وہ آٹھ سال سے اپنے گم شدہ باپ کو تلاش کر رہا ہے

افلاس کے صدموں کے ساتھ اپنے پیارے کی جُدائی سے نڈھال خاندان کا کفیل محمد سلیم اپنی بپتا سناتا ہے


Abdul Latif Abu Shamil April 14, 2013
افلاس کے صدموں کے ساتھ اپنے پیارے کی جُدائی سے نڈھال خاندان کا کفیل محمد سلیم اپنی بپتا سناتا ہے۔ فوٹو: فائل

زندگی بھی کیسا اسرار رکھتی ہے، کتنے رنگ ہیں اس کے، ہاں جیون بہت بھید بھرا ہے۔

ایک عجب کہانی، دکھ سکھ، مایوسی اور امید کے درمیان پگڈنڈی، ڈوبتے ابھرتے رنگ۔ جیون کی گیلری میں آویزاں فریمز میں سجی ہوئی قسم ہا قسم کی تصویریں، مسکراتی ہوئی، رجائیت سے بھری ہوئی اور مایوسیوں، دکھوں کی بپتا بیان کرتی ہوئی۔ زندگی بھی ایک گیلری ہے۔ نہ جانے کتنے رنگ ہیں، نرالے ڈھنگ ہیں۔ کیسے کیسے روگ ہیں اس میں، سوگ ہیں اس میں۔

میں تو شفیق صاحب سے ملنے گیا تھا اور وہ مجھے وہیں ان کی دکان میں نظر آیا۔ اس کے چہرے پر اس کا دکھ لکھا ہوا ہے۔ 40 سال سے اوپر کا لگتا ہے وہ، اور ہے بس 29 سال کا ۔ اس کی ویران آنکھیں اس کا دکھ بیان کرتی ہیں۔ بہت اصرار کر نے پر وہ آمادہ ہوا اور پھر برسا۔ بہت ہی بکھرا اور مشکل سے سنبھلا۔ بس یہی ہے زندگی، کیا ہے زندگی۔ نہ جانے مجھے کیوں یاد آیا۔

اک طرف وحشت دل، ایک طرف غازۂ غم

کس کو ہے شہر رنگ و ناز میں اندازۂ غم

اس نے قوسین بنائے مرے دائیں بائیں

عمر بھر تاکہ نہ بکھرے مرا شیرازۂ غم

میں رخصت ہوا، آپ محمد سلیم کی بپتا سنیے۔

میں 1985میں کراچی کے علاقے کھوکھراپار میں پیدا ہوا۔ سات بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہوں، ہم چار بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ میرے والد صاحب کا نام عبدالحکیم ہے، وہ ٹیکسٹائل مل میں وارپنگ یعنی دھاگے کو کون پر لپیٹنے کا کام کرتے تھے۔ مزدور کی زندگی سدا سے اجیرن رہی ہے۔ بس ایسی ہی تھی ہماری زندگی، لیکن مطمئن اور سادہ۔ آسودگی نعمت ہے لیکن اطمینان تو بڑی نعمت ہے ناں۔ تو بس ہماری زندگی ایسی ہی تھی۔ کھانے کو ملا تو اﷲ کا شکر ادا کیا، نہیں ملا تو شکوہ نہیں کیا۔ یہی سکھایا ہمارے ماں باپ نے ہمیں۔ محنت کرو، حق حلال کی کھاؤ، لالچ نہ کرو، رشک نہ کرو، زندگی کا اصل یہی ہے۔

میں نے ہوش سنبھالا تو عسرت ہی دیکھی، لیکن مجھے اسکول میں داخل کرایا گیا۔ جیسے تیسے میں نے آٹھویں پاس کی، پھر گھر کے حالات مزید خراب ہونے لگے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اپنے والد کا ہاتھ بٹاؤں گا، اور میں نے اچھا فیصلہ کیا تھا۔ میں گارمینٹس فیکٹری میں ہیلپر بھر تی ہوگیا۔ کچھ عرصے میں سلائی مشین چلانا سیکھ لی اور وہاں کام کرنے لگا۔ گارمنٹس فیکٹری میں چین سسٹم پر کام ہوتا ہے یعنی اگر کوئی کف بنا رہا ہے تو بس کف ہی بنا رہا ہے، کوئی کالر تو کوئی بٹن پٹی۔ تو بس اس طرح کا لگا بندھا کام ہوتا ہے۔ پھر معاوضہ بھی کوئی خاص نہیں ہوتا۔ تین سال میں نے وہاں کام کیا۔ پھر سوچا کہ ایسے کام نہیں چلے گا، کوئی ہنر سیکھنا چاہیے۔



 

میرے والد کی حالت بھی ابتر ہوتی جارہی تھی وہ بیمار رہنے لگے تھے۔ لیکن بہت جفاکش انسان تھے وہ اور بہت خوددار بھی۔ میں نے ریفریجریٹر اور ایئرکنڈیشن کا کام سیکھنے کا تہیہ کیا اور پھر ایک استاد سے بات کی اور اللہ کا نام لے کر کام سیکھنا شروع کیا۔ ظاہر ہے وہاں پیسے تو کم ملتے تھے کہ میں کام سیکھ رہا تھا۔ لیکن میں بہت محنت، توجہ اور دل جمعی سے کام سیکھ رہا تھا کہ جلدازجلد اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنے والد کو سکون پہنچاؤں اور انہیں گھر پر آرام سے رکھوں۔ اس لیے کہ انہوں نے ساری زندگی محنت کی تھی وہ راتوں کو بھی اوور ٹائم لگاتے تھے کہ ان کی اولاد سکھی رہے۔ اب ان کے کام کے دن تو نہیں تھے۔

میرے خواہش تھی اور کوشش بھی کہ انہیں ساری خوشیاں فراہم کروں، اس لیے میں نے دن رات نہیں دیکھا، بس کام کرتا رہا۔ اس لیے بھی کہ میں بھائیوں سے بڑا تھا۔ پھر اچانک ابا کے ہاتھ اور پاؤں پر کوئی جِلدی بیماری ہوگئی۔ زخم ہوگئے تھے ان کے ہاتھوں اور پاؤں پر، کام نہیں کرسکتے تھے۔ وہ بہت رنجیدہ تھے۔ ہم نے ان کا علاج کرایا۔ خاصے دن تک وہ جناح اسپتال میں داخل بھی رہے۔ اﷲ نے شفا دی اور وہ ٹھیک ہوگئے۔ میں نے انہیں کام سے منع کیا، لیکن وہ بہت سمجھ دار اور دور اندیش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ابھی میں گھر کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوں ۔

کاش! اس وقت تک کام سیکھ چکا ہوتا۔ کاش! میں ان کے لیے کچھ تو کرسکتا۔ کاش! میں انہیں اس دن کام پر جانے سے روک سکتا۔

سلیم کی آنکھیں برس رہی تھیں۔ میں نے اسے دلاسا دیا۔

آخر ہوا کیا؟ تم کیوں ہو اتنے اداس؟ پھر کیا ہوا بتاؤ؟

کیا ہونا تھا بھائی صاحب! جیون بھر کا روک لگ گیا ہے ہمیں۔ اس دن بھی وہ حسب معمول اپنے کام کے لیے نکلے۔ وہ باہر بالکل بھی نہیں رہتے تھے۔ جیسے ہی چھٹی ہوتی وہ گھر آجاتے تھے، اس دن وہ وقت پر گھر نہیں پہنچے۔ ہم سمجھے بس میں آتے ہیں دیر ہوگئی ہوگی۔ پھر سوچا اوورٹائم کے لیے رک گئے ہوں گے، لیکن جس دن وہ اوورٹائم لگاتے اس دن تو خود بتاکر جاتے تھے کہ دیر سے آؤں گا۔ مجھے بہت بے چینی ہونے لگی اور پھر میں ان کی فیکٹری پہنچ گیا۔ فیکٹری والوں نے بتایا کہ وہ تو اپنے وقت پر چلے گئے تھے۔ میں نے ان کے دوستوں سے معلومات کیں، سب ہی کہہ رہے تھے وہ ہمارے سامنے بس میں بیٹھے تھے۔

جس راستے سے وہ گھر آتے تھے میں نے وہ پورا راستہ چھان مارا۔ کوئی ایکسیڈنٹ بھی نہیں ہوا تھا کہ میں کسی نتیجے پر پہنچتا۔ پھر بھی میں نے اسپتال چھان مارے، ساری رات میں مارا مارا پھرتا رہا۔ ایدھی سینٹر بھی گیا اور ان جگہوں پر بھی جہاں وہ جاتے تھے، وہ کہیں نہیں تھے۔ پورا گھر پریشان تھا۔ میری والدہ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ ابا کو درگاہوں پر جانے کا بھی بہت شوق تھا۔ لیکن وہ بتائے بنا کبھی بھی نہیں گئے تھے۔ لیکن میں نے پھر بھی کراچی کی ہر درگاہ، ہر مزار پر جاکر دیکھا۔ گھر میں بھی کوئی رنجش نہیں تھی۔

ان کا کسی پارٹی سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہمارے پاس تو کھانے کو بھی نہیں تھا کہ کوئی انہیں اغواء کرتا۔ ہمارے پاس کوئی جائیداد بھی نہیں تھی۔ آخر وہ گئے کہاں؟ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ پھر میں نے پوسٹر چھپوائے، ہینڈ بل تقسیم کیے۔ جو کچھ ہمارے بس میں تھا میں نے کیا۔ پورے پاکستان کے مزار چھان مارے، مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔ مجھے کمانا بھی تھا، گھر والوں کو حوصلہ بھی دینا تھا اور اپنے والد کو تلاش بھی کرنا تھا۔ انسان مرجائے تو رو دھو کر صبر آجاتا ہے، لیکن اگر کوئی اچانک غائب ہوجائے تو قرار نہیں آتا۔ زندگی جہنم بن جاتی ہے، میری حالت عجیب ہوگئی تھی۔ میں ہر وقت جیب میں ان کی تصویر رکھتا ، بس میں بیٹھتا یا کہیں بھی جاتا لوگوں کو ان کی تصویر دکھاکر معلوم کرتا کہ انہیں کہیں دیکھا ہے؟ کچھ رشتے داروں نے تھوڑے دن تو ساتھ دیا۔ پھر کون کسی کا ساتھ دیتا ہے۔ بس نصیحت رہ گئی کہ ایسا کرلو، ویسا کرلو۔

میں نے عاملوں سے پوچھا، نذر نیاز کی، دعائیں مانگیں اب بھی کرتا ہوں، بلکہ ہم سب گھر والے ان کی راہ تکتے ہیں۔ زندگی تو جیسے بھی حالات ہوں گزارنی پڑتی ہے۔ میری چھوٹی بہن کی شادی میں چند دن تھے کہ کسی نے بتایا کہ ہم نے انہیں میرپورخاص میں دیکھا ہے۔ میں اور میرا ہونے والا بہنوئی وہاں گئے، لیکن نہیں ملے وہ۔ آج تک یہ معما حل نہیں ہوا کہ وہ آخر کہاں گئے۔ انہیں آسمان کھا گیا یا زمین نکل گئی۔ بہنیں اپنے گھر کی ہوگئیں تو امی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی نہ تھا۔ چار سال پہلے میں نے شادی کی کہ امی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ مجھے حیدرآباد میں ایک کمپنی میں کام مل گیا تھا۔ سب بہن بھائی کراچی میں اور میں حیدرآباد میں کام کر رہا تھا۔ پیٹ کا دوزخ تو بھرنا ہی پڑتا ہے۔ چند دن پہلے میرے دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی ہے۔ تو میں نے حیدرآباد سے کام چھوڑ کر کراچی میں اپنا کام شروع کیا ہے۔ ابھی ابتداء ہے اﷲ نے پہلے بھی پالا ہے اب بھی پالے گا۔

ہم سب بھائی ساتھ رہتے ہیں۔ اتفاق میں برکت ہے۔ یہی ہمارے ابا نے ہمیں سکھایا تھا۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں۔ ہمیں اب بھی ان کا انتظار ہے۔ ہم سب انہیں اب بھی تلاش کرتے ہیں۔ اﷲ کا کرم ہے اچھی گزر بسر ہو رہی ہے، لیکن بس یہ روگ ہے ہمارا۔ ہم اچھا کھانا پکائیں تو یاد آتے ہیں، میں بڑا ہوں مجھے زیادہ ہمت دکھانی پڑتی ہے۔ میرا کھانا پینا ختم ہوگیا ہے۔ میں جانتا ہوں میری صحت تباہ ہورہی ہے۔ لیکن میں کیا کروں؟ اپنے والد کو نہیں بھول سکتا۔ میں مرتے دم تک انہیں تلاش کروں گا۔ عید، شب برأت پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور ہم روتے دھوتے ہیں، کبھی کسی بہن بھائی یا والدہ کے خواب میں آجاتے ہیں تو ہم اور بھی اداس ہوتے ہیں۔ ہماری خوشیاں ہمارے والد کے دم سے تھیں۔ میری یہ آرزو خاک میں مل گئی کہ میں انہیں سُکھ اور آرام پہنچاؤں گا۔

انہوں نے ہمارے لیے اتنی محنت کی۔ خود کو ختم کرلیا تھا، ان کی صحت برباد ہوگئی تھی اور جب ان کی خوشیوں کے دن آئے تو وہ نہیں ہیں۔ بھائی صاحب! آٹھ سال ہوگئے ہیں، بولنے میں بہت آسان لگتا ہے ناں آٹھ سال۔ لیکن ہر پل ایک صدی کا گزرتا ہے۔ کوئی خوشی نہیں ہے۔ بس میں اﷲ تعالیٰ سے ہر وقت ایک ہی دعا کرتا ہوں، مجھے میرا باپ لوٹا دے۔ میں تھک گیا ہوں۔ 29 سال کی عمر میں 50 سال کا لگتا ہوں۔ یہی روگ لگ گیا ہے۔ میں تھک ضرور گیا ہوں لیکن مایوس نہیں ہوا۔ اس لیے کہ پاک پروردگار نے کہا ہے مایوسی کفر ہے اور امید پر زندگی قائم ہے۔ یہی مجھے والد نے سکھایا تھا۔ مجھے یقین ہے ایک دن وہ واپس آجائیں گے اور ہمیں سینے سے لگاکر کہیں گے ''بیٹا میں آگیا ہوں۔'' بس ان کی آواز سن کر ہم سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔ انشاء اﷲ ایسا ضرور ہوگا، ضرور ہوگا۔

ہاں انشاء اﷲ ایسا ضرور ہوگا۔ بس میں اتنا ہی کہہ سکا

لیکن وہ کب تک اس کرب ناک انتظار کی سو لی پر لٹکتا رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

جو زخم جس جگہ تھا، اب تک وہیں ہرا ہے

مرہم نہیں ہے دل پر، بوسہ نہیں جبیں پر

لیکن یہ بھی تو ہے:

ہم اپنی ساری شکایات بھول جائیں گے

ہمارے سامنے آکے ، وہ مسکرائے تو

انسان مرجائے تو رو دھو کر صبر آجاتا ہے، لیکن اگر کوئی اچانک غائب ہوجائے تو قرار نہیں آتا۔ زندگی جہنم بن جاتی ہے، میری حالت عجیب ہوگئی تھی۔ میں ہر وقت جیب میں ان کی تصویر رکھتا ، بس میں بیٹھتا یا کہیں بھی جاتا لوگوں کو ان کی تصویر دکھاکر معلوم کرتا کہ انہیں کہیں دیکھا ہے؟

مجھے یقین ہے ایک دن وہ واپس آجائیں گے اور ہمیں سینے سے لگاکر کہیں گے ''بیٹا میں آگیا ہوں۔'' بس ان کی آواز سن کر ہم سب دوبارہ جی اٹھیں گے۔ انشاء اﷲ ایسا ضرور ہوگا، ضرور ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں