ضمیروں کے جاگنے کا زمانہ آیا ہی چاہتا ہے
وطن عزیز پاکستان میں کسی کی مقبولیت کا دمکتا اور چمکتا ستارہ کب اچانک گل کردیا جائے
یہ نوے کی دہائی کی بات ہے جب جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دورآمریت کے بعد یہاں سول جمہوری حکومتوں کو چلنے نہیں دیا جا رہا تھا اور جمہوریت دشمن آئینی ترمیم 58 بی2 کے ذریعے نہ صرف عوام کے منتخب جمہوری حکومتوں کا قلع قمع کر دیاجاتا تھا بلکہ قومی اورصوبائی اسمبلیوں کا بھی بوقت ِجنبش قلم خاتمہ کر دیا جاتا تھا۔ دستور علامتی عہدے اورمنصب پرفائز شخص کے ہاتھوں میں ایسی ننگی تلوار دے دی گئی تھی جس کی کاری ضرب سے اُن دنوں کوئی بھی جمہوری حکومت بچ نہ سکی۔
کہنے کو اِس ترمیم نے فوجی مارشل لاؤں کا راستہ روکے ہوا تھا اور شاید اِسی وجہ سے ہمارے کچھ دانشوروںاور تجزیہ نگاروں کی نظر میں بار بار کے مارشل لاؤں سے بچنے کا یہ واحد بہترین آئینی اور امکانی حل تصور کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی بعض لوگ اِس کی حمایت دلائل پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ اِس کے پیچھے بھی وہی سوچ اور فکر کارفرما دکھائی دیتی ہے جس کا مقصد بھی صرف اورصرف جمہوری حکمرانوں کو عوام کے نظروں میںبے وقعت اور بے آبرو کرنا ہے۔
اُن دنوں جن دو صدورجناب غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے صرف دو دو اور ڈھائی سال بعد سول حکومتوں کو کرپشن کے الزامت لگاکرقبل ازوقت فارغ کرکے جس دوسرے فریق کو عنان حکومت سنبھالنے کی دعوت دی وہ کوئی نیک و پارسا اور فرشتہ صفت فریق نہ تھا بلکہ وہی تھا جسے وہ اپنے ایسے ہی الزامات کے تحت دوتین سال پہلے فارغ کرچکے تھے ۔ اُنہی دنوں نگراں حکومت کے لیے ایک ایسے وزیر اعظم کو باہر سے درآمد کیا گیا تھا جس کے پاس اپنے پاکستانی ہونے کی کوئی ایک شناخت بھی موجود نہ تھی۔ پاکستان میں ہمارے مقتدر حلقوں کی جانب سے ایسے ایسے کتنے کرشمے اور معجزے دکھائے جاتے رہے ہیں۔ ستم ظریفی کے بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے اُن حلقوں کے جانب سے کیاجاتا رہا ہے جنھیں ہمارے عوام انتہائی مخلص اور محب وطن تصورکرکے صبح و شام سلام پیش کیا کرتے ہیں۔
معین قریشی کو ملکی اداروں کے علاوہ دنیا کی ایک سپر پاورکی بھی آشیر باد حاصل تھی تبھی وہ اِس طرح آناً فاناً بلا کسی سفری دستاویزکے فوراً اِس ملک میں وارد ہوجاتے ہیں اورکسی بابا رحمت میں اُس وقت اتنی جرأت و ہمت بھی نہ تھی کہ اُن سے اِس بارے میں کوئی سوال بھی کرسکے۔ اُس زمانے میں ہماری سول سوسائٹی میں یہ تاثر عام تھا کہ اِس پاکستان میں صرف وہی شخص حکومت کرسکتا ہے جسے انگریزی زبان کے حروف تہجی کے حرف تین "AAA" کی تائید و حمایت حاصل ہو۔ یعنی اللہ، امریکا اور آرمی۔ اللہ کی شان ہے کہ اِن تین طاقتوں میں اب ایک اور Aکا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری عدلیہ کا شمار بھی اِس ملک میں حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والوں میں ہونے لگا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں کسی کی مقبولیت کا دمکتا اور چمکتا ستارہ کب اچانک گل کردیا جائے اور وہ عوامی پذیرائی اور مشہوری کی بلندیوں سے گر کر یوں زمیں بوس ہوجائے کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ مقبولیت اور ناموری کا اندازہ لگانے والے تمام سروے اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے سارے حساب کتاب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور کام کرنے والے اپنا کرشمہ دکھاجاتے ہیں۔ اِس ملک میں محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر ڈاکٹر قدیر خان جیسے مخلص اور بے لوث لوگوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ اُن جیسے محب وطن نیک لوگوں کے چہرے بھی جب مسخ کرکے پیش کیے جاسکتے ہیں تو ہم اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔
دوسال پہلے تک میاں محمد نواز شریف کا طوطی بول رہا تھا۔ تمام اخباری سروے اور اندازے یہی بتا رہے تھے کہ آیندہ ہونے والے انتخابات میںبھی وہ ایک بار پھرکامیابی سے سرفراز ہوں گے۔اُن کی تیزی سے بڑھتی ہوئی یہی مقبولیت خود اُن کے لیے مصیبت اورعذاب بن گئی۔اِس ملک میں ہمیشہ سے راج کرنے والوں کو اُن کی یہ مشہوری اور ناموری ایک آنکھ نہیں بھائی۔ وہ اُن کی اِس عوامی مقبولیت میںاپنے لیے خطرہ محسوس کرنے لگے۔دیکھا جائے تو ہمارے یہاں تیزی سے مقبول ہوتے ہوئے ہر جمہوری حکمراں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیاہے۔ ذوالفقار علی بھٹواورمحمد خان جونیجوکو بھی ہٹائے جانے کی پیچھے بھی یہی خدشات اور وسوسے کارفرما تھے۔محمد خان جونیجو کی زندگی نے اُن کا ساتھ نہ دیا ورنہ اُن کا بھی حال ذوالفقار علی بھٹو سے شاید مختلف نہ ہوتا۔ اب نواز شریف بھی اِنہی مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اُنہیں شاید اندازہ ہوچکا ہے کہ اگر انھوں نے مقتدر قوتوں سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا تو اُن کا انجام بھی مختلف نہ ہوگا۔
جوں جوں الیکشن قریب آتے جارہے ہیں مسلم لیگ (ن) کے کئی بڑے بڑے اکابرین کے ضمیر جاگنے لگے ہیں۔دیکھتے دیکھتے میاں نواز شریف کے بہت سے دوست اور با اعتماد ساتھی اُن کاساتھ چھوڑتے دکھائی دیں گے۔رفتہ رفتہ یہ حال کردیا جائے گا کہ اُنہیں الیکشن میں نامزد کرنے کے لیے اُمیدوار بھی نہیں ملیں گے۔ جس عوامی ری ایکشن کی وہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اُن کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پہ نکل آئے گی وہ وقت پڑنے پردور دور تک دکھائی نہیں دے گی۔ برادر اسلامی ملک مصر کے سیاسی حالات بھی ہمارے یہاں سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ وہاں بھی وہی ایک ہی قوت سب سے طاقتور اور بالادست ہے۔
تیس سال سے بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والے مطلق العنان حکمراں حسنی مبارک کے زوال کا جب وقت آیا اور وہاں کے دارالحکومت قاہرہ کے مشہور زمانہ تحریر اسکوائر پر ہزاروں افراد کے کئی مہینوں پر محیط احتجاج اور دھرنے کے سبب اُنہیں معزول اور محروم اقتدر ہونا پڑا تو کسی کو پتہ نہیں تھا کہ اِس کے نتیجے میں بھی وہاں کسی جمہوری حکومت کے بجائے کوئی دوسرا مطلق العنان شخص حکمرانی کرے گا۔ حسنی مبارک کے چلے جانے کے بعد بظاہر جمہوری طریقہ انتخاب کے تحت جس پارٹی کو عوام نے خود پر حق حکمرانی کے لیے منتخب کیا تھا اُسے ایک سال بھی چلنے نہیں دیاگیا۔
اخوان المسلمون کا منتخب شدہ صدر محمد مرسی آج وہاں کی کسی جیل میں اُن دنوں کو یقینا کوس رہا ہوگا جس روز اُس نے اپنے عوام کی بھر پور تائیدو حمایت پر بھروسہ کرکے آئین میں تبدیلی کے لیے سعی وکوشش کی تھی۔اُس کی یہ کوشش اک بہانہ بن گئی اوروہاں بھی طاقت واختیار کے حامل اصل قوتوں نے اپنی عدلیہ ہی کے ذریعے اُسے صدارتی محل سے اُٹھا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ۔ وہ اب شاید ساری زندگی اِسی طرح گذارے گا اور کوئی اُسے نکالنے والا نہ ہوگا۔اس حال میں پہنچ جانے میں اُس کا اپنا قصور کتنا ہے شاید اُسے بھی معلوم نہیں ۔ میاں صاحب کو بھی مصر کے سابق صدر محمد مرسی کے انجام سے سبق سیکھنا ہوگا ۔
''مجھے کیوں نکالا'' کا ورد ختم کرکے اُنہیں اب سیاست سے دستبردار ہونا ہوگا ، اگر ایسا نہ کیا تو پھر ساری زندگی جیل میں رہنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔ وہ اِس غلط فہمی کو اپنے دماغ سے نکال دیں کہ اِس ملک کے عوام اُن کے لیے سڑکوں پر نکلیں گے۔ عوام توکیا اُن کے قریبی ساتھیوں میں سے کوئی شخص بھی خود کو اِس مصیبت اور عذاب میں ڈالنے کو تیار نہیں ۔ وہ تو حالات و واقعات کو تیزی سے بدلتا دیکھ کرخود اپنی وفاداریاں بدلنے کے لیے تیار بیٹھا ہے ۔ نادیدہ قوتوں کی جانب سے اشارہ ملتے ہی بہت سے مخلص اور وفادار دوست اِس طرح آنکھیں پھیریں گے کہ ساری نیک نامی ، مخلصی اور بے لوثی شرما تی پھرے گی۔