وہ جو لاہور تھا
میں نے ایک بات سے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ بجلی کاخوفناک بل دے کر ہی لاہور کی گرمیوں سے نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔
MINGORA/ BATKHELA:
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سردیوں کا موسم آیا مگر اپنا اتاپتہ بتائے بغیر گزر گیا انسانوں کے ساتھ ساتھ موسم بھی بدل گئے اور اب نئے زمانے کے نئے موسم ہیں جو ہم جیسے پرانے اور روائتوںمیں جکڑے لوگوں کو راس نہیں آتے۔
لاہور میں گرمیوں کے موسم میں آمد ہوئی تھی یہ کوئی نصف صدی کا قصہ نہیں بلکہ عمر بھر کی بات ہے اس دلفریب شہر میں عمر گزر گئی اور اس کے ساتھ ہی کتنے موسم بھی لیکن جو لطف سردیوں کے موسم میں آیا وہ بہار میں بھی نہیں دیکھا۔
لاہور کی سردیاں جو سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر گزریں ان کا مزا مدتوں بعد اب آنا تھا مگر بدقسمتی سے اب نہ سائیکل ہے نہ موٹر سائیکل بلکہ موٹر کار ہے جس کے شیشے بند رہتے ہیں اور سرد ہوئیں ان بند شیشوں سے ٹکرا کر گزر جاتی ہیں۔ گرمیوں میں آمد کے بعد جب سردیاں شروع ہوئیں اور لاہور کا پسینہ سوکھا تو اس شہر کے شاعروں کا شعر کہنے کا موسم آیا ۔سردیوں کے موسم میں لوگ اوور کوٹ پہنا کرتے تھے اور مفلر لباس کا مستقل حصہ تھا ۔
میرے جیسے دو پہیوں والی سواری والے ہاتھوں پر دستانے بھی چڑھاتے تھے اور سر پر ٹوپی جسے کنٹوپ کہنا چاہیے کیونکہ کانوں کوبھی سردی سے بچانا اشد ضروری تھا اور ناک کو مفلر سے اس طرح مقفل ہو کر سردیاں اور ان کی راتیںگزرتی تھیں۔
وہ راتیں جو ہم اخباروں میں کام کرنے والوں کو نصف شب سے شروع ہوتی تھیں کیونکہ آخری کاپی پریس بھجوا کر جب باہر نکلتے تھے تو رات نصف سے زیادہ گزر چکی ہوتی تھی اس نصف شب کا پہلا کام یہ ہوتا تھا کہ دفتر کے سامنے لاہور کی مال روڈ کے فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر قومی ترانا گایا جاتا اور پھر رات کو کھلے رہنے والے کسی چائے خانے میں چائے کی ایک پیالی۔ ہمیں معلوم تھا کہ راتوں کو چائے کی پیالی کہاں ملتی ہے ۔یہ تمام کام شدید سردی میں ہوتے اور سردی بھی ایسی کہ بات کرتے منہ سے بھاپ نکلتی۔
سردیوں کی یاد، آنے والی گرمیوں کے خوفناک موسم سے آئی ہے میں سرد علاقے کا رہنے والا ہوں اس لیے گرمیاں میری برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں اور میری کوشش ہوتی ہے کہ گھر سے کم سے کم نکلا جائے اور ائر کنڈیشنڈ کی دستیاب سہولت سے فائدہ اٹھایا جائے ۔
میں نے ایک بات سے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ بجلی کاخوفناک بل دے کر ہی لاہور کی گرمیوں سے نبردآزما ہوا جا سکتا ہے اس لیے اول تو میں بل دیکھتا نہیں اور جب ہمت پیدا ہو جائے تو دیکھ کر فوری ادائیگی کی کوشش کرتا ہوں تا کہ میرے گھر میں بجلی کی روشنی برقرار رہے ورنہ بل نہ دینے یا تاخیر سے جمع کرانے کی صورت میں بجلی منقطع ہوسکتی ہے، یہ بات دوسری ہے کہ بجلی کتنی فراہم کی جارہی ہے بجلی کے محکمے کو اس سے کوئی سروکار نہیں ان کو بل کی ادائیگی وقت پر چاہیے، چاہے وہ بجلی فراہم کریں یا نہ کریں۔
لگتا ہے سردیوں کا موسم لاہور سے روٹھ گیا ہے اس سال بھی میں انتظار کرتا ہی رہ گیا اور سردیاں آئیں اور گزر گئیں مگر اپنے ساتھ وہ شدت والا موسم نہیں لائیں اور بہار کے چند دنوں کے بعد گرمیاں پھر سر پر ہیں اورساتھ ہی روزے بھی ۔ مقابلہ سخت ہے مگر ایمان والے بھی ہر وقت مقابلے کے لیے تیار رہتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔
سردیوں کے ایک گزرے موسم میں، میں نے ایک دن اپنے ایڈیٹر جناب فیض احمد فیض سے عرض کیا کہ اب کام میں بڑا مزا آئے گا کہ سردیاں آگئی ہیں ۔ فیض صاحب نے سگریٹ جھاڑتے ہوئے میری بد ذوقی پر افسوس کے ساتھ کہا کہ کام تو گرمیوں میں کرتے ہیں سردیوں میں تو سیر کی جاتی ہے۔
مجھے یاد نہیں کہ لاہور میں سردیاں کب ختم ہوئیں راوی کے خشک ہونے پر یا اس سے پہلے لیکن اتنا یاد ہے کہ لباس بدل گئے اور مال روڈ پر صوبے خان کا درزی خانہ بند ہو گیا جہاں لڑکیوں اور خواتین کے خوش نصیب کوٹ سلا کرتے تھے اور انار کلی سے دستانے بیچنے والے غائب ہو گئے۔ سردیوں کے آخر میں خزاں کا موسم بھی آیا کرتا تھا لارنس گارڈن کے سبزہ زار اور مال روڈ کے فٹ پاتھ خشک زرد پتوں سے بھر جاتے تھے ان پر چلتے ہوئے پتوں کے ٹوٹنے کی صدائیں آتی تھیں، ذرا سی ہوا چلتی تو درختوں سے پتے گرنا شروع ہو جاتے احمد مشتاق نے اسی موسم میں کہا تھا
فٹ پاتھ کی دیوار سے چپکے ہوئے پتے
اک روز ہواؤں کو درختوں پہ ملے تھے
مدتیں ہوئیں احمد مشتاق امریکا چلا گیا معلوم نہیں اس کا کیا حال ہے ۔ بات موسم اور لاہور کی رعنائیوں کی ہو رہی تھی برصغیر کا ثقافتی مرکز ہونے میں لاہور کے باغوںاور موسموں کا بھی اثر تھا اور ان نادر روزگار لوگوں کا بھی جو ان موسموں کے سحر میں لاہور کے اسیر ہو رہ گئے ۔ انگریز اپنی کرسمس کلکتہ میں یا لاہور میں مناتے تھے، برصغیر میں فیشن لاہور سے چلتا تھا اور بمبئی میں بنائی گئی فلموں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ لاہور کے سینما بین کرتے تھے ۔ مشاعرے اور ادبی رسالے اس شہر کی پہچان تھے اور کسی شاعر کی لاہور میں مقبولیت کو ہندوستان بھر میں قبول کیا جاتا تھا۔
میرا لاہور پچھلی صدی کی پچاسویں دہائی کے ایک موسم سرما سے شروع ہوتا ہے جس کا ہر دن رات گئے اس وقت ختم ہوتا تھا جب میکلوڈ روڈ پر فلم کا آخری شو ختم ہونے پر یہ کھلی سڑک تانگوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اور کوچوانوںکے شور سے بھر جاتی۔ آبادی کم تھی اور شہر بڑا تھا اصل لاہور تو دیوار کے اندر تھا یا اس سے ملحق باہر کی آبادی تک ۔ اہل لاہور کی نقل و حرکت کا یہ عالم تھا کہ ایک باراندرون شاہ عالمی کی ایک لڑکی نے مجھ سے پوچھاکہ کہاں رہتے ہو اور میں نے بتایا کہ مال روڈ پر تو وہ حیرت زدہ ہو کر بولی وہاں تو مجیں ہوتی ہیںایک بار مزنگ جاتے ہوئے میں بھی اس سڑک سے گزری تھی۔
لاہور کے اندر رہنے والے ارائیوں کا باہر سے رشتہ صرف مزنگ سے تھا جہاں یہ برادری آباد تھی اور لاہور میں مجیں پالتی تھی۔ لاہور میں ہی مرحوم موچی دروازہ بھی تھا جہاں سے سیاسی جماعتوں کو سند ملتی تھی ۔ میں اپنے گمشدہ لاہور کو ڈھونڈتا ہوں جس کے دنوں اور راتوں میں میری جوانی نے انگڑائی لی تھی مگر وہ لاہور اب مستقل طور پر گم ہو گیا ہے اور صرف خوشگوار یادوں کا اثاثہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔