چند ناقابل فراموش فلمی لوریاں
اس لوری کو میڈم نور جہاں کی آواز کا حسن ملا تھا تو یہ لوری اور زیادہ حسین ہوگئی تھی۔
بچے غریبوں کے ہوں یا امیروں کے وہ محلوں میں پلے بڑھے ہوں یا چھوٹے گھروں اور جھونپڑیوں میں ، ان کی پرورش ہوئی ہو ان کے والدین انھیں میٹھی میٹھی لوریاں سنا کر ہی سلاتے رہے ہیں اور لوری کے یہ گیت ہر زبان ہر قوم میں صدیوں سے گائے جاتے رہے ہیں۔ پھر جب فلموں کا دور آیا تو فلموں کے ذریعے فلمی لوریوں نے بھی خوب رواج پایا اور سارے برصغیر میں یہ فلمی لوریاں مشہور ہوتی چلی گئیں۔
یہ 1951ء کی بات ہے جب ہندوستان اور پاکستان میں ایک فلم ''البیلا'' ریلیز ہوئی تھی اس فلم کی ایک لوری نے بڑی دھوم مچائی تھی اور غالباً شاعر راجندرکرشن کی بھی پہلی لکھی ہوئی لوری تھی جس کی موسیقی سی رام چندرا نے دی تھی اور اس لوری کوگلوکارہ لتا منگیشکر نے گایا تھا اور اس کی دلکش آواز میں ایک جادو سا تھا اس زمانے میں وہ لاکھوں بچوں کے ساتھ بڑوں کی بھی پسندیدہ لوری تھی اور گھر گھر گائی جاتی تھی۔ اس لوری کے چند بول بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے درج ہیں۔
دھیرے سے آجا ری اکھین میں نندیا' آ جا ری آ جا دھیرے سے آجا
لے کر سہانے سپنوں کی کلیاں' آ کے بسا دے پلکوں کی گلیاں
چپکے سے نینن کی بگین میں نندیا آ جا ری آ جا' دھیرے سے آ جا
اس دلکش لوری کے بعد پاکستان کی فلم ''نوکر'' کی ایک لوری نے بھی بے پناہ مقبولیت حاصل کی تھی جسے قتیل شفائی نے لکھا تھااور جس کی موسیقی جی اے چشتی نے دی تھی۔ یہ بھی کیا خوبصورت لوری تھی جس کے بول دل میں اترتے چلے جاتے تھے اس لوری کو کوثر پروین نے گایا تھا۔ 1955ء کی فلم تھی اور فلم ''نوکر'' نے اس لوری ہی کی وجہ سے گولڈن جوبلی کی تھی۔ یہ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم بھی تھی۔
راج دلارے توہے دل میں بساؤں' توہے گیت سناؤں
میری اکھیوں کے تارے میں تو واری واری جاؤں
سارے جہان پر پھیلی ہے چاندنی
ترے مکھڑے کے آگے میلی ہے چاندنی
چندا کو میں کیا جانوں تو میرا چاند ہے' راج دلا رے
لوری کے گیتوں کا تذکرہ چل نکلا ہے تو ایک اور لوری مجھے یاد آگئی ہے جو 1956ء میں نمایش پذیر ہوئی تھی۔ فلم تھی ''لخت جگر'' فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایت کار نعمان تھے اور اس لوری کے موسیقار بھی جی اے چشتی تھے۔ یہ لوری بھی لاجواب تھی۔ اس لوری کے کچھ بول بھی قارئین کی نذر ہیں۔
چندا کی نگری سے آجا ری نندیا' تاروں کی نگری سے آ جا
پریوں کی دنیا کے نغمے سنا کر' ننھے کو میرے سلا جا ' چندا کی نگری سے آجا
سویا ہے چندا سوئے ہیں تارے' خوابوں میں سوئے ہیں سارے
نغمے سناؤں تجھے پیارے پیارے' سو جا تو دل کے سہارے
آ پیاری نندیا گیتوں سے اپنے' ننھے کی دنیا بسا جا' آ جا ری نندیا آجا
اس لوری کو میڈم نور جہاں کی آواز کا حسن ملا تھا تو یہ لوری اور زیادہ حسین ہوگئی تھی۔ اس لوری کے شاعر ناظم پانی پتی تھے۔ جو لخت جگر سے پہلے بمبئی کی فلم انڈسٹری سے کافی طویل عرصے تک وابستہ رہے تھے اور بمبئی کی بے شمار فلموں کے لیے گیت لکھ چکے تھے۔ ناظم پانی پتی کو ایک کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے کہ ان کے لکھے ہوئے پنجابی فلم لچھی کے ایک گیت سے گلوکار محمد رفیع کو ابتدائی شہرت ملی تھی یہ گیت ایک ڈوئیٹ کی صورت میں تھا جسے لتا منگیشکر اور محمد رفیع نے گایا تھا۔ اور ہاں لخت جگر کی مشہور لوری کے بارے میں ایک خاص بات اور بتاتا چلوں کہ اس لوری کی زبردست مقبولیت کے بعد انڈین فلم انڈسٹری کے نامور موسیقار ناشاد نے فلم کے موسیقار جی اے چشتی کو باقاعدہ ایک خط لکھا تھا اور اس میں موسیقار جی اے چشتی کی دل کھول کر تعریف کی تھی۔
''فلم کبھی کبھی'' کی ایک لوری نے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی تھی۔ اس لوری کو نامور شاعر اور نغمہ نگار ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا۔ اور اس لوری میں ایک ایک لفظ ادب کی مٹھاس بھی رکھتا ہے اور دلوں پر دستک دیتا ہے۔ اور یہ لوری انڈیا کے لیجنڈ موسیقار خیام کی ذہنی کاوشوں کا نچوڑ تھی۔ جس کے بول تھے:
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
چاندنی کے حسین رتھ پہ سوار
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
اس کی باتوں میں شہد جیسی مٹھاس
اس کی سانسوں میں عطر کی مہکار
ہونٹ جیسے کہ بھیگے بھیگے گلاب
بال ایسے کہ دہکے دہکے انار
میرے گھر آئی ایک ننھی پری
یش چوپڑہ کی یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی یہ لوری وحیدہ رحمان پر فلمائی گئی تھی۔ننھی پری کا جب تذکرہ ہوا ہے تو اس تذکرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور خوبصورت لوری میرے ذہن میں آگئی ہے۔ جو فلم ''سجاتا'' کے لیے مشہور شاعر مجروح سلطان پوری نے لکھی تھی جس کی موسیقی لیجنڈ موسیقار ایس ڈی برمن نے دی تھی اور اس لوری کو گیتا دت نے گایا تھا۔ آواز موسیقی، شاعری تینوں کا حسن بے مثال تھا۔ اور بول تھے:
ننھی پری سونے چلی
ہوا دھیرے آنا
نیند بھرے پنکھ لیے جھولا جھلانا
چاند کے رنگ سی گڑیا
نازوں کی ہے پلی
چاندنی آج آنا میری گلی' ننھی پری سونے چلی
اس لوری کے ساتھ شاعر آنند بخشی کی لکھی ہوئی فلم ''مکتی'' کی خوبصورت لوری بھی قلم کی نوک پر آگئی ہے جس کے موسیقار آر ڈی برمن تھے اور اس لوری کو گلوکار مکیش نے اپنی آواز کے حسن سے سجایا تھا یہ بھی 1977ء کی فلم تھی اور اس کو بھی بڑی شہرت ملی تھی اس کے بول بھی قارئین کی نذر ہیں:
للا للا لوری
دودھ کی کٹوری
دودھ میں بتاشا
منی کرے تماشا
چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری
پریوں جیسی ہے
کسی کی نظر لگے نہ منی ایسی ہے
شہد سے بھی میٹھی' دودھ سے بھی گوری
للا للا لوری
یوں تو اور بھی بے شمار مقبول فلمی لوریاں ہیں مگر میں اب آخر میں حمایت علی شاعر کی مشہور فلم ''لوری'' کے لیے ریکارڈ کی گئی لوری کا تذکرہ کروں گا۔ اس لوری کو دو گلوکاراؤں نے گایا تھا۔ اور یہ لوری دو اداکاراؤں پر فلمائی گئی تھی۔ فلم ''لوری'' میں زیبا پر فلمائی گئی لوری کو ثریا حیدرآبادی نے گایا تھا۔ اور اداکارہ طلعت صدیقی پر فلمائی گئی لوری طلعت صدیقی ہی کی آواز میں ریکارڈ ہوئی تھی۔ فلم کے موسیقار خلیل احمد تھے۔ جنھوں نے گلوکارہ ثریا حیدرآبادی کو بطور خاص اس لوری کی ریکارڈنگ کے لیے لاہور بلایا تھا اور یہ فلم ''لوری'' کی ہائی لائٹ لوری تھی جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ جس کے بول تھے:
چندا کے ہنڈولے میں
اڑن کھٹولے میں
امی کا دلارا ابو جی کا پیارا سوئے
نندیا جھلائے تجھے جھولنا
دھیرے دھیرے نندیا تو اکھیوں میں آنا
میٹھے میٹھے پیارے پیارے سپنے دکھانا
پریوں کی نگری کی سیر کرانا
چندا کے ہنڈولے میں' اڑن کھٹولے میں
اس لوری کا تصور کرکے تو مجھے خود نیند سی آنے لگی ہے۔ نصف شب گزر چکی ہے اور بوجھل آنکھوں کے ساتھ اب اپنے قارئین سے اجازت چاہتا ہوں۔