مضبوط ارادے
احتساب کا دائرہ کار سب کے لیے اور سزا کا دائرہ کار بھی سب کے لیے یکساں ہو۔
لاہور:
ہر شخص اپنے دماغ سے سوچتا ہے، اپنی عقل سے فیصلے کرتا ہے، مگر اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہتے ہیں کہ ایک اکیلا اور دو گیارہ۔ اجتماعی ماحول اور اجتماعی زندگیاں نہ صرف ہمیں مشکل ماحول سے بچاتی ہیں بلکہ ہمیں ایک دوسرے کا دوست بھی بناتی ہیں چاہے ہم آپس میں رشتے دار ہوں نہ ہوں چاہے خون کے رشتے ہوں یا نہ ہوں۔
سادہ سی زندگی بے جا الجھنوں میں گرفتار ہوکر ایک ایسا تماشا بن گئی ہے کہ جس کو پوری دنیا دیکھ سکتی ہے۔ جدید سائنس، جدید ضروریات نے ہم انسانوں کو ایسے فریب کے جال میں الجھ دیا ہے کہ صرف طاقت اور طاقت کا کھیل نظر آتی ہے زندگی۔
بے حسی، لاپرواہی، کم علمی، دکھاؤے کا شوق ہمیں جہالت کی بلندیوں پر لے جا رہا ہے اور ہم بے خبری میں زندہ ہیں، مگر یہ بے خبری کب تک؟ پاکستان بننے کی جدوجہد سے لے کر اب تک اور نہ جانے کب ، ہم سازشوں کی نظر ہوتے رہیں گے۔
اپنی آنے والی نسلوں کوکیا ہم بربادی، جہالت کے سمندروں کے سپرد کریں گے کیا ہم نے اتنی تباہی کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا، بڑے بڑے کرپشن کیسز بے نقاب ہوئے، بڑی دھوم دھام سے اسٹوریز چلیں، چینلز نے بال کی کھال نکالی، کروڑوں اربوں کے کرپشن سننے والوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے اور پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے بات آئی گئی ہوگئی کہانیاں دھندلی پڑ گئیں، بندے ملک چھوڑ کر عزت سے دوسرے ممالک چلے گئے اور پیچھے اپنی مثالیں آنے والوں کے لیے چھوڑ گئے۔ اور ایک کیس ہے کہ جو چلے جا رہا ہے عام شہری وہی دکھائی دیے جا رہا ہے کہ نہ کوئی تعلیمی نظام نہ کوئی صحت نہ پینے کا صاف پانی اور نہ لینے کو صاف ہوا ۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کہتے ہیں کہ عوام کو پتا ہونا چاہیے کہ ان کے حقوق کیا ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ عوام جان جائیں اپنے حقوق مگر ان کے حقوق دینے والے ہی ظالم بن جائیں توکیا کریں؟ جی ہاں عوام متحد ہوجائیں آواز اٹھائیں، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا احتجاج کریں، ظالموں کو اٹھا کر پھینک دیں۔
احتساب کا دائرہ کار سب کے لیے اور سزا کا دائرہ کار بھی سب کے لیے یکساں ہو ۔ جب وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی امریکی ایئرپورٹ پر تلاشی دے سکتے ہیں اور اس عمل کو قانون کی پاسداری کہتے ہیں تو اپنے ملک کے قانون کو کیوں نہیں پوری طرح سب کے لیے یکساں نافذ کرتے ہیں اور سب کو اس کی پاسداری کرنے کے لیے پابند کرتے ہیں، ہم سب کو ایک پاکستان کے لیے متحد ہونا ہے نہ کہ اپنے اپنے پاکستان بنانے کا سوچیں۔
اندرون سندھ کے کسان ہوں یا صحرا تھر کی آبادی، کیا زندگی پر ان کا اتنا بھی حق نہیں جتنا کہ کراچی میں یا اسلام آباد میں رہنے والوں کا ہے، کیا تعلیم کا حصول اور تعلیم کا معیار جگہ جگہ الگ ہوگا تو انسانیت یکساں کیسے ہوگی۔ سیاست کے ایوانوں میں جو سازشوں کے جال بنے گئے جو قومی خزانے کو لوٹنے کے لیے چالیں چلی گئیں وہ اب زبان زدعام ہیں زنگ آلود خنجر سے عوام کو قتل کیا جا رہا ہے۔ انھی کے ٹیکس اور انھی کی دولت کو اتنا بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے جیسے کہ یہ عوام نہیں چوپائے ہیں نہ آنکھیں رکھتے ہیں اور نہ شعور و عقل۔
ہمارے ملک کی سیاست نے توگویا سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ گویا قول و فعل اور کردار اس کی کوئی ویلیو ہی نہیں رہی۔ جو دل چاہے کہے جاؤ،کہے جاؤ اب بندہ کس کس جملے کو پکڑے، کس کس لفظ پہ روئے۔
عوام کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ گندگی، غلاظت، مہنگائی کے پہاڑ، بدمعاشیاں، قتل و غارت سب کچھ برداشت کیے جا رہے ہیں اور یہی سب سے بڑی کمبختی ہے کہ عوام بے حس ہوجائیں۔ زندگی اگر کچرے کی طرح کہیں پڑے رہنے کا نام ہے تو کیا حاصل؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان و فرشتے ہمارے ارد گرد ہمیشہ ہیں بس جب سمجھ و بوجھ ہی ختم ہوجائے پہچاننے کی صلاحیت ہی دم توڑ جائے تو کیا کیا جائے۔
ہر شعبے کو چابی کا گڈا بنا دیا جائے گا تو انصاف کہاں سے آئے گا معاملات کو روپے پیسے کے پہیے لگا دیجیے اور پھر تماشا دیکھے بے گناہ، کرپٹ ترین بن جائے گا، گونگے نے اتنی زبان درازی کی ہوگی کہ اس کی زبان کاٹنی پڑ گئی، بہرے نے وہ وہ باتیں سنی ہوں گی کہ اللہ سے توبہ ہی بھلی۔
ایسا نہیں ہے کہ اس ملک میں نایاب ہیرے موجود نہیں، بلکہ یہ تو وہ ملک ہے کہ یہاں کی مٹی بھی سونا ہے، بلوچستان جیسے صوبے میں سونے اور ہیرے و جواہرات کی کانیں موجود سوئی گیس جیسی نعمت موجود، خوبصورتی سے مالا مال یہ صوبہ آج تک محرومی کا شکار ہے۔
اتنا عالی شان یہ ملک اور اتنے ہی محنتی لوگ، ایک اچھی مخلص، زبردست قیادت اس ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کو اس ملک کی سیاست کھا گئی ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے، بھٹو نے جو کہا وہ کر دکھایا اتنے کرپٹ لوگوں کی موجودگی میں بھی آج بھی یہ ملک ایک ایٹمی طاقت ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں مگر خدا کے واسطے اس ملک کو روشن اور تابندہ کیجیے کھنڈر نہ بنائیں۔
مختلف نعروں کے ساتھ مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی پارٹیوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جیسے ہی اقتدار تک پہنچیں لوٹ کھسوٹ کا بازار ایسا لگایا کہ توبہ!بے تحاشا قربانیوں کے باوجود عوام بے چارے ویسے کے ویسے ہی کمزور اور بنیادی ضروریات سے خالی، مگر یہ سیاست کرنے والے نہ صرف اس ملک میں خوشحال بلکہ بیرون ملک میں بھی جائیدادوں کے مالک۔
افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ جھوٹ پر جھوٹ ایسے بولتے ہیں کہ بے چارے ان پڑھ عوام ان کو اپنا سچا مسیحا سمجھتی ہے اور یہ پھر انھی عوام پر حد درجہ ٹیکس لگا کر ان کا جینا دشوار کرتے ہیں۔ سالوں سال سے یہ لوگ عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں کہ مرنا تو ایک دن ان کو بھی ہے۔
اب یہ وقت ہے کہ ہر شہری اپنی ذمے داری کو سمجھے، بیرونی اور اندرونی سازشوں کو پہچانے اور ان لوگوں کو بھی پہچانیں جو ان کو فریب دیتے رہے ہیں جو ان کے خون پسینے کی محنت کو اپنی عیاشیوں کی نظر کر رہے ہیں۔ عورت، مرد، بچے، بوڑھے دن و رات زمینوں پر فصلیں اگاتے ہیں اور یہ لوگ ان کا جائز حق تک نہیں دیتے۔ بے جا ٹیکسز نے جینا حرام کیا ہوا ہے چوری چکاری، لوٹ مار کو یہ لوگ اپنی سیاست کو چمکانے کے لیے ہوا دیتے ہیں اگر قانون کا نفاذ ان پر ہو تو ظلم اور یہ چاہیں تو بے قصور کو موت کے گھاٹ اتار دیں۔
اللہ پاک کی عالی شان نعمتوں سے مالا مال یہ ملک ایسی قیادت کا منتظر ہے جسکے خون میں یہ ملک رچا بسا ہو۔ جو اس ملک کی بلندیوں کے خواب دیکھے، جو اس کے خزانے کو مالا مال کردے، جہاں تعلیم کی شمع ہمیشہ روشن رہے۔ جہاں صاف پانی اور صاف ہوا میسر ہو، بے روزگاری کا خاتمہ ہو، نوجوان صحیح سمت میں آگے بڑھیں، بے انتہا خوبصورت قدرتی نظاروں سے مالا مال یہ ملک پوری دنیا کے سیاحوں کے لیے بہت کشش رکھتا ہے بس ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم اپنی ڈائریکشن صحیح سمت میں کرلیں اور صحیح نیت اور مضبوط ارادوں کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں۔