انداز فکر
قابلِ تحسین ہے ہماری ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا یہ اقدام کہ جس نے اپنے ذمے یہ اہم قومی فریضہ ادا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا
2002 ء اور 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں معرضِ وجود میں آنے والی جس پارلیمنٹ کو ہمارے عوام ایک تعلیم یافتہ پارلیمنٹ سمجھ کر پانچ سال تک فخر کرتے رہے اور جس کا سارا کریڈٹ جناب پرویز مشرف اپنے سنہری اعمال کے کھاتے میں ڈالتے رہے اُس کا بھانڈا تو آج سرے بازار پھوٹ چکا ہے۔ جعلی ڈگریوں پر منتخب ہونے والے ممبران کی اکثریت پر مبنی ہماری پڑھی لکھی قومی اسمبلی نے اپنی قوم کو دھوکہ دہی اور چور بازاری کی جو راہ دکھائی اور سمجھائی ہے اُس کا خمیازہ ہماری نسلیں اگلی کئی دہائیوں تک بھگتی رہیں گی۔
قانون بنانے والوں نے قانون کی جس طرح دھجیاں بکھیری ہیں اُس کی مثال اعلیٰ قدروں پر مشتمل معاشروں میں شاید ہی مل سکے لیکن شاید ہمارے یہاں جہاں ایسی حر کتوں کو اب بُرا نہیں سمجھا جاتا اور بڑے بڑے جرائم کے ارتکاب کے مقابلے میں اِسے ایک معمولی جرم سجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے بلکہ جعلی ڈگری کا اعتراف کرنے والے کو پہلے سے زیادہ ووٹوں سے نواز کر اُسے پھر ملک کے سب سے اعلی ادارے کی شان میں اضافے کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے تو ہماری ایسی سوچ اور بالغ نظری پر ماتم کے سوا اور کیا کیا بھی جا سکتا ہے۔
بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارا سابقہ الیکشن کمیشن جسے آئین و قانون کے عین مطابق صاف و شفاف الیکشن کرانے کا اہم کام سونپا گیا تھا اُس نے ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ اُمیدواروں کی ڈگریوں کو ذرا چیک بھی کرلیا جائے۔یہ بات تو اُس وقت عیاں ہوئی جب اِن جعلی ڈگریوں پر منتخب ہوکر کئی سالوں تک مزے لوٹنے والوں کی خبر گیری کا کام ہماری اعلیٰ عدلیہ نے شروع کیا۔اُس سے پہلے کسی کو بھی اپنے فرائض ِ منصبی یاد نہ تھے۔ سیاسی پارٹیاں اپنے ممبروں کی اِس جعل سازی پر اِس لیے چُپ رہیں کہ کہیں وہ اپنی اسمبلی کی نشستوں سے محروم نہ ہوجائیں۔
اور ویسے بھی ہمارے سیاسی سورماؤں کی نظر میں یہ کوئی اتنا بڑا قابلِ مذمت جرم سمجھا ہی نہیں جاتا جہاں بڑے بڑے کرائمز کے مرتکب اعلیٰ عہدوں پر برا جمان ہوں وہاں بھلا ڈگری کے ایک جعلی کاغذ کا حصول کیا حیثیت رکھتا ہے۔
قابلِ تحسین ہے ہماری ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا یہ اقدام کہ جس نے اپنے ذمے یہ اہم قومی فریضہ ادا کرنے کا بیڑہ اُٹھایا اور جس کی کاوشوں سے 135سے زیادہ سابقہ ارکانِ اسمبلی نئے آنے والے الیکشنوں سے باہر ہوچکے ہیں ۔البتہ کچھ کیسز میں نظر ثانی ہورہی ہے۔ اگر اِس بار بھی ایسا کرنے سے گریز کیا جاتا تو کوئی شک و شبہ نہیں تھاکہ وہ ارکان ایک بار پھر منتخب ہوکر ہمارے سروں پر بیٹھ جاتے۔جعلی ڈگری بنانا اور اُس پر مراعات اور فوائد حاصل کرنا انتہائی قابلِ سزا جرم تصور ہونا چاہئیے۔
اور اِس پر سزا بھی اُتنی ہی سخت دینی چاہیے کہ آیندہ کوئی یہ کام کرنے سے پہلے سزا کے خوف سے کئی بار سوچے اور اُس سے اجتناب کرے۔ اِس جرم کے مرتکب افراد کو اُس وقت تک رہا نہ کیا جائے جب تک وہ اِس جرم میں تمام معاون افراد کی نشاندہی نہ کردیں۔جعلی ڈگریوں کے اِس کاروبار کی سخت ترین بیخ کنی کی جانی چاہیے اور اِس میں ملوث تمام افراد کو جنہوں نے اِن ڈگریوں کی اشاعت اور حصول میں معمولی سا بھی رول ادا کیا ہو ایسی سخت ترین سزا دینی چاہیے کہ وہ تو کیااُنکی نسلیں بھی ایسا کرنے سے گریزاں ہوں۔
جعلی ڈگریوں کا یہ کاروبار ہمارے یہاں بہت پھیل چکا ہے اور نجانے سرکاری محکموں اور دیگر اداروں میں بڑی بڑی پوسٹ پر بیٹھے کتنے افراد اِن ڈگریوں کی بدولت ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی حق تلفی کر رہے ہونگے۔ یہ بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ہم جھوٹ، فریب اور دھوکہ دہی میں اِس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ہمیں جعلی ڈگریوں کا حصول اب کوئی بڑا جرم معلوم ہی نہیں ہوتا۔ہمارا معاشرہ ہمارے اِنہی بد اعمال سیاسی رہنماؤںکی وجہ سے اخلاقی،تہذیبی اور معاشرتی پستی کی انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے اور ہم مہذب اور تعلیم یافتہ دنیا میں انتہائی نا قابلِ اعتبار قوم کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔
دنیا ہمیں بے اعتباری نظروں سے دیکھتی ہے۔ کرپشن ، چور بازاری اور دھوکہ دہی میں ہمارا مقام افسوسناک حد تک بلند ہو چکا ہے۔ذلت و رسوائی بھی ہمارے سوئے ہوئے ضمیرکو جھنجوڑ نہیں سکتی۔لیکن جب ہمارے رہنماؤں کی ذہانت ، قابلیت اورروشن خیالی کا یہ حال ہو تو اور وہ خود بڑے بڑے جرائم کے مرتکب ہوں تو قوم کا کیا حال ہوگا۔جہاں قانون پر عمل داری مشکل اور ناممکن بنادی جائے اور جہاں قومی خزانے کی لوٹ مار ایک ناقابلِ سزا جرم تصور کیا جانے لگے وہاں ایک خوشحال مستقبل کی آس و اُمید محض خوش فہمی ہی قرار دی جا سکتی ہے۔
ہم نے گزشتہ پانچ سالہ جمہوری دور میں قانون اور عدلیہ کے احکام کی جس طرح پامالی اور بے توقیری دیکھی ہے اُس کے بعد حکمرانوں سے کسی اچھے اور بہتر کام کی توقع خود اپنے کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔اِن حکمرانوں نے عدلیہ کے ہر حکم کو جس طرح اپنے پاؤں تلے روندا اور جس طرح اُنہیں لیت و لعل کے بعد بادلِ ناخواستہ قبول کرنے پر رضامندی دکھائی کہ اُس کی تمام اہمیت و افادیت ہی ختم ہوکر رہ
گئی اور وہ صرف کاغذ پر ہی محدود ہو کر رہ گئے۔نہ کوئی بڑا مجرم پابندِ سلاسل ہو سکا اور نہ کوئی بڑا جرم ثابت ہوسکا۔ معاملات لگا تار تاریخوں اور التوا کا شکار ہوگئے۔ کسی بڑے مقدمے کا فیصلہ نہ ہوسکا۔راؤ شکیل ، زین سکھیرا اور توقیر صادق جیسے لوگ اپنے سرپرستوں کی مکمل حمایت اور امداد کی بدولت ابھی تک بے خوف اور مطمئن دکھائی دے رہے ہیں جیسے قانون کی کوئی گرفت اُن کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی ۔اُنہیں معلوم ہے کہ جرائم کی سرپرستی کرنے والوں کے ہاتھ قانون کے ہاتھوں سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہو چکے ہیں۔
ادارے کے ادارے کنگال اور برباد کر دیے گئے ، معصوم اور بے گناہ حاجیوں کو بھی نہیں بخشا گیا، قوم کے پیسوں پر عیاشیاں کی گئیں، ملک کو قرضوں کے دلدل میں دھکیل دیا گیا، چلتی پھرتی ریلوے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا گیا۔ بجلی کے بحران کوکرپشن کی سوچ اور بد نیتی نے مزید گہرا اور بڑا کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پانچ سال بعد بھی حکمرانوں کے پھیلائے ہوئے اندھیروں سے باہر نہ نکل سکی۔ فیکٹریاں اور کارخانے رفتہ رفتہ بند ہوتے گئے اور مزدور بے روزگار لیکن حکمرانوں کے اثاثے ضرور بڑھتے گئے۔یہ حال ہے ہمارے اُن رہبر و رہنماؤں کا جنھیں ہم اپنا ہمدرد اور نجات دہندہ سمجھ کربڑے بڑے ایوانوں میں بھیجا کرتے ہیں۔
قوم کو اپنے اِس طرز عمل اور اندازِ فکر کو اب بدلنا ہوگا۔ وہ کب تک چوروں لٹیروں اور رہزنوں کو اپنا رہبرو رہنما بناتی رہے گی اور کب تک ذلت و رسوائی کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔ نئے الیکشن میں اب صرف ایک ماہ کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔ ہمیں ایک نئی صبح کے ساتھ اپنے نئے سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔ایک اچھے اور روشن مستقبل کے لیے اعلیٰ کردار اور نیک صفات پر مشتمل قیادت کا انتخاب کرنا ہوگا۔جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے چنگل سے باہر نکل کر صرف اپنے وطن اور اپنی قوم کی فکر کرنا ہوگی تبھی کوئی روشن مستقبل کی اُمید بندھ سکے گی۔