کشمیر جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
کشمیر کے عوام بھارت کے ظلم و ستم اور بربریت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان انھیں اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے گا۔
مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر تقسیم سے شعلوں میں جل رہا ہے ، دنیا کو اب حرکت میں آنا ہوگا،کشمیر کا حل دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان امن کی کنجی بن سکتا ہے اسے پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔
بھارت طاقت کے بل بوتے پر کشمیر کو جلا رہا ہے۔ اس موقعے پر حریت رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک کا کہنا تھا کہ ہم کشمیری لاشوں پر مذاکرات نہیں کر سکتے یہ سب کشمیریوں کا فیصلہ ہے مذاکرات سے انکار نہیں مگر انسانی حقوق کا مسئلہ متاثرین کے ذریعے عالمی دنیا کے سامنے اٹھایا جائے۔
بھارتی فوج نے یکم اپریل 2018ء کو مقبوضہ کشمیر میںانسانیت سوز بربریت اور بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 20کشمیری نوجوانوں کو شہید اور ایک سو سے زائد کو زخمی کردیا تھا ۔ اس المناک سانحے پر پوری مقبوضہ وادی میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی اور مکمل ہڑتال کی گئی ۔
مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی بربریت روز اول سے تا حال جاری و ساری ہے اور عالمی برادری کی معنی خیزپالیسی بھی کل کی طرح آج بھی سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ کے پاس کردہ قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کی رائے شماری کے تحت حل ہونا ہے اور یہی اقوام متحدہ پاکستان اور بھارت سے کہتا رہتا ہے کہ وہ آپس میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کریں کیونکہ یہ پاکستان اور بھارت کا مسئلہ ہے ۔
ہے نا یہ عجیب بات ! سچ بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے کیونکہ ایشیا میں واقع جغرافیائی اعتبار سے کشمیر انتہائی اہم علاقہ ہے جنوبی اور مشرقی ایشیا سے اس کے تاریخی رابطے ہیں اور یہ کہ کشمیر ، پاکستان ، افغانستان ، چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے ۔ کشمیر کا رقبہ 222236مربع کلو میٹر 88900مربع میل ہے ۔ ایک تہائی شمالی حصہ پاکستان کے اور دوتہائی حصہ بھارت کے زیر تسلط کنٹرول میں ہے ۔
1947-48ء میں ہندو مہاراجہ ہری سنگھ کے من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی مجاہدین نے آزادی کی جنگ شروع کردی۔ 1949ء میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور قرارداد کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے کہا۔ بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور ریفرینڈم کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر اس پر عمل نہ کیا۔ 1965ء میں مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی جنگ ہوئی۔ سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی بھارتی کوشش کے نتیجے میں پاکستان و بھارت کے مابین جنگ ہوئی جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی۔ 1972ء میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پر امن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا۔
1989ء میں کشمیر میں نام نہاد الیکشن کے بعد کشمیری حریت پسندوں کی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔ 1996ء کے الیکشن کا کشمیریوں نے بائیکاٹ کیا۔ 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا۔ کارگل کے واقعے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ۔2000ء میں مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ 24جولائی 2000ء کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ 8اگست2000ء کو بھارتی رویہ کے باعث اعلان واپس لے لیا۔
علاوہ ازیں پاکستان اور بھارت کے مابین متعدد بار مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مذاکرات ہوچکے ہیں جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے سود ثابت ہوئے ۔بھارت نے ہمیشہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے جب کہ پاکستان آج بھی بین الاقوامی اصولوں پر قائم ہے اور مسئلہ کشمیر کو ہر مقام پر ، پر امن طریقے سے حل کرنے کا خواہ ہے لیکن بھارت ہر بار چالاکی و عیاری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے ایک طرف وہ امن کی باتیں کرتا رہا تو دوسری طرف وہ کشمیریوں پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کرتا رہا اور الزام پاکستان کو دیتا ہے کہ وہ حریت پسندوں کی مدد کررہا ہے جو سراسر 21ویں صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ، سچ تو یہ ہے کہ کشمیر کے عوام غاصب بھارت سے چھٹکارا چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور ان کے بہتے ہوئے خون کے اثرات ہیں کہ آج دنیا کی نظریں مسئلہ کشمیر پر مرکوز ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ کیونکر پیدا ہوا ؟ اس سوال کے جواب سے پوری عالمی برادری اچھی طرح واقفیت رکھتی ہے یعنی مسئلہ کشمیر اس کا بنیادی سبب ہے اور اس امرکا بھی انھیں اعتراف ہے کہ ایٹمی دھماکے کی ذمے داری پاکستان پر عائد نہیں کی جاسکتی کیونکہ بھارت کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کے طور پر ایٹمی دھماکے کیا تھا۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ بھارت ایک طرف امن کی بات کرتا ہے تو دوسری طرف ایٹمی ہتھیاروں کے انبار لگانے میں مصروف ہے اور ایک سوگنا دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا ہوا ہے اور کشمیریوں کو شہید کرنا ، کشمیری خواتین کی عزتوں کو پامال کرنا، انھیں زیر حراست شہیدکرنا ، ان کی املاک کو نقصان پہنچانا،کشمیری نوجوانوں کو اغواء کرکے غائب کرنا ، جیسے حالات و واقعات میں مصروف بھارت کس منہ سے امن و آشتی کی بات کرتا ہے ؟سچ تو یہ ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا کا دادا گیر بننا چاہتا ہے جسے ابھرتا ہوا دہشت گرد کہا جائے تو بجا ہوگا ۔
پاکستان ایک پر امن ملک ہے لیکن اس امن پسندی کوکمزوری و بزدلی نہ تصور کیا جائے ۔کشمیر کے عوام بھارت کے ظلم و ستم اور بربریت سے نجات چاہتے ہیں اور پاکستان انھیں اخلاقی مدد فراہم کرتا رہے گا، لہٰذا عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت پر بھی دباؤ بڑھا کرکشمیریوں کی اخلاقی مدد کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان و بھارت تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ۔
عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی جانب سے برسوں سے جاری مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی ، پاکستان کے اندر بھارتی پراکسی وار ختم کرنے ، بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی روکنے و احترام کرنے ،لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی روکنے، بھارتی جیلوں میں قید کشمیری حریت پسندوں کی رہائی اور انھیں تحفظ فراہم کرنے پر زور دینا چاہیے۔
اس امر پر بھی زور دینا چاہیے کہ اگربھارت نے پاکستان پر کسی قسم کی جنگ ایٹمی و روایتی مسلط کی تو پاکستان اپنا دفاع کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے ۔ واضح رہے کہ جبتک مسئلہ کشمیر حل طلب رہے گا ، جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ایک خواب ہی رہے گا ۔