ماں کی ٹھنڈی چھاؤں

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی طرح فیصلہ کرلیتا ہے کہ اب ایسا نہیں کرنا۔


Shehla Aijaz April 12, 2018

ابھی کی بات ہے عظیم ہستیوں کے حوالے سے کہیں پڑھا تھا کہ کہاں گئیں، آج کے دور میں ایسی مائیں جنھوں نے ایسے ایسے جواہر پیدا کیے، مراد یہ کہ عظیم مائیں کہ جنھوں نے عظیم ہستیاں اس دنیا کو دیں جن کے عظیم کام آج کی دنیا کے لیے مثال ہیں۔

سوال بڑا اچھا تھا اور اس کا جواب اسی قدر مشکل ہے کہ ہم آج جس قسم کے ماحول کو اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں، زندگی بسر کر رہے ہیں کیا اس ماحول میں ایسی مائیں دستیاب ہیں۔ یہ ماحول جو ہماری نسلوں میں مادیت پرستی، خود غرضی، نفسانی خواہشات، اجارہ داری اور نفرتوں کے بیج بو رہا ہے کیا ہم اس دور میں ایسی عظیم ہستیاں پھر سے کسی اور روپ کسی اور کردار میں دیکھ سکیں گے۔

ماں کا رتبہ اسلام میں اس قدر اعلیٰ درجے کا ہے کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمادیا کہ ''جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔''

یہ اسی نبی نے فرمایا تھا کہ جن کی اپنی والدہ ماجدہ محض چھ برس کی عمر میں آپ کو چھوڑ گئی تھیں جب کہ والد محترم کا سایہ بھی سر پر نہیں تھا۔ آپؐ کے کردار کی کیا بات کہ آپؐ تو اس دنیا کے لیے ایک مثالی کردار ہیں ہم آپؐ کے عظیم کردار اور آپ کی والدہ ماجدہ کی عظمت کو تو بہت اعلیٰ درجے پر رکھتے ہیں پر اس زمانے میں ایک ماں کا کیا کردار ہے۔

ابھی چند ہفتے پہلے ہی کی بات ہے جب لاہور میں ایک ماں نے اپنے ہی تین بچوں کا گلہ گھونٹ ڈالا وجہ۔۔۔وجہ اس قدر شرمناک کہ وہ بچے اس کی شادی کی راہ میں رکاوٹ تھے، ذرا سوچیے بچے جو چند برسوں میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتے اور بڑھاپے میں اس کے کام آتے لیکن نفس کا کھیل دیکھیے وہ بدبخت خاتون ہار گئی نفس جیت گیا۔ اگر اس عورت میں ذرا عقل ہوتی تو وہ یہ بھی سوچ سکتی تھی کہ اگر میں اپنے بچوں کو ہلاک کر دوں گی تو خدا کے قانون کی گرفت کو تو چھوڑیے ہمارے آج کل کے قانون کے بارے میں ہی سوچ لیں کہ بچ کر کیسے نکلوں گی اور اگر وہ یہ الزام اپنے اس احمق عاشق پر ڈالتی ہے تو پھر بھی یہ سوچتی کہ پھر میں شادی کس سے کروں گی لیکن نفس کی تیز جذباتی چکی یہ سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دیتی اور انسان بہتا چلا جاتا ہے۔

کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی طرح فیصلہ کرلیتا ہے کہ اب ایسا نہیں کرنا لیکن کچھ حالات و واقعات اس طرح رونما ہوجاتے ہیں کہ آپ مجبور ہوجاتے ہیں کچھ عرصے پہلے سوچا یہی تھا کہ اب اس طرح لکھنا ہے یوں کرنا ہے لیکن ماں کا لفظ اس قدر متاثر کن ہے کہ انسان رک نہیں سکتا، ماں مضبوط بھی ہے اور کمزور بھی حساس بھی ہے اور مظلوم بھی قدرت اسے رب العزت کی جانب سے عطا کردہ ہے کہ اس کے دل سے نکلی آہ عرش کو بھی ہلاسکتی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ایک سرکاری اسکول کی استانی صاحبہ کے ایک کے بعد ایک دو جوان بچے خدا کو پیارے ہوگئے پہلے جوان بیٹی اور پھر بیٹا دونوں بچے ایک خاندانی موروثی بیماری کا شکار تھے اور جیساکہ ہمارے یہاں خاص کر پنجاب کے علاقوں میں روایت ہے کہ شادیاں خاندان میں ہی کی جاتی ہیں اسی طرح خاندان تو مضبوط ہوجاتے ہیں لیکن انسانی جین میں بگاڑ پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے جو جسمانی اور دماغی عوارض کا باعث بنتے ہیں وہ بچے بھی انھی بیماریوں میں مبتلا ہوکر دنیا سے گزر گئے وہ ماں جس نے ایک طویل عرصہ پہلے اپنے بچوں کو عام بچوں کی طرح ہنستے مسکراتے دیکھا پھر بیماری نے پکڑا تو وہ مفلوج ہوکر بستر پر پڑ گئے اور ماں ان کی ساری ضروریات پوری کرتی رہی کیونکہ وہ اس کے وجود کا حصہ تھے۔

سولہ سترہ برس کے بچے جو اب میٹرک پاس کرکے کالج جانے والے تھے لیکن بستر پر پڑ گئے اور ایک کے بعد ایک اس دنیا سے چلے گئے ماں باپ نے اپنے بچوں پر اپنا سب کچھ لٹا دیا پر انھیں روک نہ سکے۔ ان بچوں کی اموات کے بعد سرکاری طور پر بچوں کے علاج کی مد میں اخراجات کے سلسلے میں پوری کارروائی ہوئی اور خدا خدا کرکے صورت نظر آئی لیکن ادارے کے ایک افسر اس بات سے کچھ خائف تھے ان کی نظر میں یہ رقم خالی تھی باپ نے کہا حضور ذرا خوف کریں میرے دو بچے اس دنیا سے گئے ہیں وہ صاحب بھی اڑ گئے ماں کے دل پر کیا بیتی ہوگی خدا جانے۔

افسر صاحب نے کچھ اس طرح کہا جیسے کہ ہمارے یہاں عام ہے کہ آپ لے کر تو دکھائیے وغیرہ وغیرہ دونوں میاں بیوی اداس تھے کسی نے سمجھایا آپ غم نہ کریں کل تشریف لائیے گا۔ وہ دوسرے دن پہنچے تو پتہ چلا کہ آج عملے کی ذرا جلدی چھٹی ہوگئی پوچھا کیوں؟ جواب ملا فلاں فلاں صاحب کا رات کو انتقال ہوگیا۔ ان کی نماز جنازہ ہے پوچھا آپ نے کس کی بات کی وہ صاحب تو کل۔۔۔۔جواب ملا جی جی ان کی ہی بات کر رہے ہیں۔

صاحبو ! یہ دنیا ایک سرائے کی مانند ہے ہم سب کو اپنے اپنے کردار کو اچھی طرح سے نبھا کر اسی مالک کے سامنے جانا ہے کہ جنھوں نے ہمیں اس دنیا میں کچھ کرنے کے لیے بھیجا ہے، یہ وزارتیں۔۔۔۔یہ منصب، یہ عہدے، دولت، عزت سب بہت اچھے ہیں نعمتیں ہیں لیکن ہم ان نعمتوں کو اپنے ہی لیے زحمتیں بنا دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ ان سب چیزوں پر میرا قبضہ ہے۔ میرا اختیار ہے۔

یہ میری ناک کا مسئلہ ہے۔ میری عزت کا معاملہ ہے۔۔۔چاہے ہمیں دوسرا پل بھی نصیب ہو یا نہ ہو۔ بات ہو رہی تھی عظیم ہستیوں کی ماؤں کے حوالے سے تو مولانا محمد علی جوہر کی والدہ کی مثال لیں کہ اس دور میں انھوں نے اپنے صاحبزادوں کی ایسی تربیت کی کہ انھیں پڑھا لکھا کر ایسا مرد مجاہد بنادیا جو انگریزی بھی بولتے تھے اور اردو میں بھی ان کا کمال نہ تھا مقرر بھی تھے اور اہل قلم بھی تھے، مولانا محمد علی جوہر کی والدہ جنھیں تاریخ آج بھی بی اماں کے نام سے جانتی ہے۔ اپنے بچوں کی نہ صرف بہترین تربیت کی انھیں ہمت دلاتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑی تھیں، محمد علی جوہر کا قول ہے دنیا میں اور سب سے حسین ماں ہے یعنی ماں سے بڑھ کر حسین ہستی اور کوئی نہیں۔

اسی طرح شاعر مشرق کی ماں نے اپنے دونوں بیٹوں کی تربیت اس انداز سے کی کہ وہ انگریزی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے اور اپنے ایمان سے بھی دور نہ ہوئے کیونکہ اس زمانے میں یہی خیال کیا جاتا تھا کہ مسلمانوں کے لیے انگریزوں کی تعلیم حاصل کرنے سے ایمان کے زائل ہونے کا خطرہ ہے یہ وہی شاعر مشرق علامہ اقبال ہیں کہ جنھوں نے خودی کے سبق کو اس طرح پڑھایا کہ آج بھی اسے پڑھنے سے ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ آپ نے ماں کی محبت میں لکھا تھا:

سیرت فرزند یا از امہات

جوہر صدق صفا از امہات

ترجمہ بیٹیوں کی زندگی ماؤں کی تربیت سے بنتی ہے۔ بیٹوں میں سچائی اور ایمان کی خوبیاں ماں کی تربیت سے پیدا ہوتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں