جدید نو آبادیات کی چھینا جھپٹی
نوآبادیات کے حصول اور قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے دو عالمی جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پانچ کروڑ انسان جان سے جاتے رہے۔
ماضی ، حال اور مستقبل کی جنگیں، وسائل پر قبضہ کرنے کی جنگیں تھیں، ہیں اور رہیں گی، تاوقتیکہ وسائل مشترکہ ملکیت نہ ہوجائیں۔ معلوم تاریخ کے زمانہ قدیم میں جب مشترکہ ملکیت تھی تو میرا اور تیرا کا تصور بھی نہیں تھا، سب مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کرکھاتے تھے۔ سائنس نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ پیداوارکی بہتات تھی مگر آج کی طرح روزانہ ہزاروں انسان بھوک سے مرتے تھے اور نہ جنگوں کے نظر ہوتے تھے۔
امریکا کی دریافت سے قبل وہاں انسان رہتے تھے اور خوش وخرم ہوتے تھے۔ وہ ہفتے میں تین روزکام کرتے تھے اورکام یہ تھے کہ درختوں سے پھل توڑنا اور دریاؤں سے مچھلی پکڑنا۔ جب ہسپانوی سامراج نے امریکا پر، برطانوی سامراج نے ہندوستان اور چین پر اور فرانسیسی وجرمن سامراج نے افریقہ اور عرب پر قبضہ کیا تو وہاں بھوک، افلاس اورطرح طرح کی بیماریوں سے لوگ مرنے لگے۔ جابجا قحط اور وبائی امراض نے عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ نوآبادیات کے حصول اور قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے دو عالمی جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں پانچ کروڑ انسان جان سے جاتے رہے، صرف روس میں دوکروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔
عالمی سامراجی گدھ کی طرح نو آبادیات پر جھپٹ پڑے۔ اس چھینا جھپٹی میں سامراج کے دو مرکزے بن گئے۔ ایک جانب برطانیہ، امریکا، فرانس اور دوسری جانب اٹلی، جرمنی اور جاپان۔ جنگ کے اختتام پر فاتح نے مفتوح پر تاوان ادا کرنے اور طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں عاید کردیں۔ امریکا، ایشیا، افریقہ خاص کر ایشیا کے دو ممالک ہندوستان اور چین کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ نتیجتا یورپی ممالک خواندہ، ترقی یافتہ اورخوشحال ہوگئے اورامریکا،ایشیا و افریقہ کنگال ہوگئے۔
ان لوٹ مارکی نو آبادیاتی عوامل کے نتیجے میں روس، چین، ویتنام، مشرقی یوروپ،کیوبا،کوریا اورکچھ عرب ممالک میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا اور وہاں سر مایہ داری و جاگیرداری کا خاتمہ کردیا گیا۔ ان ملکوں سے مہنگائی ، بیروزگاری، افلاس، ناخواندگی ، بے گھری، لاعلاجی اور طبقاتی نا برابری کا خاتمہ کیا لیکن تیز رفتاری سے امداد باہمی یا کمیونسٹ سماج کی جانب پیش قدمی نہ کرنے سے ان ملکوں میں سرمایہ داروں نے سازشیں کیں اور رد انقلاب لا کر وہاں پھر سے سرمایہ داری قائم کردی۔ اس کے باوجود آج بھی ان ملکوں میں خواندگی کی شرح 90 سے 98 فیصد ہے۔ ملاوٹ، علاج معالجے اور زندگی کی بنیادی سہولتیں ایک حد تک پھر بھی بہتر ہے۔کیوبا اور کوریا میں 99.99 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔
پاکستان اورکشمیر میں 2005ء میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی علاج معالجے کے لیے کیوبا سے آ نے والے ڈاکٹروں کی خدمات کے عوض پاکستان کی حکومت نے ڈاکٹر فیدل کاستروکو خصوصی اعزازسے نوازا ہے، لیکن عالمی سرمایہ داری آج کل انتہائی معاشی بحران کا شکار ہے۔ یورپ کی شرح نمو دو فیصد تک آن پہنچی ہے جب کہ امریکا کی تین فیصد اور چین کی گیارہ فیصد سے گھٹ کر چھ فیصد پر آگئی ہے۔ آج کی عالمی سرمایہ داری کا بحران درحقیقت زائد پیداوارکا بحران ہے۔ اس لیے عالمی سرمایہ دار نوآبادیوںکی جگہ جدید نو آبادیات کی حصول کے لیے پراکسی وار اور ایجنٹوں کے ذریعے جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔
اس وقت سامراج کے دو بڑے عالمی مراکز تشکیل پاچکے ہیں۔ ایک جانب امریکا، یورپ، سعودی عرب، اسرائیل، بھارت، مصر، اردن،جاپان اور جنوبی کوریا تو دوسری جانب روس، چین، ایران، شام، لبنان ، یمن، عراق، وسطی ایشیائی ممالک اور منگولیہ وغیرہ ہیں ۔ امریکا نے جدید نوآبادیاتی ممالک پہ اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے اسرائیل، سعودی عرب، بحرین، مصر، جنوبی کوریا، جاپان اور عرب امارات میں اپنے فوجیوں پر مشتمل فوجی اڈے قا ئم کر رکھے ہیں، جب کہ روس، چین اور ایران وسطیٰ ایشیا، عرب ممالک ،افغانستان، برما، سری لنکا، مغربی افریقا اور دیگر ممالک میں سامراجی کردار ادا کررہے ہیں۔
مثال کے طور پر برما میں گیس، تیل اور قیمتی جواہرات کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ چین پائپ لائن کے ذریعے برما سے تیل اورگیس حاصل کرتا ہے جب کہ امریکا اس کوشش میں پراکسی وار کرنے میں جتا ہوا ہے کہ چین کو برما سے بھگا کرخود قبضہ کرے۔ اسی طرح دنیا کے چار بڑے تانبے کے ذخائر میں سے ایک افغانستان میں ہے جس کا ٹھیکہ چینی کمپنی کے پاس ہے۔ اس وقت دنیا کے سمندروں میں امریکا کے 68 بحری بیڑے موجود ہیں جب کہ چین کے 12 ہیں۔ پا کستان اس چکی کا پاٹ بنا ہوا ہے۔ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر چودہ ڈالر لے جاتا ہے جب کہ ہمیں سب سے زیادہ تجارتی خسارہ چین سے ہورہا ہے۔
گزشتہ برس چینی کمپنی کو ایک ارب روپے کراچی کا کوڑا صاف کرنے کے لیے ادا کیے گئے، لیکن صفائی کچھ بھی نہیں ہوئی۔ اس مسئلے پر حکومت سندھ نے رد عمل بھی ظاہرکیا ہے۔ 2017ء کے آخری مہینوں میں کراچی چیمبر آف کامرس نے ایک قرار داد پاس کی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت پاکستان جو سہولتیں چینی کمپنیوں کو دے رہی ہے وہی سہولتیں پاکستانی کمپنیوں کو بھی دی جائیں۔
ہم فلسطین کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں لیکن اسرائیل کے آقا، امریکا سے یہ التجا کرتے ہیں کہ ''ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے'' یعنی امریکی سامراج کے احکامات کی بجا آوری کے لیے سامراج مخالف ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خلاف پا کستان سے طالبان کو بھیجے گئے لاکھوں لوگ اور سپاہی سامراجی خد مات میں مارے گئے۔ انھیں وسائل کے حصول کے لیے پاکستان کے اندر حکمران طبقات کے مابین تضادات جاری ہیں۔
سی پیک کے ٹھیکے کس کو ملیں؟ سول حکو مت اپنے ٹھیکیداروں کو دینے کا مطالبہ کرتی ہے مگر اب تک زیادہ تر ٹھیکے فوجی فاؤنڈیشن اور این ایل سی کو ملے ہیں۔ پہلے تو ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دفاعی بجٹ پر خرچ ہوجاتا ہے۔ جو بچتا ہے وہ بھی کمیشن اور رشوت خوری کا شکار ہو تا ہے اور نا اہلیت کی یہ نوبت ہے کہ بجٹ بھی پیش ہوجاتا ہے مگر عوام کے کام نہیں آتا۔ مثال کے طور پر بلوچستان کے 78 ارب روپے کے بجٹ کا 52ارب روپے لیپس ہوا یعنی کہیں استعمال ہی نہیں ہو پایا۔ ہم اپنے بجٹ کا بیش تر حصہ غیر پیداواری مد میں خرچ کردیتے ہیں۔ اگر بجٹ کا بڑا حصہ بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے اورکارخانوں کا جال بچھانے پر لگا دیں تو ملک سے بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔