کلبھوشن کیس میں بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں تازہ جواب جمع کرا دیا

بھارت کے تازہ جواب میں کوئی چیز نئی نہیں ہوگی کیونکہ دونوں ممالک زیادہ تر نکات پہلے ہی دے چکے ہیں، قانونی ماہرین


حسنات ملک April 19, 2018
بھارت کے تازہ جواب میں کوئی چیز نئی نہیں ہوگی کیونکہ دونوں ممالک زیادہ تر نکات پہلے ہی دے چکے ہیں، قانونی ماہرین ۔ فوٹو: فائل

بھارت نے کلبھوشن یادیو کیس میں عالمی عدالت انصاف میں تازہ جواب جمع کرادیا ہے جب کہ ہیگ میں پاکستانی سفارتخانے نے بھارتی جواب کی کاپی حاصل کرلی ہے۔

ایک سینئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اب پاکستان 17 جولائی کو اپنا جواب جمع کرائے گا اور یہ تحریری جوابات جمع کرانے کا دوسرا مرحلہ ہے تاہم اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کیس کی سماعت رواں سال 2018 میں مقرر ہوسکے کیونکہ اگست کے اواخر میں عالمی عدالت انصاف کے ججوں کی گرمیوں کی دو ماہ کی تعطیلات شروع ہوجائیں گی اور اس سے قبل عالمی عدالت انصاف ان کیسوں کی سماعت کرے گی جنہیں پہلے مقرر کیا گیا ہو۔ عہدیدار نے امکان ظاہر کیا کہ کیس کی سماعت 2019 کے اوائل میں ہوسکتا ہے۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کے تازہ جواب میں کوئی چیز نئی نہیں ہوگی کیونکہ دونوں ممالک زیادہ تر نکات پہلے ہی دے چکے ہیں یا پریس بریفنگز میں ظاہر کرچکے ہیں۔ اس سے قبل نئی دلی نے پاکستان کے جواب پر اپنا موقف دینے کیلئے کچھ مہلت مانگی تھی۔

پاکستان نے پچھلے سال 13 دسمبر کو اپنے جواب میں کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دینے کے بھارتی الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویانا کنونشن کے تحت جاسوسوں کو ایسی سہولت حاصل نہیں تاہم بعد میں 25 دسمبر 2017 کو پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ کو ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔

معلوم ہوا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جواب تیار کرنے کیلئے ملک کے دو اعلیٰ وکلاء کی خدمات حاصل کرلی ہیں تاہم جواب خاور قریشی نے ڈرافٹ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ بھارت نے اس بات کو رد نہیں کیا کہ کلبھوشن یادیو ایک فرضی مسلم نام کے پاسپورٹ پر سفر کررہا تھا۔

بھارت نے وضاحت نہیں دی کہ کیسے بھارتی خفیہ ایجنسی 'را' کیلئے کام کرنے والا ایک حاضر سروس نیوی کمانڈر فرضی نام سے سفر کررہا تھا۔ اس سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بھارت قونصلر رسائی مانگ کر وہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے جو کلبھوشن یادیو نے حاصل کئے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ ظاہر ہے کہ کلبھوشن یادیو کو خصوصی مشن پر جاسوسی کیلئے بھجوایا گیا تھا۔ دو ممالک کے مابین جائز معاملات میں مداخلت کیلئے عالمی عدالت انصاف سے استدعا کی جاسکتی ہے تاہم ایک ایسے معاملے جس میں ایک ملک کے ہاتھ صاف نہ ہوں وہ ریلیف کیلئے عالمی عدالت سے رجوع نہیں کرسکتا۔

پاکستان نے اپنے جواب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا عادی ہے اور کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری نہیں کی۔

بھارت نے پچھلے سال 13 دسمبر میں عالمی عدالت میں اپنے دعوے میں کلبھوشن یادیو کے فوجی عدالت میں ٹرائل پر اعتراض کرتے ہوئے عام عدالت میں مقدمہ چلانے اور پاکستان کو اسے قونصلر رسائی دینے کا پابند بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان کی وفاقی حکومت نے عالمی عدالت انصاف میں سابق چیف جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو پہلے ہی ایڈہاک جج نامزد کیا ہے۔

قانونی ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ جواب کے حتمی مسودے کیلئے تمام شراکت داروں میں موثر رابطہ کاری ضروری ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے پچھلے سال 18 مئی کو کلبھوشن یادیو کی سزا پر علمدرآمد روک دیا تھا جسے فوجی عدالت نے 10 اپریل 2017 کو دہشتگردی اور جاسوسی کے اعتراف میں سزائے موت سنائی تھی۔ کلبھوشن یادیو عرف مبارک پٹیل کو 3 مارچ 2016 کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ غیرقانونی طور پر ایرانی سرحد سے پاکستان داخل ہورہا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں