’’رائٹرنہ بنتی تو میں شاید پاگل ہوجاتی‘‘
پارسی بڑی پیاری سی کمیونٹی ہے، اسے رہنا چاہیے، یہ بہت جلد ختم ہونے والی نہیں.
بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفہ بیپسی سدھوا سے مکالمہ۔ فوٹو: فائل
ممتاز شاعرفیض احمد فیض نے ''کرو ایٹرز''کے بارے میں تبصرہ کرتے لکھا: ''بے رحمانہ راست گواور حد درجہ حساس بیپسی اپنی کہانی رندانہ بے باکی، صاف گوئی اور شگفتگی سے سناتی ہیں۔''
شاعر کی یہ رائے، جو صرف ایک کتاب کے بارے میں تھی، اب ان کے لکھے سارے فکشن پربھی صادق آتی ہے۔بیپسی سدھوااندر سے توانا شخصیت کی مالک ہیں، بچپن میں پولیوکے مرض سے بڑی بہادری سے لڑیں، تنہائی نے آزردہ کیا ،پر پسپا نہ ہوئیں اور مطالعہ کے تریاق سے اس کا علاج کیا ، جو گویا قلم کار بننے کی طرف پیش قدمی کاآغازتھا۔لکھنا شروع کیا تو ایسے موضوعات چنے جو لکھنے کی فطری صلاحیت کے ساتھ جرأت مندی کا تقاضا بھی کرتے تھے۔ پہلا شائع شدہ ناول ''The Crow Eaters'' باعث نزاع بن گیا۔پارسی کمیونٹی اس پربرہم ہوئی۔انھیں لگا جیسے ناول میں ان کا مذاق اڑایا گیا ہے۔
ناول پر ردعمل سے وہ گھبرائیں نہیں ، کہ ان کے بقول ''ادیب وہی کچھ لکھتا ہے، جو اس کے اندر سے آتا ہے۔'' بیپسی سدھوا وہ پہلی پارسی لکھاری تھیں، جن نے اپنی کمیونٹی کو فکشن کا موضوع بنائے جانے کے لائق جانا،بعد میںان کی تقلید میں یہ کام دوسروں نے بھی کیا۔ وہ بیپسی سدھوا جن کے ناول پر پارسی کمیونٹی برافروختہ ہوئی ، وقت گزرنے کے ساتھ اب وہ ان کا قابل فخر اثاثہ بن چکی ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ اس مصنفہ کو اپنا پہلا ناول چھپوانے کے لیے خاصا تردد کرنا پڑا۔کوئی پبلشر ناول چھاپنے پر راضی نہ ہوا تو اس کی اشاعت اور تقسیم کا بار انھیں خود اٹھانا پڑا۔
تاہم وہ مرحلہ جلد آگیا ، جب ان کا ناول باہرچھپااور اسے پذیرائی ملی۔ باقی ناولوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا ، خاص طور سے'' آئس کینڈی مین'' تو مقبولیت میں سب سے بازی لے گیا۔اس پر فلم بنی۔ اسے امریکی یونیورسٹیوںنے نصاب میں شامل کیا ۔فکشن میں بیپسی سدھوا اپنے آس پاس سے کہانی چنتی ہیں ، اور پھراسے اعلیٰ تخلیقی پیرہن میں پیش کردیتی ہیں۔ ان کی تحریر میں تاریخی شعور کا احساس بھی ہے،کرداربھی ابھرکرآتے ہیں،موضوع سے مطابقت رکھتی زبان ، مہاجرت کا مسئلہ اور سب سے بڑھ کرخود میں موجود مزاح کی فطری حس کابڑھیا تخلیقی استعمال، یہ وہ خوبیاںہیں، جو انھیں معاصر لکھنے والوں سے ممتاز کرتی ہیں۔اردو کے ممتازنقاد محمد حسن عسکری نے اچھے فکشن کی ایک نمایاں خوبی یہ بیان کی تھی کہ اس میں کردار ابھرکر سامنے آتا ہے،بیپسی کے ناول اس خوبی کے حامل ہیں۔ان کے ناولوں میں کردار نگاری کمال کی ہوتی ہے۔
اس ضمن میں سب سے نمایاں مثال فریدون جنگل والا کا کردار ہے۔کردار نگاری میں ڈکنز اور ٹالسٹائی نے انھیں متاثر کیا۔ہر بڑے لکھنے والے کی طرح بیپسی کاپرانا لکھا بھی معاصر محسوس ہوتا ہے۔ ان کا ناول ''برائیڈ ''عزت کے نام پر قتل کے حقیقی واقعہ سے جنم لیتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ کھیل اب پہلے سے زیادہ ''مقبول'' ہے۔ ''کروایٹرز''کا مرکزی کردار فریدون جنگل والا سوال اٹھاتا ہے: ''میرے بچو، معلوم ہے، دنیامیں سب سے میٹھی چیزکیا ہے؟'' اور پھر خود ہی اس کا جواب کچھ یوں دیتا ہے: ''نہیں، نہیں، نہیں۔'' شفقت سے ہاتھ اٹھاکر جوابات کی بوچھاڑکو روکتے ہوئے وہ مسکراتا،پھر سرہلاتا۔''نہیں چینی نہیں۔
پیسہ بھی نہیں،ماں کا پیار تک نہیں!''اس کے سات بچے اور شام کے کمسن ملاقاتی پھٹی پھٹی آنکھوں اورمنہمک چہروں کے ساتھ آگے کو جھکے۔اس کی گہری اور بھاری آواز میں ایک نغمگی تھی، جس کا زیروبم ان کے کانوں کو بھلا لگ رہا تھا۔ ''دنیا میں سب سے میٹھی چیز تمھاری غرض ہے۔ہاں ، اس کے بارے میں سوچو۔تمھاری اپنی غرض۔تمھاری خواہشات ، عافیت اور اطمینان کا سرچشمہ۔''یہ سوال اور جواب جو بیپسی نے 35برس قبل سپرد قلم کیا، نفسانفسی اور اپنی غرض کے لیے ہر حد سے گزر جانے والے اس معاشرے کے لیے کس قدر حسب حال اور ہم عصر محسوس ہورہا ہے۔ بیپسی کے سارے فکشن کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔
مسکراہٹ ہردم ان کے چہرے پر سجی رہتی ہے۔ معروف ادیب مستنصر حسین تارڑنے حالیہ دنوں میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں کہا کہ اس قدر خراب حالات میں بھی ان کا مسکرانا انھیں بہت کھلتاہے۔طبعاًمنکسرالمزاج ہیں۔ہرایک سے بھلے انداز میں ملنا ان کا طور ہے۔ہر کسی کی بات کان دھر کر سنتی ہیں۔بات دھیمے لہجے میں کرتی ہیں۔صاف گوہیں اور بڑی پرلطف گفتگو کرتی ہیں۔بچوں جیسی معصومیت بھی ہے،چھوٹی چھوٹی با ت پر، پرجوش ہوجاتی ہیں، ہم نے جب بتایاکہ لاہورلٹریچر فیسٹیول میں ان کا سیشن ہمارے خیال میں سب سے کامیاب رہا اور واقعتادھر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور لوگوں کو سیڑھیوں اور راہداریوں میں بیٹھنا پڑا تو پرجوش ہوکر بولیں ''اچھا! واقعی ایسا تھا، ہم پر تو چونکہ روشنی پڑ رہی تھی، اس لیے ٹھیک سے اندازہ نہ ہو سکا۔''
جس روز ان سے ملاقات ہوئی،وہ معروف تعلیمی ادارے ''لمز ''میں مدعو تھیں، نوجوانوں سے اپنے کام کے بارے میں بات چیت سے وہ خاصی سرشارنظرآرہی تھیں۔یہ جان کر کہ بانوقدسیہ نے اپنی کتاب''راہ رواں ''میں ان کا ذکر بڑے خوب صورت پیرائے میں کیا ہے ،ان کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اپنی جس دوست کے گھر میں مہمان تھیں ، ادھر ان سے ملنے پہنچے تو کووں نے شورمچارکھا تھا۔ ان سے از راہ تفنن کہا کہ ادھر واقعتا اتنے کوے ہوتے ہیں یا پھرآپ کی وجہ سے خاص اہتمام کیا گیا ہے۔اس پروہ ہنس دیں اور بڑے پرجوش انداز میں بتایا کہ کسی نے انھیں اگلے روز پینٹنگ دی ہے، جس میں دو بڑے خوبصورت کوے مصورکئے گئے تھے۔ بڑے شوق سے مصوری کا یہ نمونہ ہمیں دکھایا۔
سگریٹ سلگایا، ہم کھانسے تو یہ کہہ کرکہ اس سے آپ کو پریشانی ہورہی ہے، اسے فوراً بجھا دیا ۔ہماری موجودگی میں فون پر ممتاز ادیب انتظار حسین کو بکر پرائز کے لیے نامزد ہونے پرمبارکباد پیش کی ۔موبائل فون پر میسج آیا تو معلوم ہوا وہ اس طریقے سے ناواقف ہیں، جس سے متن پڑھا جاتا ہے۔ پارسی، پنجابی اور پاکستانی کی حیثیت سے اپنی شناخت کرانے والی بیپسی سدھوا نے بتایا کہ لاہور سے ان کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں اور انھیں یہاں آنا بہت اچھا لگتا ہے۔ '' یہاں آکرخود کو بہت توانا محسوس کرتی ہوں۔''1982ء سے امریکا میں مقیم بیپسی سدھوا کی لاہور سے محبت کا اظہاراس شہر کے بارے میں مرتبہ کتابCity of Sin and Splendour: Writings on Lahore سے بھی ہوتا ہے۔
1938ء میںمتمول پارسی گھرانے میں آنکھ کھولنے والی بیپسی سدھوا کی زندگی عزم وہمت سے عبارت رہی ہے۔ چار برس کی عمر میں انھیں پولیو ہوگیا ، جس کے باعث ان کا بچپن عام بچوں سے مختلف گزرا۔ ہم نے ان سے پوچھا ''آپ کو کب اپنے میں معذوری کا احساس ہوا؟''اس سوال پران کا جواب تھا ''معذوری کا احساس ایسے نہیں ہوا کہ ارے! میں لنگڑی ہوں۔ یہ ہوں، وہ ہوں۔11برس کے بعد تو میں بڑی تندرست ہوگئی تھی۔پہاڑ پر چڑھنے لگی تھی۔مگراس بات پررنج ہوتاہے کہ مجھے اسکول نہیں بھیجاگیا۔ یہ سب قسمت میں تھا، اب میں سوچتی ہوں یہ اچھا ہی ہوا اگر میرا بچپن بھی دوسرے بچوں کی طرح سے گزرتا تو ممکن ہے، میں رائٹر ہی نہ بنتی۔بچپن میں تنہائی کا شکار رہی تو کتابوں میں گھل مل گئی۔میری شخصیت باہر نہیں تھی،صرف کتابوں میں تھی۔کتابیں میری دوست بن گئیں۔خاندان کا فرد بن گئیں۔اب مجھے احساس ہوتا ہے ، کہ تنہا اور دوسروں سے الگ تھلگ رہنا میرے لیے زحمت کے بھیس میں رحمت(blessing in disguise) ثابت ہوا۔اگر میں نارمل بچوں کی طرح ہوتی تو فکشن کی طرف نہ جاتی۔ میں بہت grateful ہوں کہ میں رائٹر بن گئی، اگر میں رائٹر نہ بنتی تو میں شاید پاگل ہوجاتی۔''
فوٹو: فائل
بچپن میں آپ نے اس قدر مطالعہ کیا ، توکس کتاب نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟''میرے ہاتھ جو بھی آتا پڑھ ڈالتی تھی۔ چارلس ڈکنز کے وہ ناول جو رونے دھونے والے ہیں، وہ پسند نہیں آئے لیکن ڈکنز کا ''Pickwick Papers ''مجھے بہت اچھا لگا۔اسے پڑھ کر بہت ہنستی تھی۔اٹھارہ برس کی عمرتک کوئی چھ دفعہ اسے پڑھا۔اس سے مجھے مزاحیہ ناول بہت پسند آنے لگے۔''پی جی ووڈ ہائوس'' بھی کافی پسند آیا۔ '' ''لکھنے کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟'' ''اسکول میں گئی نہیں۔ میٹرک پرائیویٹ کیا۔ کنیئرڈ کالج گئی، جہاں سے گریجویشن کیا۔
ادھر میں جب بھی مضمون لکھتی تو ٹیچر تعریف کرتیں۔دوسرے طالب علموں سے کہتیں، دیکھو ! بیپسی نے کیسا لکھا ہے۔اس سے مجھے اعتماد ملا۔تحریر کے ذریعے ابلاغ کی مجھ میں قدرتی صلاحیت تھی لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا ،کتاب لکھوں گی۔کالج میں گھومتی پھرتی تھی۔ میںhorrible طالبعلم تھی۔ ٹیچر مجھے پسند نہیں کرتی تھیں۔بس انھیں میرا لکھا اچھا لگتا۔'' بیپسی کے شوقِ مطالعہ اور کالج میں لکھنے لکھانے سے متعلق تو آپ نے جان لیا۔اب جانتے ہیں، کہ ان کے ہاں فکشن کا سوتا کیسے پھوٹا اور پہلا ناول کس طرح سے لکھا گیا۔بمبئی میں ہونے والی ان کی پہلی شادی ناکام رہی۔دوسری شادی کے بعد وہ ہنی مون کے لیے قراقرم کے علاقے میں گئیں، جہاں کا نظارہ انھیں مسحور کر گیا۔ ان کے بقول ''وہاں کا نظارہ تو اب تک دل پر نقش ہے ۔اس علاقے کے پہاڑ، دریا، موسم، نظارے، سب کچھ۔
ادھر کے نظاروں کے بارے میں واپس آکر ''سول اینڈ ملٹری گزٹ '' میں مضمون لکھے۔ ادھر قیام کے دوران مجھے لوگوں نے اس علاقے کی بہت سی باتیں سنائیں، جو میرے اندر جذب ہوگئیں۔ان باتوں میں پنجاب سے آئی ایک لڑکی کی کہانی بھی تھی، جس کوگھر سے بھاگ جانے پر قبائلی رواج کے مطابق عزت کے نام پر قتل کرکے، لاش دریا میں پھینک دی گئی۔اس واقعہ نے مجھے خاصا جذباتی کر دیا۔ لاہور پہنچی تو دل چاہا کہ اس بارے میں کچھ لکھوں۔ اس لڑکی کے بارے میں کہانی لکھنا شروع کردی،پھر سوچا بچی کے ماں باپ کون تھے۔ کسی سے پہلوانوں کا قصہ سناتو وہ بھی ناول کا حصہ بن گیا ۔اس طرح سے تفصیلات آتی چلی گئیں۔رائٹرکا یہی تو ہے ، وہ جو سنتاہے، اسے جذب کرتا جاتاہے۔یہ کہانی سال ڈیڑھ بھر میں لکھی گئی تو کرداراتنا عرصہ میرے ساتھ زندہ رہا۔
لڑکی جب مرگئی تو میں رونے لگی کہ اس پر اتنا ظلم ہوا ہے، اس لیے اسے زندہ رہنا چاہیے، جب کہ حقیقت میں تو وہ مرجاتی ہے۔مصنف ایک طرح سے کتاب کا خداہوتا ہے، میں نے پھر اسے ٹیڑھا میڑھاکرکے زندہ کیا۔یہ کہانی فوری تاثرکے تحت لکھی گئی۔ بے ساختہ تھی۔اس لیے بہت میچور نہیں تھی، لیکن بہت سادہ سی کہانی ہے، اس لیے لوگوں کو بہت پسند آئی۔ایک دفعہ کہانی شروع کی تو پھر اسے چھوڑ نہیں سکتی تھی۔چپ چاپ لکھتی رہتی، کسی کو بتاتی نہیں تھی۔ کیوں کہ شرم آتی تھی۔سب میرے لکھنے کا مذاق اڑاتے۔''
بیپسی نے لکھنے کے معاملے میں جس شرم کا ذکر کیا ہے، وہ ان کے ہاں پہلا ناول چھپنے کے بعد بھی برقرار رہی ، اس دور کی بیپسی کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں: '' وہ پاکستان کے ایک بہت متمول اور نامور پارسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اس کے باوجود اس کے چہرے پر بے چارگی برستی تھی۔ہم جو اس زمانے میں شہرت کی ابتدائی چکا چوند سے متکبر ہورہے تھے، اسے زیادہ لفٹ نہ کراتے تھے۔ایک روزاس نے مجھے ایک صدمے سے دوچار کر دیا۔ جھجکتے ہوئے بلکہ کسی حد تک شرمندہ ہوتے ہوئے اس نے اپنے ہینڈ بیگ میں سے ایک کتاب نکال کر مجھے پیش کردی''تارڑ صاحب میں نے یہ ناول لکھا ہے جو تقریباً میری آپ بیتی ہے اور اس میں پارسی لوگوں کے رسم ورواج کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔
۔پلیز آپ اسے پڑھ کر بتائیے گاکہ یہ کیسا ہے۔۔مجھے آپ لوگوں کی مانند لکھنا تو نہیں آتا لیکن میں نے کوشش کی ہے۔''اس پارسی لڑکی یا خاتون کا نام بیپسی سدھوا تھا اور نہایت ہی برے کاغذ پر چھپے ناول کا نام تھا ''کروایٹرز''یعنی کوے کھانے والے۔اس شب میری نئی نویلی دلہن بیگم بار بار مجھے سرزنش کرتی تھی کہ ٹیبل لیمپ آف کردو، میں سونا چاہتی ہوں اور میں کہتا تھا صرف پانچ منٹ اور۔۔۔ میں بجھادوں گا۔۔کہ بیپسی کے ناول نے مجھے اپنے حسن بیان اور انوکھے ماحول میں جکڑ کراپنا قیدی بنالیا تھا۔۔چنانچہ ٹیبل لیمپ رات گئے تک روشن رہا۔''
یہ تو خیر جملہ معترضہ تھا، اب ہم دوبارہ بیپسی سے گفتگو کی طرف پلٹتے ہیں۔ہم نے ان سے پوچھا ''برائیڈ تو آپ نے فوری واقعہ سے متاثر ہوکر لکھ لیا لیکن اسے چھپوائے بغیر، وہ ناول جو بعد میں لکھا گیا مگر چھپا پہلے، یعنی ''کرو ایٹرز '' اسے لکھنے کی تحریک کیسے ہوئی؟'' '' برائیڈلکھ کر اتنا مزا آیا کہ لکھنے سے محبت ہوگئی اور سوچا کہ اب لکھنا ہی چاہیے۔ '' لکھاری کے طور پر ان کا ٹیلنٹ سب سے پہلے ڈاکٹر جاوید اقبال نے شناخت کیا۔پارسی کمیونٹی کے بارے میں بیپسی کا لکھا ناول انھیں بہت پسند آیا ، جس کا انھوں نے نہایت عمدہ پیش لفظ بھی تحریر کیا۔ ناول کے لیے '' کروایٹرز ''کا نام بھی انہی کا تجویزکردہ ہے۔ بیپسی آج بھی جاوید اقبال اور ان کی بیگم ناصرہ جاوید اقبال کی بہت ممنون ہیں ، کہ ان کی حوصلہ افزائی کے بغیر ناول چھپ نہ سکتا۔بیپسی کے لیے اس ناول کو چھپوانے کا مرحلہ بھی خاصا صبرآزما رہا۔ اس انگریزی ناول کو چھاپنے کی ہامی کسی نے نہ بھری اور انھیں خود ہی ''کروایٹرز ''کی اشاعت کی کھکھیڑ اٹھانی پڑی۔ ناول چھپنے کے بعد جن لوگوں نے اسے بہت زیادہ سراہا، ان میںممتاز ادیب اشفاق احمد سرفہرست تھے۔
''کروایٹرز''کے سوابیپسی کے جس دوسرے ناول سے پارسی رسم ورواج کے بارے میں آگاہی ملتی ہے، بالخصوص کمیونٹی سے باہر شادی نہ کرنے کے باعث جنم لیتے مسائل کے بارے میں وہ ''AN AMERICAN BRAT''ہے۔ناول میں اپرمڈل کلاس پارسی خاندان کو درپیش مسائل مزاحیہ انداز میں سامنے لائے گئے ہیں۔ اس ناول کی جڑیں بھی مصنفہ پر بیتی میں پیوست ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب ان کی بڑی بیٹی نے انھیں ایک امریکی سے شادی کے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ اور ان کے شوہر بہت اپ سیٹ ہوئے کیونکہ انھیں اندازہ تھا کہ پارسیوں کے ہاں کمیونٹی سے باہر شادی کرنے کو کس قدر غلط خیال کیا جاتا ہے۔
بھارتی نژادکنیڈین ڈائریکٹر دیپا مہتانے ''آئس کینڈی مین''پر''ارتھ''کے نام سے کامیاب فلم بنائی۔دیپا کی تحریک پر بیپسی نے ان کی فلم کوسامنے رکھ کر ناول کا روپ دیا،جس نے ''واٹر''کے نام سے مقبولیت حاصل کی۔اس تجربے کے بارے میں بتاتی ہیں '' دیپا نے کہا کہ اس فلم پر ناول لکھنا ہے اور وہ بھی تین ماہ میں۔میں نے کہا بھی یہ کیسے ہوگا ؟میں تو ناول لکھنے میں تین سال لگادیتی ہوں۔دیپا بہت پیاری سی چیزہے، جس کا جی چاہے جیت لیتی ہے،اس لیے میں نے فلم پر ناول لکھ دیا، جس کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔یہ تو بہت ہوا ہے کہ ناولوں پر فلم بنے لیکن فلم پراچھے ناول کی بہت کم مثال ملتی ہے۔
ناول لکھنے کے لیے فلم کو میں نے متعدد بار دیکھا ، تاکہ اسے ٹھیک طریقے سے conceive کرسکوں۔فلم میں بچے کا کردار مجھے '' آئس کینڈی مین '' کے کردار لینی کی طرح کا لگا تو خیال آیا کہ اس کے ذریعے سے بھی لکھ سکوں گی۔آسانی اس میں یہ تھی کہ پلاٹ اور کردار توپہلے سے موجود تھے، اور مجھے انھیں پھیلانا تھا۔ناول کے سلسلے میں مطالعہ بھی بہت کیا، خاص طور سے بیوہ عورتوں سے متعلق ہندوستان میں کیا رسم ورواج رہے ہیں۔ ان کے بارے میں معلومات کو ناول میں استعمال کیا، کیوں کہ فلم میں توآپ اس سارے پس منظر کو بیان نہیں کرسکتے۔دکھ کی بات ہے کہ بیوہ عورتوں کے ساتھ انڈیا میں اس قدربرا سلوک ہوتا ہے۔چیلنجنگ کام تھا لیکن خوشی ہے کہ اچھے انداز میں ہوگیا۔چار ماہ میں اسے مکمل کیا۔''
لاہور سے متعلق مرتب کردہ انتھالوجی کا ذکر چھڑا تو انھوں نے بتایا '' لاہور میں جو رہتا ہے، اسے اس شہر سے محبت ہوجاتی ہے۔ لوگوں سے مضامین لکھوانے کا بار بار تقاضا کرنا۔انھیں جمع کرنا۔ خاصا مشکل کام تھا۔اس کام کوlabour of love کہہ سکتے ہیں۔ اس میں تین برس لگے، اتنے عرصے میں ناول لکھا جاسکتا تھا۔''1991ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز حاصل کرنے والی بیپسی سدھواکے فکشن میں مزاح ایک اہم عنصر کی حیثیت سے سامنا آتاہے۔ان کا بتانا تھا کہ ان کے ہاں فطری طور پر حس مزاح ہے، اور امریکا میں ایک امریکی خاتون نے ان کا ہاتھ دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ ان میں مزاح کی بڑی زبردست حس ہے۔
ہم نے ان سے جاننا چاہا کہ ''آپ روایتی پارسی مزاح کی جو بات کرتی ہیں، اس سے کیا مراد ہے؟ '' ان کا جواب تھا ''اس سے مراد یہ ہے کہ پارسیوں میں باتھ روم مزاح بہت ہوتا ہے۔sexual humour ہوتا ہے۔اور اس طرح کا مزاح بھی ہوتا ہے اوسالے! ادھر آئو۔کراچی میں یہ ہوتا ہے ، بمبئی میں نہیں۔پارسی کمیونٹی بڑی مزاحیہ ہے۔اپنے آپ پر خوب ہنستی ہے تو وہ سب کچھ بھی شامل تھا۔ '' بیپسی سدھوا کے بقول ، وہ باتیں بھی زیادہ کرتی ہیں، اور لکھنے میں بھی وہ شروع کردیں تو وہ پھر جلدی ختم نہیں ہوتا ، اس لیے وہ خود کو فطری طور پر ناول نویس قرار دیتی ہیں، افسانہ نگار نہیں۔ اس لیے ہم ان کی کہانیوں کے مجموعےTheir Language of Loveمیں بھی طویل کہانیاں دیکھ سکتے ہیں۔
انگریزی کے نئے پاکستانی لکھاریوں کی شہرت سے وہ خوشی محسوس کرتی ہیں، اور اس تاثر کو رد کرتی ہیں کہ وہ کسی خاص ایجنڈے اور مارکیٹ کے تقاضوں کے پیش نظر قلم اٹھاتے ہیں۔ بپسی سدھوا کے ذہن میں کہانیاں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن دوبار کی سرجری سے ان کی ہمت میں کمی آئی ہے، لیکن مستقبل میں ان کا قلم سے رشتہ استوار رکھنے کا ارادہ ضرور ہے۔ہم نے ان سے پوچھا کہ اکثر فکشن نگار خود نوشت نہ لکھنے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ خود پر بیتی ان کے فکشن میں آگئی ہے، کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہے؟اس پر بپیسی نے بتایا '' بچپن تو خیر سارا فکشن میں آ گیا ہے لیکن اگر آپ بیتی لکھوں تو اس میں بہت سی چیزیں آجائیں گی جن کا فکشن میں ذکرنہیں۔لیکن آپ بیتی میں بھی خوبصورتی تو ہونی چاہیے۔ صرف واقعات بیان کردینے سے تو بات نہیں بنتی۔''
بیپسی کوٹالسٹائی کے ''وار اینڈ پیس''سے زیادہ''اینا کارنینا'' نے متاثرکیا۔کہتی ہیں ''حیرانی ہوئی، اس نے عورت کو اتنا سمجھ لیا تھا، ایسے لگتاہے، جیسے سب ان کے اندرسے نکل رہا ہے۔ لکھنے والا ایسے کرلیتا ہے۔میں نے بھی فریڈی کا کردارآرام سے کر لیا۔یوں بھی عورتوںمیںمردانہ پن اور مردوںمیں عورت پن آجاتاہے۔ ''حالیہ برسوں میں ،جس کتاب نے انھیں متاثر کیا وہ ایم جی وسانجی کی کتاب"The In-Between World of Vikram Lall" ہے۔وہ ایک ذاتی حوالے سے بھی وسانجی کی ممنون ہیں، کہ جرمنی میں ایک بار ان کا پاسپورٹ گم ہوگیا تو اس مشکل گھڑی میں اس ادیب نے بیپسی کا ساتھ دیا۔بھائی منو بھنڈاراکی موت نے انھیں توڑ کر رکھ دیا۔یہ وہ غم ہے، جو انھیں بھلائے نہیں بھولتا۔ان کے جانے کے بعد انھوں نے بھتیجے کے ساتھ مل کربھائی کی تحریروں کو یکجا کرکے چھپوانے کا اہتمام کیا۔
ان کے بقول''بھائی کے جانے سے زندگی سے بہت زیادہ لطف چلا گیا۔انھوں نے میرے لیے لاہور میں ''کروایٹرز'' کے نام سے گیلری قائم کی وہ بھی ختم ہوگئی۔ان کی کمی مجھے بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔''یوسٹن میں مقیم بیپسی سدھوا اپنے شوہر نوشیروان، اور بچوں ، مہر، خداداد اور پری زاد کا ذکر بڑی محبت سے کرتی ہیں، جن کی حوصلہ افزائی اور تعاون انھیں حاصل رہتا ہے۔بیپسی کے والدین کو موسیقی کا شوق تھا ، وہ ریڈیو پر گانے بڑے شوق سے سنتے تھے، اس سے انھیں بھی موسیقی سے دل چسپی پیدا ہوگئی، جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی آئی ہے تاہم وہ قوالیاں بالخصوص غلام فرید صابری کی آواز میں اب بھی شوق سے سنتی ہیں۔
پارسی کمیونٹی کے افراد کی روز بروز گھٹتی تعداد کے بارے میںپوچھنے پر بتایا ''پارسی چھوٹی سے قوم ہے۔امریکا میںتو ہر بڑے شہر میں پارسی سینٹر بنادیا گیا۔رونق رہتی ہے۔یہاں لاہور میں جب میں پچھلی بارپارسی کالونی میں گئی تو ادھر بچے ہی نہیں تھے، سارے بڑے تھے۔باہر پارسی سینٹر بہت ہیں۔ شادیاں بھی باہر ہورہی ہیں۔ یہ بڑی پیاری سی کمیونٹی ہے، اس کو رہنا چاہیے،میرے خیال میں یہ بہت جلدی ختم ہونے والی چیزنہیں ہے۔'' بیپسی سدھوا کے نزدیک، زندگی میں بہت ساری چیزوں کی کمی تو رہتی ہے، لیکن زندگی جیسے گزرتی ہے، اس کو ویسے ہی ہضم کرنا پڑتا ہے۔
کچھ ''کروایٹرز''کے بارے میں۔ فوٹو: فائل
ناول کے خیال نے کیسے جنم لیا؟
میرے والد اور والدہ کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔والد بڑے سخت تھے۔ایک بار ماں نے بتایا کہ ' تمھارے والد ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے،شادی سے قبل ایک بار انھوں نے مجھ سے پوچھاتھا کہ تمھیں کون سا رنگ پسند ہے تو میں نے کہہ دیا کہ نیلاتو وہ پھر مجھے نیلے کاغذپر بڑے پیارے پیارے خطوط لکھتے رہے۔'میں نے ان کے تعلقات میں کبھی محبت نہیں دیکھی تھی۔ماں کی طرف سے توبہت تھی لیکن باپ کی طرف سے بالکل نہیں۔اس بارے میں کہانی لکھنے کا ارادہ کیا، جب لکھنا شروع کیا تو میرے ساتھ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ میں جو لکھنا چاہتی ہوں ، وہاں پہنچتے پہنچتے پوری کتاب بن جاتی ہے۔سارے ناولوں میں یہی ہوا۔پھر دوسرے کردار جربانو اور فریڈی وغیرہ بھی آگئے۔
پارسی کمیونٹی کا ردعمل
ناول لکھتے وقت بالکل خیال نہیں تھا کہ پارسی کمیونٹی اس سے ناراض ہوگی۔ناول چھپنے کے بعد پارسی کمیونٹی کی طرف سے ردعمل بالکل نہیں ہوا۔پھرکتاب کی تقریب رونمائی میں بم کی افواہ پھیلی ، جس سے بہت صدمہ ہوا۔کیوں کہ ادھر کوئی بندہ بھی متنازع نہیں تھا۔بعد میں معلوم ہواکہ افواہ پارسیوں نے پھیلائی تھی۔ کافی مدت بعد پتا چلا کہ فیروز سنز کے ایک ملازم جو پارسی تھے،انھوں نے لوگوں کو بھڑکایاتھا۔ سب ان کو پہچانتے اورفیروز سنز میں ان سے مشورہ کرکے کتابیں لیتے تھے۔ان سے جو بھی ''کرو ایٹرز'' مانگتا،وہ کہتے، چھی! چھی! چھی!وہ کتاب مت پڑھیں۔بہت گندی کتاب ہے۔اس میں گالیاں ہیں۔نہ جانے اس میں پارسیوں کے بارے میں کیا کیا ہے۔اس سے پارسی کمیونٹی کو لگا، جیسے میں ان کا مذاق اڑا رہی ہوں۔
پارسیوں سے متعلق فکشن کیوں نہیں لکھا جاتا تھا؟
مجھ سے پہلے فکشن میں کسی نے پارسیوں سے متعلق کتاب نہیں لکھی۔نہ ہی کوئی پارسی کردارہوتا۔میرے بعد اورلوگوں نے ناولوں میں پارسی کردار ڈالے۔فردوس کانگااور بومن ڈیسائی نے مجھے بتایا کہ انھیں''کروایٹرز''سے پہلے کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا کہ پارسی بھی اس قابل ہیں کہ ان پر لکھا جاسکے۔ پارسیوں کے بارے میں مجھ سے قبل نہ لکھے جانے کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ پارسیوں کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔دوسرے ان کے بارے میں لکھتے ہوئے لوگ گھبراتے بھی تھے کہ پتا نہیں یہ کیسی کمیونٹی ہے۔سب سے زیادہ پارسی بمبئی میں ہیں۔ان کی ریپورٹیشن بہت اچھی تھی۔وہ چیرٹی بھی بہت زیادہ کرتے تھے۔اس لیے لکھنے والے ان کی برائی اور دل آزاری نہیں کرنا چاہتے تھے۔جب دیکھا کہ میں نے اتنے مذاق کئے ہیں تو دوسروں نے بھی مذاق کرنا شروع کردیا۔
بیپسی کا پسندیدہ ناول
یہ بتانا کہ اپنی کتابوں میں سب سے زیادہ کون سی پسند ہے، ایسے ہی ہے، جیسے یہ بتانا کہ اپنے بچوں میں کون سا بچہ زیادہ پسند ہے، آپ کی بات ٹھیک ہے کہ کوئی بچہ زیادہ پسندبھی ہوتا ہے تو اس لحاظ سے کچھ کچھ کروایٹرز مجھے باقیوں سے زیادہ پسندہے۔اب بھی پڑھتی ہوں تو خوش ہوجاتی ہوں۔مجھے بہت خوشی ہے کہ اس ناول کا اردو میں ''جنگل والا صاحب'' کے نام سے ترجمہ ہوگیا ہے۔پچھلی بار لاہور آئی تو بانو قدسیہ نے زور دے کر کہا کہ اس کتاب کا ترجمہ ضرور کرائو دوسرے ناولوں کا بعد میںہوتا رہے گا۔محمد عمر میمن نے بڑی ذمہ داری سے یہ ترجمہ کیا۔مزاح کا ترجمہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ ترجمے کے دوران مسلسل مجھ سے رابطے میں رہے۔میں اردو بول اور سمجھ تو لیتی ہوں لیکن اردو پڑھ نہیں سکتی، جس کی وجہ سے میرے دوست طارق قریشی اس ترجمے کا مسودہ مجھے پڑھ کر سناتے تھے۔
بمبئی میں بیتے پانچ برس اور''کروایٹرز''
میری پہلی شادی بمبئی میںہوئی، جو کامیاب ثابت نہ ہوئی۔بڑی عجیب شادی تھی۔اٹھارہ برس کی تھی، اور اس عمر میں بچی شادی کے لیے تیار ہوتی ہے، عمرایسی تھی کہ محبت میں گھر گئی، شوہر میرے تو نہیں گھرے۔شادی سے میرے والد بہت اپ سیٹ تھے۔مجھے یاد ہے، انھوں نے میری والدہ سے کہا بھی کہ ہماری بیٹی پھینک دینے والی تو نہیں جوتم یہ کررہی ہو۔میری والدہ نے شادی طے کرتے وقت اتنا خیال نہیں کیا۔پارسی چھوٹی سے قوم ہے، رشتہ ڈھونڈنے کا بھی مسئلہ رہتا ہے، لیکن پھر بھی والدہ اگرتوجہ دیتیں تو کراچی میں کافی پارسی تھے، خیرجو بھی ہوا یہ بھی ایک طرح سے زحمت کے بھیس میں رحمت ہی ثابت ہوا کہ میں ادھر رہ کر اپنی قوم کو اتنے اچھے طریقے سے دیکھ سکی۔پانچ برس ادھر گزارے تو اس سے پارسی قوم میرے اندر جم گئی اور میں اسے بہت زیادہ سمجھنے لگی اور کافی کچھ ''کروایٹرز'' میں آگیا ہے۔
زندگی نہیں دیکھی تھی۔خاموش طبع تھی۔شرماتی تھی۔بمبئی میں ہرروز ڈانس پارٹی ہوتی،میں ان چیزوں سے بہت گبھراتی تھی۔ میرا پائوں گھوم جاتا، اور گھٹنا سوج جاتا تو میرے شوہرکہتے ، ہر وقت پارٹی ہوتی ہے، تم کچھ کربیٹھتی ہو۔ ایک دن انھوں نے کہا کہ 'تم نہ چل سکتی ہو، نہ بات کرسکتی ہو، تم آخر کر کیا سکتی ہو؟ بچپن میں تنہا رہنے کی وجہ مجھے بڑا احساس کمتری رہا کہ میں بہت زیادہ بدصورت ہوں۔پاکستان میں تو مرد بھی نہیں ملتے تھے تو جب تک مردوں سے ملنا نہ ہو اس وقت تک اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا ہیں۔بمبئی میں مجھے پہلی بار پتا چلا کہ میں Bad looking نہیں ۔ جوانی میں، میں خوبصورت ہوا کرتی تھی، اب تو نہیں رہی۔شوہر سے تعلقات اچھے نہیں رہے لیکن بمبئی میں رہنے کے مجھے بہت فائدے ہوئے۔
ناول
The Crow Eaters (1978)
The Bride (1982)
Ice Candy Man, (1988)
An American Brat (1993)
Water (2006)
کہانیاں
Their Language of Love(2013)
انتخاب
City of Sin and Splendour : Writings on Lahore (2006)
تقسیم کے وقت خواتین پر سب سے زیادہ ظلم سکھوں نے کیا
تقسیم کے موضوع پرناول لکھنے سے قبل صرف خوشونت سنگھ کی ''ٹرین ٹو پاکستان'' پڑھ رکھی تھی۔''آئس کینڈی مین'' مشکل کتاب تھی۔ جانبدار ہونے اورکسی خاص طرف جھکائوکے سلسلے میں احتیاط کا معاملہ نہیںتھا،کیوں کہ ادیب وہی لکھتا ہے، جو اس کے اندر سے آتا ہے اور جس پر اس کا دل ہوتا ہے۔ناول کے شروع کے حصے کو آپ سوانحی کہہ سکتے ہیں۔فسادات کے وقت میں لاہور میں تھی۔ مجھے یاد ہے، اور میں نے ناول میں بھی بیان کیا ہے فسادی ہمارے ہاں بھی حملے کی نیت سے آئے تھے ، کیوں کہ باہر بھنڈارا لکھا تھا ، اس سے انھوں نے یہ سمجھا یہ بھی ہندو ہیں وہ تو ہمارے ملازم امام دین نے انھیں بتایا کہ ہم ہندو نہیں ، پارسی ہیں اور لازمی نہیں کہ بھنڈارا ہندو ہی ہوں، اس پر وہ چلے گئے۔ لاہور میں لوگ مارے گئے۔مکان اور دکانیں لوٹ لی گئیں۔
chaos جب ہوتا ہے تو اس میں حرص بھی شامل ہوجاتی ہے۔اب یہ حرص ہی ہے کہ کسی کی عورت چرالیں، گھر لوٹ لیں ، دکان پر قبضہ جما لیں۔تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات میں مذہب کا ہاتھ تو تھا ہی لیکن ساتھ میں حرص کا عنصربھی شامل تھا۔عورتوں پر بہت ظلم ہوا۔سکھوں نے سب سے بڑھ کر ظلم کیا۔لکھنے والے کے ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب وہ لکھ رہاہوتو جس چیز کی اسے ضرورت ہو، وہ اس کے ہاتھ آجاتی ہے، جب میں ناول لکھ رہی تھی توپنڈریل مون کی کتاب"Divide & Quit"پڑھنے کو مل گئی،جو سکھ رجمنٹ کے انچارج تھے۔اس نے لکھا کہ عورتوں پرمسلمانوں نے بھی حملے کئے، جو جنسی حملے تھے مگر سکھوں نے تو بہت زیادہ برا کیا اور عورتوں کے پیٹ کاٹے، چھاتیاں کاٹیں۔
فلم گاندھی میں جناح صاحب کو بہت غلط پورٹرے کیا گیا
میری بیٹی نے فلم گاندھی دیکھی تو اس نے مجھ سے کہا کہ دیکھیں! جناح صاحب کو کیسا غلط پورٹرے کیاگیاہے۔میں نے سوچاکہ وہ اس بچی کے لیڈر ہیں۔بانیٔ پاکستان ہیں۔اس وقت ذہن میں بات بیٹھ گئی کہ میں جناح صاحب کی صحیح تصویر پیش کروں گی۔وہ بڑے سیدھے آدمی تھے، جنھوں نے ہمیشہ آئین کا احترام کیا۔ان کے بارے میں کتب پڑھیں،جس میں ایچ ، ایم سیروائی کی کتاب نے سب سے زیادہ متاثر کیا،جس میں جناح صاحب کے بارے میں صحیح صحیح بیان کیا گیاہے۔فلم گاندھی میں ان کے ساتھ زیادتی ہوئی اور انھیں غلط پورٹرے کیا گیا۔گاندھی جی کا احترام کرتی ہوں، ناول میں ان کی تضحیک نہیں کی، جولکھا ہے مزاح میں ہے، پارسیوں میں جیسامزاح ہوتاہے وہ کردیا ، لیکن بالکل درست کیا۔
یہ بھی تو ہے کہ وہ سب ایک بچی بیان کررہی ہے۔مجھے یاد ہے بچپن میں گاندھی جی لاہور آئے ۔وہ جہاں ٹھہرے ، میری والدہ انھیں دکھانے کے لیے مجھے لے گئی تھیں، میں ان کو دیکھ کر بڑی حیران ہوئی کہ کالی سی چیز زمین پرننگی سی بیٹھی ہے اور اردگرد خواتین ہیں تو میں نے کہا کہ اچھا !تو گاندھی جی یہ ہیں۔لوگوں نے کہا کہ میں نے غلط لکھا ، وہ تو کبھی لاہورگئے نہیں، لیکن میں کیسے مان لوں میںنے تو انھیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔''آئس کینڈی مین '' امریکا میں'' کریکنگ انڈیا'' کے نام سے اس لیے چھپی کہ ادھر منشیات کادھندہ کرنے والوں کو بھی آئس کینڈی مین کہا جاتا ہے، اس لیے خیال تھا کہ کہیں لوگ اسے منشیات سے وابستہ لوگوں کے بارے میں کتاب نہ سمجھیں۔
فلم بھی اس بدلے ہوئے نام پر بنی۔ کروایٹرزبرصغیر میں زیادہ مقبول ہے، انگلینڈ میں اب بالکل نہیں،وہ سمجھتے ہیں، کہ مزاحیہ کتاب ہے۔پہلے لندن سے چھپی تو بڑی تعریف ہوئی، پھر برائیڈ چھاپی۔آئس کینڈی مین چھاپی تو دوسرے رائٹرزبہت جل گئے۔ انھوں نے کافی تنقید کی تو اس کے بعد انگلینڈ سے میری کوئی کتاب نہیں چھپی۔آئس کینڈی مین امریکا سے جب ''کریکنگ انڈیا'' کے نام سے چھپی تو اس کی بہت زیادہ تعریف ہوئی۔اس کو مانا گیا اور اسے یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے۔دیپا مہتا نے اس ناول پر ارتھ کے نام سے فلم بھی بنائی، تو اسے بھی خاصا سراہا گیا۔
بیپسی سدھوا میرے لیے شروع میں ایک نام تھا۔ ایک چھوٹا سا بادل جو افق پر کہیں معلق تھا۔ پھر ہولے ہولے یہ بادل تتر کھمبی بدلی میں منتقل ہوا۔ دیکھتے دیکھتے یہ گھٹا ٹوپ بادل بن گیا جو ابھی برسا کہ برسا اور پھر اس نے سارے لاہور پر چھائوں تان لی۔ سورج کو بھی نگاہوں سے اوجھل کر دیا۔ بیپسی سدھوا بھی آئیوری مرچنٹ کی طرح اپنے کام سے پہچانی جانے لگی ۔لیکن شروع میں بیپسی صرف ایک غیر معروف نام تھا جو کبھی کبھی خاں صاحب استعمال کیا کرتے۔ ایک دن وہ میرے پاس The Crow Eaters لے کر آئے اور کہنے لگے، یہ کتاب پڑھو۔ پارسی کمیونٹی پر اس سے بہتر کوئی ادب میری نظر سے نہیں گزرا۔
کتاب غلام علی اینڈ سنز کی چھپی ہوئی تھی، کاغذ معمولی تھا اور ابھی اس کا سرورق بھی غالباً نہ چھپا تھا۔ کتاب میں نے بڑی بدمعاملگی سے شروع کی لیکن جلد ہی میں نے اسے پوری توجہ، انہماک اور جی جان سے پڑھنا شروع کر دیا۔ اسی طرح جب ''آتش رفتہ'' ''داستان گو'' میں چھپنے کے لیے آئی تھی، یہ کتاب مجھے حیران کر گئی تھی۔ یہ تب کا واقعہ ہے جب خاں صاحب اردو سائنس بورڈ میں ڈائریکٹر تھے۔ ہم سمن آباد سے نقل مکانی کرکے ماڈل ٹائون میں رہائش پذیر ہوئے۔ ان دنوں اردو بورڈ کا دفتر گلبرگ میں مین مارکیٹ سے ملحق اور مین سڑک سے منسلک تھا۔
اس کی مالکہ بائی جی مسز بھنڈارا تھیں۔ خاں صاحب جلد ہی بائی جی کے چہیتے بن گئے اور ان ہی کی وساطت سے ہم بیپسی سدھوا کے نام سے متعارف ہوئے۔ پھر دو چار ملاقاتوں کے بعد خاں صاحب نے بیپسی کو اس بات پر اکسانا شروع کر دیا کہ کتاب کو مغرب میں کسی معروف ادارے سے چھپنا چاہیے جو اسے مغربی دنیا سے متعارف کرائے۔ جب خاں صاحب بیپسی کو اکساتے تو بائی جی عموماً ڈانٹ کے لہجے میں کہتیں ''اوہ اشفاق بابا تو کاہے کو اس کو غلط راستے پر ڈالتا ہے۔ دو چار کہانیاں میرے تیرے سے سن کر لکھ لی ہیں تو اس کو اتناImportance نہ دے۔'' لیکن خاں صاحب اشتعال دلاتے رہے، ان کا خیال تھا کہ یہ کتاب ضرور تہلکہ ساز ہوگی...