نونی میں نقص نہیں ہو سکتا
نونی کے ماں باپ جلد باز تو نہ تھے مگر اپنی عمر کی ایسی منزل پر تھے کہ انھیں اپنی زندگی سے زیادہ امید نہ تھی۔
جانے کیسے عبدالغنی ... نونی بن گیا، تاریخ کھنگالنے پر علم ہوا کہ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہی نہیں بلکہ ان کے بڑھاپے کی اولاد تھا۔ وہ وقت جب ماں باپ بڑھاپے کی سرحد کو چھوتے ہیں اور اپنی جوان اولاد کے حوالے سے خواب دیکھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ اولاد اب ان کا بوجھ اٹھا لے گی۔
اس وقت عبد الغنی کے باپ اور اس کی تقریباً اس سے دس سال چھوٹی بیوی کے ہاں غیر متوقع طور پر اس بچے کی آمد کی نوید ہوئی اور اس کی پیدائش کے بعد اس کا نام عبدالغنی رکھا گیا، وہ اس غنی کا بندہ تھا جو دینے پر آئے تو دنیا کا کوئی غنی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ماں باپ اس عمر میں اس منے سے بچے کو پالنے میں مصروف ہو گئے۔
عبدالغنی کا نام اس کی ماں کو لاڈ پیار کے لیے لمبا لگا تو اس نے اسے غنی کہا... اس کے شوہر نے اسے فورا ٹوکا کہ اللہ تعالی کے ناموں کو یوں پکارنا ٹھیک نہیں ، تب ماںکو نونی نام سوجھ گیا اور اس کے سارے لاڈ پیار کا مرکز نونی بن گیا۔ نونی ایک صحت مند، گول مٹول اور پیارا سا بچہ تھا، اتنا صحت مند کہ ماں اور باپ دونوں زیادہ دیر تک اس کا بوجھ نہ سہار پاتے تھے۔
نونی کی مسیں بھیگی ہی تھیں کہ ماں باپ کو اس کی شادی کا شوق چرایا۔ نہ وہ پڑھا لکھا تھا، نہ اس کے پاس کوئی ہنر تھا مگر اس کے والدین کا پیار ہی اس کی شادی کے لیے سب سے پہلی قابلیت تھی۔ سو کئی وچولنوں کے دامن بھرنے کے بعد تلاش اختتام کو پہنچی اور ایک پیاری سی لڑکی دیکھ کر نونی کا بیاہ کر دیا گیا۔
اس کی دلہن کا خوب رو ہونا ہی اس کی قابلیت تھی کہ ہر ماں اپنے بیٹے کی دلہن کی صورت میں گھر میں چاند اترتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔ پورا ایک ماہ گزر گیا اور نونی کی ماںکو دلہن یونہی ہنستی کھلکھلاتی نظر آئی، اس کی طبیعت خراب ہوئی نہ وہ سست دکھائی دی توساس نے بہو سے سوال جواب شروع کر دیے۔ پھر تو ہر ماہ دلہن سے ایک طویل سوالات کا سلسلہ چلتا رہا اور ہر بار جواب میں ماں کو مایوسی ملتی۔
چھ ماہ، ایک سال اور پھر ایک اور سال... بس کافی ہو گیا تھا، خالی خولی آوارہ گردی کرتے ہوئے نونی کے لیے ایک اور لڑکی کی تلاش شروع کر دی گئی۔ وہ والدین جنھیں نونی کے لیے اپنی شادی شدہ زندگی کے پچیس سال انتظار کے بعد نونی ملا تھا وہ نونی کی اولاد کے لیے اسی طرح انتظار نہیں کر سکتے تھے۔
اس کی بیوی سر پیٹتی رہ گئی، ناراض ہو کر میکے بھی گئی مگر ماں باپ ہاتھ سے پکڑ کر واپس چھوڑ گئے کہ اسے نونی کی بیوی بنا کر بھیجا تھا، اسی حیثیت میں اسے زندگی گزارنا ہوگی۔ مرتی کیا نہ کرتی کے مصداق، واپس لوٹی اور اپنے ہاتھوں سے نونی کی دلہن سجا کر بیاہ کر لائی۔ دیکھنے والوں نے اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں ۔ وہ بیچاری ابھی خود بھی بمشکل بیس برس کی بھی نہ تھی، ایک اور کم سن بچی کو نونی کی بیوی اور اپنی سوتن بنا کر لے آئی۔
دونوں کے مابین کوئی رشتہ قائم نہ ہوا ، نہ حسد کا نہ دوستی کا۔ وہ گھر میں ایک فالتو سامان کی حیثیت سے پڑی رہ گئی، یونہی جیسے ہم کبھی کبھار فالتو سامان کی جگہ تبدیل کر دیتے ہیں، اس پر سے گرد جھاڑ دیتے ہیں یا اس پر کوئی کڑھائی والا کپڑا بچھا دیتے ہیں۔
عورت تھی، حسد دل میں ضرور آتا ہو گا مگر اسے معلوم تھا کہ اس کی میکے میں بھی اس نکتے پر شنوائی نہ تھی، وہ بھی اب اپنی ساس کے ساتھ ان منتظر کانوں اور آنکھوں کا حصہ بن گئی جو تصور میں اپنے بچے کی کلکاریاں سنتے اور گود میں ایک بچے کو اٹھانے کا منظر دیکھتے تھے۔ نئی بہو بھی چار ماہ گزر جانے کے باوجود کوئی خبر نہ دے سکی تو نونی کی ماں کو تشویش پیدا ہوئی کہ ایک بار پھر غلط انتخاب ہو گیا تھا، نئی بہو بھی نونی کو اولاد دینے کی اہل نہ تھی۔
دونوں بہوؤں کا شادی سے پہلے تو علم نہ تھا کہ وہ نقص رکھتی ہیں، کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی لڑکی اولاد پیدا کرے گی یا کہ نہیں۔ ایسا کوئی نظام ہو ہی نہیں سکتا، آج تک بھی نہیں ہوا۔ وہ گوہر تو شادی کے بعد ہی کھلنا ہوتا ہے، ماسوائے اس کے کہ کوئی عورت پہلے سے شادی شدہ اور اولاد رکھتی ہو، مگر نونی کی ماں کو تو نئی نکور لڑکیاں چاہیے تھیں، وہ جو جوانی کی عمر کو پکڑتے ہی اولاد بھی پیدا کریں اور تکڑے گھوڑے کی طرح ساس سسرکی دیکھ ریکھ سمیت پورے گھر کا نظام بھی چلائیں۔
ایک سال تک انتظار کر کے پہلے دونوں بہوئیں ، فالتو سامان ہو گئیں اور نونی کو ایک اور کھلونا دل بہلانے کو مل گیا۔ دوسری بیوی کے میکے والوں کی سوچ بھی پہلی بیوی کے میکے والوں سے مختلف نہ تھی۔ اس زمانے میں سبھی والدین اپنی بیٹیوں کو اسی طرح وداع کرتے تھے، جہاں ڈولی جاتی تھی وہیں سے جنازہ نکلنا ہوتا تھا۔
تیسری شادی کو دو ماہ گزرے تو نونی کی ماں نے مزید کا انتظار نہ کیا، اب اس گھرمیں دایہ کے پھیرے بڑھنے لگے اور دایہ کی نگاہ خاص کا مرکز کوئی ایک نہیں بلکہ تینوں بہوئیں بن گئیں۔ اب جواء یہ تھا کہ کوئی بھی پتا، ترپ کا پتا بن جائے۔ حکیم، دعائیں، وظیفے، دربار، پیر، ٹونے ، ٹوٹکے ، خوراکیں... ہر چیز پر توجہ دی جانے لگی، کسی ایک کے لیے نہیں بلکہ تینوں بہوؤں کو اب نونی کی ماں نے اس قابل سمجھ لیا تھا کہ ان میں سے کوئی ایک انھیں گوہر مراد حاصل کر کے دے گی۔ اب سب لوگ دیکھ رہے تھے اور قیافے لگا رہے تھے کہ وہ گوہر مراد کس کی جھولی سے برآمد ہوتا ہے!!
نونی کے ماں باپ جلد باز تو نہ تھے مگر اپنی عمر کی ایسی منزل پر تھے کہ انھیں اپنی زندگی سے زیادہ امید نہ تھی اور انھیں اپنی زندگی میں اپنے نونی کی اولاد دیکھنا تھی، جیسے بھی ہو، جس سے بھی ہو۔ تبھی کسی سیانے نے نونی کے والدین سے کہا کہ وہ نونی کی شادیوں پر شادیاں کر کے دیکھ چکے ہیں، ممکن ہے کہ نونی کی تینوں بیویاں یا کوئی ایک یا کوئی دو بیویاں ٹھیک ہوں اور نونی ہی ناقص ہو... یہ بات تو نونی کے والدین کو ہتھوڑے کی چوٹ کی طرح لگی، '' آپ نونی سے کہیں کہ اپنی تینوں بیویوں کو اپنے ساتھ شہرلے جائے، وہاں ٹیسٹ کروانے کی سہولت موجود ہے، علم ہو جائے گا کہ کون سی بیوی اہل ہے اور کون سی نہیں!! '' بات اس کے والدین کے دل کو لگی ، نونی اور اس کی ماں کو تینوں بیویوں سمیت شہر بھجوا دیا گیا۔
شہر کی سب سے بڑی ڈاکٹرنی نے سب سے پہلے نونی کو ٹیسٹ کروانے کو کہا، نونی نے ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ '' ممکن ہے کہ نونی ہی اولاد پیدا کرنے کا اہل نہ ہو!! '' ڈاکٹرنی نے کہا تو نونی کی ماں کے سینے پر گھونسا پڑا۔
'' کم بخت ڈاکٹرنی کو خاک علم ہے، میرا نونی لاکھوں میں ایک، منتوں مرادوں سے مانگا ہوا اور ناز و نعم میں پالا ہوا، وہ کیوں ناقص ہو گا!! '' وہ معصوم ماں اس بات کو تسلیم ہی نہ کر پا رہی تھی کہ اس کا نونی بھی ناقص ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹرنی کی بات ماننے سے نونی کو صاف منع کر دیا اور اس سے کہا کہ کوئی اور ڈاکٹرنی دیکھے، مگر شومئی قسمت کہ جس ڈاکٹرنی کے پاس جاتے وہ وہی مطالبہ کرتی اور ماں یہی جواب دیتی کہ اس کا نونی ناقص نہیں ہو سکتا۔
جس سیانے نے مشورہ دیا تھا اس نے اس مشورے کو نالی میں ضایع ہوتے ہوئے دیکھا تو ایک اور تجویز دی، (اسے معلوم تھا کہ نونی کا نقص ثابت ہو جانا اس کے والدین کے لیے بہت تکلیف دہ امر ہو گا اور وہ ہر وہ جتن کریں گے کہ نونی کی انا پر چوٹ نہ پڑے) اس نے کہا کہ نونی کسی ایک بیوی کو طلاق دے دے اور وہ کسی اور سے نکاح کر لے، اگر اس کی دوسرے شوہر سے اولاد ہو گئی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ تب تک نونی کے والدین کو کچھ کچھ سمجھ آ گئی تھی اور وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہی تو ہونے نہیں دینا چاہتے تھے۔
انھوں نے خوب واویلا مچایا کہ نونی کی بیویاں نونی کی عزت ہیں، انھیں طلاق دینا، انھیں چھوڑنا اور کسی اور کا ہوتے ہوئے دیکھنا، نونی کی انا پر کاری ضرب لگائے گا، اس کی غیرت اس بات کو برداشت نہیں کرے گی اورممکن ہے کہ وہ غیرت میں آکر کچھ ایسا کر بیٹھے کہ بہت سوں کا نقصان ہو جائے۔
مشورہ دینے والا خاموش ہو گیا، اسے پتھروں سے سر پھوڑنے کا کوئی شوق نہ تھا... نونی کے والدین اس کے لیے چوتھی لڑکی دیکھ رہے ہیں، ممکن ہے کہ اس سے اولاد ہو جائے اور وہ دنیا پر ثابت کر سکیں کہ نونی ناقص نہیں ہے!!!
(نوٹ: براہ کرم اس سادہ سے کالم کو ملک کی سیاسی صورتحال سے خواہ مخواہ مماثل ثابت کرنے کی کوشش نہ کی جائے)