اختر پیامی
ریڈیائی تحریروں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کے فقروں کی ساخت بھی مختلف ہوتی ہے اور سادگی اور روانی ان کا بنیادی۔۔۔
منگل 9 اپریل کو صبح سویرے اخبار کھولا تو دل دھک کرکے رہ گیا۔ یہ منحوس خبر پڑھنے کو ملی کہ اختر پیامی انتقال کر گئے۔ ہائے ہائے! جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں۔ آنکھوں نے جو کچھ پڑھا دل اس پر اعتبار کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوا۔ مگر موت سے کس کو رستگاری ہے، نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
پیامی صاحب کی رحلت نے پرانی یادیں تازہ کردیں۔ ریڈیو پاکستان کی ایکسٹرنل سروسز کا ٹاکس سیکشن صحافیوں اور دانشوروں کی ایک حسین کہکشاں ہوا کرتا تھا جہاں نصیر حیدر، قطب الدین عزیز، پروفیسر انعام الرحمن، سلیم علوی اور افسر ماہ پوری جیسے درخشندہ ستارے اپنی روشنیاں بکھیرا کرتے تھے جن میں پیامی صاحب کی ایک علیحدہ شناخت تھی۔
ریڈیو پاکستان کا وہ دور سنہری دور تھا۔ وہ دن جب یاد آتے ہیں کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ریڈیو کے پروگراموں میں چونکہ وقت کی پابندی لازمی ہوتی ہے لہٰذا ہر تبصرہ نگار کے لیے مقررہ وقت پر پہنچنا انتہائی ضروری ہوتا تھا۔ اختر پیامی صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ وقت مقررہ سے پہلے ہی تشریف لے آتے تھے۔ وہ دھیمے قدموں سے داخل ہوتے اور پھر ماحول کو اپنی ہلکی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ یکدم خوشگوار بنا دیتے تھے۔ کبھی کبھار کام شروع کرنے سے پہلے کچھ ہلکی پھلکی گفتگو بھی ہوجاتی، مگر اکثر و بیشتر یہ ہوتا تھا کہ وہ ٹائپ رائٹر کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھ جاتے اور پھر کاغذ چڑھا کر اسکرپٹ ٹائپ کرنا شروع کردیتے۔
جس موضوع پر انھیں تبصرہ لکھنا ہوتا تھا اس کی تیاری وہ عموماً گھر سے ہی کرکے آیا کرتے تھے، مگر جو موضوعات انھیں پہلے سے نہیں دیے جاتے تھے ان پر اسکرپٹ وہ ریڈیو آنے کے بعد ہی تیار کیا کرتے تھے۔ ریڈیو کے لیے اسکرپٹ لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ کیونکہ اس کا سارا دارومدار انسان کی سماعت پر ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کے تقاضے پرنٹ میڈیا سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونکہ ان اسکرپٹس کے ٹارگٹ ایریاز بیرونی ممالک ہوتے تھے اس لیے ان کی اپروچ بھی بہت مختلف ہوتی تھی۔ سب سے مشکل بات یہ تھی کہ ان اسکرپٹس کے ذریعے پاکستان اور اس کی پالیسیوں کو انتہائی احتیاط اور نزاکتوں کے ساتھ غیرملکی سامعین تک اس انداز سے پہنچانا ہوتا تھا کہ ان کے ذہنوں پر بہترین تاثرات ثبت ہوں۔ پیامی صاحب یہ کام اس انداز سے انجام دیتے تھے گویا یہ بازیچہ اطفال ہو۔ اپنے کام میں وہ اتنے منہمک ہوتے تھے کہ گردوپیش کا انھیں احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔
ریڈیائی تحریروں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کے فقروں کی ساخت بھی مختلف ہوتی ہے اور سادگی اور روانی ان کا بنیادی تقاضا ہوتا ہے۔ پیامی صاحب نے اس کا ہمیشہ خیال رکھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کہ ان اسکرپٹس کو غیرملکی زبانوں میں ترجموں کے ذریعے منتقل کرکے سامعین تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے انھیں اگر پرنٹ میڈیا کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا کا ایکسپرٹ بھی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
پیامی صاحب کا تعلق سادات گھرانے سے تھا جس کی واضح جھلک ان کے رویے میں قطعی نمایاں نظر آتی تھی۔ وہ ہندوستان کے مشہور صوبے بہار میں راج گیر کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید سعید اختر تھا جس سے بہت کم لوگ واقف تھے کیونکہ وہ اختر پیامی کے نام سے ہی مشہور تھے۔ پیامیؔ ان کا تخلص تھا جسے آپ ان کا قلمی نام بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا کلام ہندوپاک کے مختلف رسائل میں وقتاً فوقتاً شائع ہوتا رہا مگر مشاعروں میں شرکت کا انھیں زیادہ شوق نہیں تھا۔ ان کا مجموعہ کلام آئینہ خانہ کے عنوان سے شائع ہوکر خراج تحسین وصول کرچکا ہے۔ شاعری پیامی صاحب کا داخلی معاملہ تھا جس کا مقصد اظہار اور تسکین ذوق تھا۔ اس معاملے میں وہ دوسرے شاعروں سے قدرے مختلف تھے۔ صلے اور ستائش اور بے جا دادوتحسین کی خواہش سے بے نیاز۔
سب سے خاص بات یہ کہ انھیں اردو اور انگریزی زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ اگرچہ انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے معاشیات کے مضمون میں گریجویشن کیا تھا لیکن وسیع المطالعہ ہونے کے باعث انھوں نے ادب اور عمرانی مضامین پر بھی نہایت خوبصورت مضامین تحریر کیے جو معروف رسائل اور اخبارات میں شائع ہوئے۔
اپنے زمانہ طالب علمی میں پیامی نے ایک ترقی پسند اور انقلابی شاعر کے حوالے سے اپنی شناخت کرائی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ترقی پسند تحریک مقبولیت حاصل کرچکی تھی اور نوجوانوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہورہے تھے۔ وہ جلسوں اور جلوسوں میں نہایت جوش و خروش سے شرکت کیا کرتے تھے۔ غربت اور استحصال کے شکار طبقات سے انھیں گہری اور قلبی دلچسپی تھی جو زندگی کے آخری حصے تک ان کے مزاج میں شامل رہی۔
تقسیم ہند کے بعد ہجرت کرکے وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ڈھاکا مشرقی پاکستان آگئے اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔ یہ 50 کی دہائی کی بات ہے۔ انھوں نے انگریزی روزنامے ''مارننگ نیوز'' میں شمولیت اختیار کرلی جو اپنے وقت کا بہت بڑا اخبار مانا جاتا تھا۔ پھر جب سقوط ڈھاکا کا سانحہ پیش آیا تو وہ کٹھمنڈو، نیپال کے راستے کراچی آگئے اور تادم آخر یہیں مقیم رہے۔ یہاں آکر انھوں نے ایک مرتبہ پھر مارننگ نیوز جوائن کرلیا اور بہت جلد ترقی پاکر نیوز ایڈیٹر کے عہدے پر مامور کردیے گئے۔ اس کے بعد وہ انگریزی روزنامہ ''ڈان'' سے منسلک ہوگئے۔ اس وقت ان کی حیثیت اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کی تھی۔ کچھ عرصے تک انھوں نے اسی اخبار میں سٹی ایڈیٹر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ پھر جب نیوز ایڈیٹر فضل امام اپنی مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہوئے تو ان کی جگہ اختر پیامی نے سنبھالی۔
پیامی صاحب بڑے ملنسار اور وضع دار آدمی تھے۔ تعلقات کا لحاظ رکھنا اور انھیں برقرار رکھنا ان کے مزاج کا لازمی حصہ تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جب وہ ڈان کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ ایڈیٹر منسلک تھے، ہمارا تعلق ان کے ساتھ بدستور برقرار رہا۔ ہم جب کبھی حسن عابدی صاحب سے ملنے جاتے تو پیامی صاحب سے ملنا کبھی نہ بھولتے۔ ان سے مل کر ریڈیو پاکستان کے زمانے کی تمام بھولی بسری یادیں تازہ ہوجاتیں اور بہت سے پرانے قصے یاد آنے لگتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرے۔ آمین!