کیا امریکا واقعی چین سے معاشی جنگ ہار گیا
امریکا اور چین کی تجارتی جنگ کوئی نئی نہیں۔ چین نے خاموشی اور تحمل کے ساتھ دنیا بھرکی مارکیٹوں میں سرائیت کی ہے۔
لیجیے! آخرکار ڈونلڈ ٹرمپ نے چین سے معاشی جنگ ہارنے کا اعتراف کر ہی لیا۔ دیر سے ہی سہی لیکن اچھا ہوا کہ انھوں نے حقیقت کو تسلیم توکیا۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے یہ معاشی جنگ برسوں سے امریکا کی نمایندگی کرنے والے احمق اور نا اہل لوگوں کی وجہ سے ہاری ہے۔
یہ بیان دے کر اگرچہ انھوں نے خود کو اپنے سابقین سے معتبر اور دانا ثابت کرنے کی ایک بے تکی سی کوشش ضرورکی لیکن ٹرمپی تاریخ گواہ ہے کہ وہ تو نا اہلی میں اپنے سابقین سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ دنیا ان کی ذہانت کا اعتراف ضرورکرتی، اگر انھوں نے ''امریکا سب سے پہلے'' کے دلفریب نعرے کی تکمیل میں دوسری قوموں سے آنکھیں نہ پھیری ہوتیں۔ دنیا بہت تیزی سے تبدیلی کے مراحل طے کر رہی ہے۔
اب وقت کسی کے لیے رکتا نہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کے قدم جہاں جہاں سے بھی لڑکھڑائے اس کو سنبھلنے کی مہلت دیے بغیر چین نے تیزی سے وہ جگہ سنبھال لی۔ ایشیا اور افریقا میں تو چین عرصۂ دراز سے رچ بس چکا ہی ہے، لیکن لاطینی امریکا جیسے خطے میں جہاں امریکی اثر و رسوخ کی ایک طویل تاریخ موجود ہے، وہاں چین کے قدموں کا جم جانا اور امریکا کو پچھاڑنے میں کامیاب ہو جانا حیرت انگیز امر ہے۔
ٹرمپ نے تو صدارت سنبھالتے ہی میکسیکو کے ساتھ دیواریں اونچی کرنے کی باتیں کیں۔کیوبا کو دی جانے الی امداد میں کٹوتی کی، وینیزویلا کو تنہا چھوڑا، ہنڈورس اور کولمبیا کو دی جانے والی امداد بند کی، نافٹا کی بقا کو خطرے میں ڈالا، میکسیکو کی سرحد پر جنگی حالات پیدا کیے گئے اور ایسے متعدد ایسے فیصلے کیے جنھیں لاطینی امریکا میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ لیکن چین نے ہر بار کی طرح اب بھی اس خالی جگہ کو فوراً ہی بھر دیا۔ اس طرح لاطینی امریکا میں سالوں سے چین کی موجودگی پر پائے جانے و الے خدشات اور اٹھنے والے سوالات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔
امریکا اور چین کی تجارتی جنگ کوئی نئی نہیں۔ چین نے خاموشی اور تحمل کے ساتھ دنیا بھرکی مارکیٹوں میں سرائیت کی ہے۔ چین کا کُھلے دل سے استقبال کرنے کی وجہ ایک طرف چین کی پُرامن پالیسیاں ہیں تو دوسری طرف اس کی سیاسی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی ہے۔ سب سے اہم امر یہ کہ چین نے امریکا کی طرز پر دنیا بھر میں ملٹری بیس قائم نہیں کیے بلکہ معاشی میدان وسیع کیے ہیں۔ لہٰذا ریاستیں اپنی بقا کے لیے چین کو خطرہ نہیں سمجھتیں۔ آج دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں چین اپنی اقتصادی برتری کا سکہ جمانے میں کام یاب نہیں ہوا۔ لاطینی امریکا میں بھی چین نے بہت تیزی سے امریکا کو پیچھے دھکیل کر امریکی معیشت کا گلا گھونٹ دیا۔
ایشیا کے بعد لاطینی امریکا چین کا سب سے بڑا معاشی پڑائو قرار پایا ہے۔ خاص طور پر برازیل، پیرو اور چلی سب سے بڑے تجارتی مراکز ہیں۔ تعمیراتی کام یہاں زور شور سے جاری ہے۔ صرف سانتا کروز پراجیکٹ پر ہی چائنا ڈیولپمینٹ بینک نے 4.7ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اٹلانٹک سے لے کر پیسیفک تک ٹرانسپورٹیشن کے لیے ریلوے لنک کا قیام یہاں چین کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔
لاطینی امریکا میں چین کی موجودگی طویل المدتی اسٹریٹجک گیم کا ایک حصہ ہے۔ گزشتہ کئی سال سے امریکا نے اس خطے کو بری طرح نظرانداز کیا ہوا تھا اور ٹرمپ کے دورحکومت میں تو بچے کھچے تعلقات بھی ٹرمپی نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے ورنہ ماضی قریب تک لاطینی امریکا کے ممالک امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شریک تھے۔ امریکا کی عدم توجہ کا فائدہ چین نے یہاں بھی بہ خوبی اٹھایا۔ فائدہ اٹھانا بھلا چین سے بہتر کسے آتا ہے۔
2025ء تک چین نے یہاں 250 بلین ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری اور 500بلین ڈالر کی دو طرفہ تجارت میں سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ چین کی یہاں دلچسپی کا سب سے بڑا محور چلی، اکواڈور اور ارجنٹینا میں قدرتی وسائل، ذرایع نقل وحمل اور توانائی کے شعبہ جات ہیں۔ لاطینی امریکا کی معاشی ترقی ان کے سیاسی غموں کا مرہم بھی بن رہی ہے۔ یہ الگ بات کہ امریکا کو یہ ترقی پریشانی میں مبتلا کر رہی ہے۔ چین کی معاشی دوڑ کو دیکھتے ہوئی وہ پیش گوئیاں درست ثابت ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جن میں کہا جاتا رہا کہ آیندہ پچاس سال میں معاشی طاقتوں کے توازن میں ڈرامائی تبدیلیاں آئیں گی اور اب وہ وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر میں برآمدات کرنے والے227 ممالک کی فہرست میں چین پہلے نمبر پر ہے۔
چین پُرامن طریقے سے ابھرنے کے باوجود امریکا کی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان کسی بھی مسلح تصادم یا جنگ کا خطرہ نظراندازکیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں تک معاشی ترقی کو مطمع نظر رکھنے والے چین نے اب امریکا کی ٹکر پر عسکری تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔ امریکا نے چین کے ساتھ جنگ کے امکان کو کبھی رد کیا ہی نہیں۔ مقابلے کی اس فضا نے چین کی توجہ معاشی میدان کے ساتھ ساتھ دفاعی میدان کی طرف بھی موڑ دی ہے۔
امریکی پالیسی سازوں نے چین کو قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا تصادم کا دروازہ کسی بھی وقت کھلنے کے سو فی صد امکانات موجود ہیں۔ یہ اپنی جگہ سچ ہے کہ امریکا کو اب بھی عسکری میدان میں چین پر سبقت ہی حاصل ہے، اسی لیے وہ چینی ترقی سے خائف ہوکر ان تنازعات کا خوب خوب فائدہ اٹھاتا ہے جو چین کے دیگر اقوام کے ساتھ موجود ہیں اور یہ صرف اور صرف چین پر اپنی برتری ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش ہے۔
گزشتہ دنوں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ نے لاطینی امریکا کا دورہ کیا۔ شاید ان کو خیال گزرا کہ ایسا نہ ہو پورا لاطینی امریکا چین کی گود میں جا گرے اور امریکا کے کھانے کو کچھ بھی باقی نہ بچے۔ انھوں نے میکسیکو، ارجنٹینا، کولمبیا اور پیرو کا دورہ کیا اور اپنی تقاریر میں وہاں کے عوام کو خبردار کیا کہ چین معاشی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لاطینی امریکا کو اپنے مدار میں کھینچ لینا چاہتا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا کہ چین لاطینی امریکا سے اس کی پوری پوری قیمت وصول کرے گا۔
ہوسکتا ہے یہ بات درست ثابت ہو۔ عین ممکن ہے کہ چین غلبہ حاصل کرکے وسائل پر قابض ہی ہونے کا ارادہ رکھتا ہو، لیکن یہ نصیحت کرنا امریکا کو زیب ہی نہیں دیتا، کیوں کہ پوری دنیا کی طرح لاطینی امریکا میں بھی امریکا نے اپنی سلامتی کے لیے ہمیشہ دوسروں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔ اب امریکا کے لیے اگر لاطینی امریکا ایک بوجھ بن گیا تھا تو ان کے لیے بھی امریکی پالیسیاں سر درد کے سوا کچھ نہ رہی تھیں۔ ملٹی پولر گلوبل اکانومی سے لاطینی امریکا نے بھی فائدہ اٹھانا چاہا تو کیا برا چاہا؟ لیکن امریکا پر لاطینی امریکی ممالک کا انحصار کم ہوجانا سپرپاور کے لیے انتہائی تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ لاطینی امریکا اپنے خطے میں جنم لینے والے تمام تنازعات کا ذمے دار امریکا کو گردانتا ہے، اسی لیے ہاں کے باشندے چین کو امن کی علامت سمجھتے ہوئے اس کی یہاں موجودگی پر شکر ادا کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ لاطینی امریکا میں چین نے جو منصوبے شروع کر رکھے ہیں ان کی تکمیل سے چین دنیا میں کبھی نہ ختم ہونے والی طاقت حاصل کر لے گا۔ بجا! اس خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مستقبل یقیناً چین کا ہی ہے۔ امریکا سے تو ایک طویل مدت بعد دنیا ہاتھ چھڑانے کے لیے تیار ہے لیکن چین کی گرفت سے نکلنا اقوام عالم کے لیے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
پھر بھی چین کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو تھامنے کے سوا اب کوئی دوسرا حل نہیں۔ ناعاقبت اندیش قیادت، کرپشن اور بودی معاشی منصوبہ بندی کی وجہ سے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے عوام ایک عرصے سے مشکلات جھیل رہے ہیں۔ ان کو چین اس وقت مسیحا کے سوا کچھ نہیں دکھ رہا۔ چین نے یہاں جو پراجیکٹس شروع کیے ہیں ان کے لیے یہ خطے تکنیکی اور مالی اعتبار سے نااہل ہیں۔ امید کے ساتھ چین پر اس قدر انحصار بہت سارے خدشات اور سوالات کو بھی جنم دے رہا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ممالک آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک جائیں، لیکن ان کے لیے شاید یہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔