لوڈشیڈنگ کی ماری قوم
ہمارا ملک انرجی یا توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ ہم برسات میں سیلابوں کی تباہ کاریوں سے پریشان ہوتے ہیں
کہنے کو ہمارے بیشتر مصائب کا حل ریاست کی مٹھی میں قید ہے، تو کیا موجودہ وسائل میں رہ کر عوام کی فلاح و بہبود ممکن ہے؟ ایک ایسا معاشرہ جو کرپشن سے پاک آسودہ حال عوام کی خوابوں کی جنت ہو بالکل ممکن ہے مگر اس کے لیے جوش خطابت سے زیادہ صاحب کردار، قابل عمل، محنتی لیڈرز اور ان کے نو رتنوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو بقول شاعر
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے
گرمی نے اپنی بہار ابھی ٹھیک سے دکھائی نہیں ہے کہ عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بلببلا اٹھے ہیں۔ کہاں وہ بلند بانگ دعوے کہ 2018ء میں لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ اب مارچ سے ہی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گرمیوں کی بھری دوپہروں میں پنکھوں کی ہوا میں رہنے کے سنہرے سپنے عوام کے آنسو اور پسینوں میں بہہ گئے۔ کیا کریں کہ بحیثیت پاکستانی ادارے ہم کوئی کام ٹھیک وقت پر نہیں کرتے، اگر کسی مقررہ وقت پروجیکٹ کی تکمیل نہ ہوسکی، سڑک کوئی پل مکمل نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں، ابھی افتتاح میں کئی دن باقی ہیں، ہوجائے گا۔
جب دو دن رہ گئے، اخباروں میں وزیر صاحب کے تاریخ افتتاح کی خبر لگ گئی تو ہنگامی بنیادوں پر کام شروع ہوگیا، مہینوں کا کام دن رات لگا کر ختم کیا جاتا ہے۔ ہم ایک ایمرجنسی پسند قوم ہیں۔ نفسیاتی طور پر ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جو آج کا کام کل پر ٹالنے کو اپنا ایمان سمجھ چکا ہے، جب بحران اور خطرہ سر پر پہنچتا ہے تب ہی ہم اسے حل کرنے کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر قوموں چینیوں، امریکیوں اور جاپانیوں نے اپنے بحرانوں کا اندازہ بہت پہلے لگا لیا، انھوں نے بے پناہ محنت کی، اپنی ذات سے بالاتر ہوکر قوم کے مسائل کو اپنے ملک سے دور دھکیل دیا۔ ہم تو قدرت کے بنائے ہوئے ایک چھوٹے سے پرندے ''بیا'' سے بھی گئے گزرے ہیں، وہ بھی اپنے گھونسلے کو روشن رکھنے کے لیے ایک جگنو کو گھر میں قید رکھتا ہے۔
ہمارا ملک انرجی یا توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ ہم برسات میں سیلابوں کی تباہ کاریوں سے پریشان ہوتے ہیں، پھر الزام دریاؤں میں پانی کی قلت کو دیتے ہیں کہ ڈیموں میں پانی کی مطلوبہ سطح نہیں ہے، حالانکہ یہ چیز تو ہمیں بہت پہلے سمجھنا تھی، اس کا متبادل نظام رکھنا چاہیے تھا۔ آج اپنی ہی نااہلی کی وجہ سے ہمارے گھروں میں اندھیروں کا بسیرا ہے۔ ہماری نسلوں کا مستقبل بھی تاریکیوں میں ڈوب گیا ہے۔ بجلی جس کے ساتھ ہم سب معاشی زندگی کا تار جڑا ہوا ہے۔
آج صنعتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں، ملک بھر میں آٹھ سے پندرہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے سماجی، کاروباری اور گھریلو زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان کے صنعت کاروں، دکانداروں، اسپتالوں اور تاجروں کے مالی خساروں نے انھیں ذہنی انتشار میں مبتلا کردیا ہے، قوم سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے، عوام غیظ وغضب کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، روڈ بلاک کیے ہوئے، ٹائر جلائے ہوئے یہ عوام سخت گرمی میں لوڈشیڈنگ پر سراپا فریاد ہیں۔
کسی کی شکایت ہے کہ دو دن سے لائٹ نہیں، تو کوئی نوحہ کناں ہے کہ بجلی نہ ہونے سے پمپنگ اسٹشن بند ہے، جس کی وجہ سے پانی کی سپلائی بھی منقطع ہے۔ یہ کروڑوں عوام جو آج بجلی کی بندش سے بلبلا اٹھے ہیں، اس پر ظلم یہ کہ بل ہے کہ ہزاروں سے کم کا نہیں آتا۔ حکومت نے بھی عوام کے ساتھ مرے کو سو درے اور مارو کے مصداق بجلی سے سبسڈی واپس لے لی، لیکن آئے دن بجلی مہنگی سے مہنگی کرنے کی خبر عوام پر بجلی بن کر گرتی ہے، بل پر ٹیکس، میٹر ٹیکس اور بینک سرچارج پہلے ہی بل کے ساتھ لگ کر آجاتے ہیں۔
یہ تو شہری زندگی کی تصویر ہے، دوسری طرف دیہی زندگی کی طرف نگاہ دوڑایے تو گندم کی فصل پر پانی دینے کے لیے انھیں بجلی کی ضرورت ہے۔ ہندوستان میں کسانوں کو مفت بجلی فراہم کرکے سوا ارب لوگوں کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے، تو مفت نہ سہی کم ازکم ٹیوب ویل چلانے کے لیے تو بجلی فراہم کردیجیے۔ ہماری حکومتوں کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی ہے، جس کے باعث ہم گزشتہ کئی دہائیوں میں ایک بھی ڈیم نہ بناسکے اور اس دوران لاکھوں گیلن قیمتی پانی سمندر میں ضایع کرچکے ہیں، لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر کر چکے ہیں۔ تربیلا ڈیم کے بعد ہم نے کوئی بڑا ڈیم نہ بنایا، بس زبانی جمع خرچ کرتے رہے۔ کالا باغ ڈیم ہماری سیاست کی نذر ہوگیا، اگر یہ ڈیم تعمیر کرلیے جاتے تو سرمایہ بھی کم خرچ ہوتا اور توانائی کا بحران بھی نہ ہوتا اور ہم اربوں روپے کا زرمبادلہ بھی بچا سکتے تھے۔ ڈیموں کے ذریعے جو بجلی حاصل کی جاتی اس سے قدرتی گیس اور تیل کی بچت الگ ہوتی، جسے ہم کسی اور کام میں لاسکتے تھے، اس کے علاوہ سیلابوں سے جانی اور مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔
پاکستان توانائی کے وسائل سے مالا مال ہے، مگر اس کے استعمال کے لیے صحیح منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں، کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے کی طرف صحیح معنوں میں توجہ نہیں دی گئی۔ ہمارے ہاں دنیا کے اعلیٰ معیار کے کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، اس سے استفادہ کیا جائے تو ہم اپنی ضروریات کو کافی حد تک اس سے بھی پورا کرسکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کو سورج اور ہوا کی اتنی دولت سے نوازا ہے کہ شاید ہی کسی ملک کے پاس اتنی دولت ہو۔
ہم پورا سال سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں، ہماری سات کلومیٹر ساحلی پٹی پر چوبیس گھنٹے تیز ہوائیں چلتی ہیں، اگر ہم اس پٹی پر ہوائی چکی لگائیں تو اس بجلی سے پورا شہر روشن کرسکتے ہیں۔ مگر یہاں بھی ہماری روایتی سستی اور کاہلی کا دخل ہے کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے، مگر محنت کے لیے وقت نہیں۔ مہذب قومیں مستقبل پر نظر رکھتی ہیں اور جامع منصوبہ بندی کرتی ہیں۔
انھوں نے اپنے بحرانوں سے نمٹنے کے بعد آیندہ کا لائحہ عمل بھی تیارکرلیا ہے، وہ توانائی کے متبادل ذرایع پر بھی کام کر رہے ہیں۔ کل جب دنیا میں تیل و گیس کے ذرایع ختم ہوجائیں گے اور ڈیموں کے لیے پانی باقی نہ رہے گا تو اس وقت اس کا متبادل روشنی اور ہوائیں ہوں گی، جو کبھی ختم نہ ہوں گی۔ اب وہ اس طرف تجربات میں مگن ہیں۔ ادھر ہم دیر آید درست آید کی ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کے عادی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی طے کریں۔ بے شک ہمارے بیشتر مصائب کا حل ریاست کی مٹھی میں قید ہے۔