ترتیب کردہ اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے کہ 80ء کی دہائی میں سیکڑوں اسٹریٹ ایجوکیشن سینٹر کام کر رہے تھے۔

لیاری کے سماجی کارکنوں کی کوششوں سے نوجوانوں کی تربیت کے لیے مختلف اداروں نے پروگرام منعقد کیے۔ ان اداروں میں آغا خان فاؤنڈیشن سب سے اہم تھی۔ عمیر نے اس کتاب میں گزشتہ برسوں کے دوران لیاری میں ہونے والی سماجی سرگرمیوں اور لیاری سے متعلق تحریرکی جانے والی کتابوں کی تقاریب اجراء کے بارے میں تفصیلی تحریریں شامل کی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک سماجی تنظیم مہران آرٹ اینڈ پروڈکشن آرگنائزیشن نے لیاری میں فلم کی نمائش کا میلہ منعقد کیا جو پورے ہفتے جاری رہا۔ اس میلے میں پیش کی جانے والی تمام فلموں کے اسکرپٹ نوجوان پروفیشنل نے تحریرکیے تھے اور نوجوانوں نے ہی فلموں کی ہدایات دی تھیں۔ اس فلمی میلے کا لیاری میں امن کی کوششوں کو مستحکم کرنا تھا۔ کتاب میں لیاری کی خواتین کی فٹبال ٹیم کی بھی خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے ۔

عمیر نے لکھا ہے کہ ابھی کچھ لڑکیاں میدان میں فٹبال کھیلنے پر تیار ہوئی ہیں ۔ لڑکیوں کے کھیل کی راہ میں فرسودہ سماجی روایات حائل ہیں مگر ان کی تعداد بڑھتی جائے گی۔ کتاب میں بغدادی کے ایک ورکشاپ میں کام کرنے والے 17 سالہ جاوید بلوچ کا بھی ذکر ہے۔ جاوید بلوچ کو معروف شخصیتوں کے اسکیچ بنانے میں مہارت حاصل ہے۔ جاوید بلوچ نے میڈم نورجہاں، امیتابھ بچن، میوزک کمپوزر اے آر رحمن، اداکار نصیرالدین شاہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے اسکیچ تیار کیے ہیں۔

جاوید نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے 8 بہن بھائی ہیں مگر کسی کو بھی مصوری سے لگاؤ نہیں۔ میرے والد کو بھی مصوری سے دلچسپی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے مجھے تصاویر بناتے دیکھا توکہا کہ میں یہ مشق جاری رکھوں۔ بلوچ کامیڈین در محمد افریقی کا ذکرکرتے ہوئے کتاب میں تحریر کیا گیا ہے کہ درمحمد نے ساری زندگی آرٹ کلچر کے احیاء کے لیے وقف کی۔ مرحوم در محمد لیاری کے علاوہ بلوچستان، ایران اور مسقط میں بھی خاصے مقبول تھے۔ مصنف نے لیاری سے شایع ہونے والے ایک شام کے اخبار پر بنائی جانے والی ڈاکیومنٹری کا ذکر کیا ہے ۔ اس اخبار نے زرد صحافت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ڈاکیومنٹری میں صحافیوں کے علاوہ خواتین اور متعلقہ لوگوں کے خیالات شامل کیے گئے۔ لیاری گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں گینگ وار کا شکار ہوا ، اور اندھیروں میں ڈوبا۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں متحرک ہوئیں۔ لیاری میں سکون ہوتے ہی سماجی سرگرمیاں تیز ہوگئیں۔

لیاری اس خطے کا واحد علاقہ ہے جس کے بارے میں صرف ایک سال میں تین کتابیں شایع ہوئی ہیں ۔ یہ کتابیں لیاری کے فرزندوں نے تحریر کی ہیں مگر ذرایع ابلاغ اب بھی لیاری کی منفی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ عمیر نے لیاری کا حقیقی امیج ابھارنے کے لیے یہ کتاب تحریرکی ہے۔ عمیر اوران کے ساتھیوں کی کوششیں جلد رنگ لائیں گی اور قومی میڈیا لیاری کا مثبت چہرہ پیش کرے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ اب لیاری جاگ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں