میری مرضی اور شانہ بہ شانہ

معاشرے کا ہر فرد اپنے حقوق کے حصول کے ساتھ اپنے اوپر عائد فرائض کو بھی ادا کرے تو پھر ایسی نوبت ہی نہیں آئے گی


صابر ابو مریم April 24, 2018
یہ مغرب کے پے رول پر کام کرتی ایسی خواتین ہیں کہ جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے بینک اکاؤنٹس بھرنا ہے۔ فوٹو:انٹرنیٹ

گزشتہ دنوں یہ نعرے یعنی کہ ''میرا جسم میری مرضی'' اور مردوں کے برابر حقوق دو، اور خواتین کی آزادی کا واویلا کرنے والی مغرب زدہ خواتین کے ٹولوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر واہیات قسم کے نعروں کے ساتھ سامنے آتی رہیں، جن کا مقصد ظاہری طور پر خواتین کے حقوق کی بات کرنا، جبکہ اندرون خانہ ان کا مقصد خواتین کو مغربی معاشروں کی طرح پاکستان جیسے معاشروں میں بھی ایک ٹول کے طور پر استعمال کیا جانا تھا۔

اپنے انہی مذموم مقاصد کا پرچار کرتی یہ چند ایک مغربی ثقافت کی نمائندہ خواتین چاہتی ہیں کہ آنے والی نسلوں میں بگاڑ پیدا کریں تا کہ پاکستان کا معاشرہ ترقی کے راستوں سے ہٹ جائے۔ اب ان خطر ناک عزائم کے سامنے چند ایک درد دل رکھنے والے بھی نکل کر سامنے آ گئے اور انہوں نے مختلف پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں پلے کارڈز پکڑا کر ان نام نہاد بی بیوں کو شانہ بہ شانہ کام کرنے کی آفر کی۔ جیسے کہ اپنی جوتی خود سلائی کرو، پانی کی بوتل خود بدلو، اپنے گٹر خود صاف کرو، اپنا پنکچر خود لگاؤ، آؤ بی بی شانہ بہ شانہ وغیرہ...

دراصل دیکھا جائے تو دونوں ہی انداز درست نہیں ہیں، کیونکہ ایک طرف سے پہلے شدید قسم کی شدت دکھائی گئی اور یقیناً یہ انجان اور نادان خواتین کا گروہ ہے کہ جو دانستہ یا پھر نادانستہ طور پر مغرب کی گلی سڑی ثقافت کا پرچار کرنے میں مصروف عمل ہے۔ جبکہ ان چند ایک کو جواب دینے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے، ہو سکتا ہے کسی حد تک متاثر کن ہو، لیکن اجتماعی طور پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے اور معاشرے میں موجود مرد و زن میں ایک لکیر کھینچ سکتا ہے جو کہ دین اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا ہے۔

دراصل پہلا گروہ تو مغربی ثقافت کے پرچار میں اندھا ہوا ہے، اگر یہ گمراہ گروہ تھوڑی سی بھی تحقیق کر لیتا تو اسے علم ہوتا کہ پاکستان کے معاشرے میں خواتین کا جس قدر احترام ہے شاید کسی اور معاشرے میں ایسا نہیں ملے گا۔

خواتین کی آزادی کا نعرہ کیا ہے؟ یہ ایک ایسا دلفریب نعرہ ہے جو خواتین کی عفت و پاکیزگی کو نیست ونابود کر چھوڑتا ہے۔ اور اس نعرے کی ایجاد مغربی معاشروں نے کی ہے جہاں عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی کم کا درجہ حاصل ہے، اور نیم برہنہ عورت کو پیش کرکے سمجھا جاتا ہے کہ یہ عورت کی عزت کی جارہی ہے۔

اس کے برعکس حقیقت میں اس معاشرے کی سمجھدار خواتین بھی اس کو اپنی توہین ہی سمجھتی ہیں۔ خواتین کی آزادی کے نام پر خواتین کا استعمال اور استحصال اخلاقی و مذہبی عنوان سے مغربی معاشرے میں بھی بدترین سمجھا جاتا ہے, لیکن کیا کیجیے کہ یہ وبا اب پاکستا ن میں پھیلا کر پاکستان کے معاشرے کو کھوکھلا کرنے کی گھناؤنی سازش کی جا رہی ہے۔ اور اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کےلیے بھی خواتین کا استعمال ٹھیک اسی طرح کیا جا رہاہے جس طرح مغربی معاشروں میں کیا جاتا ہے؛ اور اس طرح کے افعالِ بد پر تنقید کرنے والوں کو اب دقیانوسی اور نہ جانے کیا کیا القاب دیے جائیں گے۔

اس پورے عنوان پر مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے جسے میں قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، تا کہ مغرب زدہ اپنی مرضی کرنے والی ان چند ایک خواتین کو احساس ہوسکے کہ وہ کس غلطی کا ارتکاب کر رہی ہیں جو آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کر دے گی۔

بابا جی کھیت میں بھینس کو جوت کر ہل چلا رہا تھا اور چھپر میں بیل صاحب آرام فرما رہے تھے۔ کسی سیانے کا گزر ہوا۔ اس نے بابا جی سے پوچھا :" یہ کیا تماشا ہے؟ تم نے بیل کو چھپر کے نیچے باندھا ہے اور بھینس کو ہل میں جوت رکھا ہے؟"

بابا جی نے کہا : "یہ بی بی شہر سے آئی ہے۔ اس کی سہیلیوں نے اسے سمجھا کر بھیجا تھا کہ دیہات میں مادہ جنس کو حقوق پورے نہیں ملتے، لہذا تم پہلے ہی دن اپنے مالک سے اپنے حقوق کی بات کرنا۔ اس نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ مجھے بیل کے برابر حقوق چاہیں ''۔ میں نے کہا :" بیل تو ہل جوتتا ہے ''۔ اس نے کہا : "میں گھر میں قید ہو کر نہیں رہ سکتی۔ جو کام بیل کرتا ہے وہ میں بھی کر سکتی ہوں۔ چنانچہ میں نے اسے ہل جوتنے پر لگا دیا۔ اب یہ خوشی خوشی کھیت میں بھی کام کرتی ہے اور دودھ بھی دیتی ہے۔ بیل کے پاس کرنے کو کام نہیں، لہذا وہ سارا دن چھپر میں آرام کرتا ہے اور بھینس کو مزید اپنے حقوق مانگنے پر اکساتا رہتا ہے۔''

بہر حال، یہ کہانی بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے خوبصورت ترین معاشرے کے اقداروں کو جانے بغیر سڑکوں پر نکل آنے والی یہ نام نہاد آزاد خیال کہلانے والی خواتین یہ بھی جان سکیں کہ ہمارے معاشرے میں خواتین آج بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہیں۔ اور یہ ہمارا ہی معاشرہ ہے کہ جہاں خواتین کے احترام میں لوگ خواتین کو کسی قطار میں نہیں لگنے دیتے بلکہ خود اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔ آج بھی ہمارے اسپتالوں، کالجز، یونیورسٹیز، اسکولوں، درسگاہوں، دفاتر، عدالتوں اور سیکورٹی فورسز سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے ہر معاملہ میں خواتین آگے آگے نظر آتی ہیں اور مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر رہی ہیں۔ لیکن مغرب زدہ یہ خواتین میری مرضی کے نعرے لگانے والی شانہ بہ شانہ کام کرنے کا مقصد کچھ اور ہی نکال کر پیش کرنا چاہتی ہیں جسے پاکستان کی خواتین نے مسترد کر دیا ہے؛ اور مستقبل میں بھی اس طرح کے فرسودہ نظریات کو کبھی پنپنے کا موقع نہیں ملے گا۔

خلاصہ یہ کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے کہ جس نے نہ صرف خواتین بلکہ مردوں، اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق کو بیان کیا ہے۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے حقوق کے حصول کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر عائد کئے گئے فرائض کو بھی ادا کرے تو پھر ایسی نوبت ہی نہیْْْں آئے گی۔ اور یہ بات حقیقت ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اور حیا یافتہ معاشرہ اور اس کی خواتین ایسے فرسودہ نعروں کو کیسے پنپنے دے سکتی ہیں ؟

یقیناً یہ مغرب کے پے رول پر کام کرتی ایسی خواتین ہیں کہ جن کا مقصد صرف اور صرف اپنے بینک اکاؤنٹس بھرنا ہے، اور پھر یہاں سے مغربی دنیا میں کوچ کر جانا ہے۔ لہٰذا ایک قوم اور ملت ہونے کے ناطے ہم سب کا فرض ہے کہ بے حیائی کو پروان چڑھانے والے ایسے تمام عناصر چاہے وہ مردوں میں ہوں یا خواتین میں، ان کا سدِ باب کرنا ہو گا اور ان کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ ورنہ ہماری آئندہ نسلیں ان کے فرسودہ نظام کی فرسودہ روایات اور نعروں میں گم ہو جائیں گی اور پھر تاریخ میں کہیں نشان بھی باقی نہ ہو گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔