اندھیرا بڑھ رہا ہے
دنیاوی و دینوی علم کی ترویج و ترقی کی کمی نے ماحول میں حبس اور گھٹن کا احساس پیدا کردیا ہے۔
برائیاں ہر روز پروان چڑھائی جاتی ہیں، کبھی ناقص تعلیم و تربیت اور کبھی دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی کارروائیوں کی بنا پر وہ بے روزگار اور بے سہارا لوگوں کو محض پیسوں کا لالچ دے کر بڑے گھرانوں کے نوجوان مثبت کاموں کو خیرباد کہہ کر منفی سرگرمیوں کو اپنا لیتے ہیں اس انداز فکر سے معاشرہ برائیوں کی آماجگاہ بن کر سامنے آتا ہے۔
دنیاوی و دینوی علم کی ترویج و ترقی کی کمی نے ماحول میں حبس اور گھٹن کا احساس پیدا کردیا ہے۔ مذہب کے ہی حوالے سے دیکھ لیجیے، کتنے نئے نئے عقائد سامنے آئے ہیں، اسلام کی روح کو سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جا رہی ہے۔ کتاب ضابطہ حیات سے مدد لینے کی بجائے ان لوگوں کو رہنما بنا لیا جاتا ہے جو خود تاریکی میں ہیں، یہ نوسر باز مذہب کے حوالے سے نئے نئے شوشے چھوڑتے ہیں، لیکن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے۔
گزشتہ دنوں ایک ای میل آئی، نعوذباللہ انھوں نے مذہبی حوالے سے گستاخی کی، میں نے انھیں جواباً کہا کہ بھائی! اگر آپ کو مسلمان کہلانے پر شرمندگی ہے اور یہ مذہب آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہے تو منافقانہ رویہ اپنانے سے بہتر ہے کہ آپ کھلم کھلا اس کا اظہار کردیں، چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن حکیم میں فرما دیا ہے لا اکراہ فی الدین یعنی ''دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔''
اب آتے ہیں واقعہ معراج کی طرف، جس کا ذکر قرآن حکیم کے پندرہویں پارے اور آیت نمبر 1 میں درج ہے۔ ''وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندے حضرت محمدؐ کو راتوں رات مسجد حرام (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک لے گئی''۔ امام زہری کہتے ہیں کہ واقعہ معراج ہجرت سے ایک سال پہلے واقع ہوا، بعض روایتوں میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ام ہانی کے مکان پر واقع ہوا، بعض کے خیال میں حطیم میں ہوا، دراصل ام ہانی کا گھر حطیم میں تھا۔
زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان سے آپؐ براق پر حضرت جبرائیلؑ کے ہمراہ تشریف لے گئے اور پھر وہاں ہی سے تقرب الٰہی کی منازل طے کیں، جہاں مقرب فرشتوں کی پہنچ بھی نہ تھی۔ صبح جب آپ نے اس کا ذکر کیا تو کفار حیران رہ گئے اور اسے جھٹلانے کی کوشش کی لیکن جب آقائے دو جہاں رحمت اللعالمین نے ان کے سوالات کے نہ صرف درست جوابات دیے بلکہ ثبوت بھی پیش کردیے، کفار کے پوچھنے پر حضرت ابو بکرؐ نے اس واقعے کی تصدیق کی اور رسول پاکؐ سے فرمایا کہ آپ جو کچھ عرض کرتے ہیں میں اس کی تصدیق کرتا ہوں، وہ سب سچ ہے۔
اسی بات پر حضور اکرمؐؐ نے حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کا خطاب دیا۔موجودہ دور کا انسان عہد جہالت میں سانس لے رہا ہے، اس کی وجہ وہ قرآن کی تعلیم سے استفادہ نہیں کرتا ہے بلکہ مذہب کے نام پر اپنی اپنی دکان سجا کر بیٹھ گیا ہے خود بھی گمراہ ہے اور لوگوں کو گمراہی کی دلدل میں اپنی چال اور مکر و فریب کے ذریعے گھسیٹ رہا ہے۔
حضرت آدمؑ سے حضرت محمدؐ تک جتنے بھی نبی اس دنیا میں تشریف لائے ان سب کا ایک ہی مشن اور مقصد تھا کہ دین حق کی تبلیغ اور کفر کی تاریکی کو دور کریں، لیکن نافرمان قوموں نے ان پیغمبروں کو قتل کیا، ان کا مذاق اڑایا، لہٰذا عذاب الٰہی کے مرتکب ہوئے۔ قرآن پاک میں آسمانی کتابوں کا ذکر آیا ہے۔
حضرت محمدؐ کی امت کو حضرت ابراہیمؑ کی شریعت پر چلنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیمؑ اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا۔ اللہ کا مطیع و فرمانبردار، وہ کبھی مشرک نہ تھا، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا، اللہ نے اس کو منتخب کرلیا اور سیدھا راستہ دکھایا۔
اسلام کی حقانیت اور رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کی حیات طیبہ، اوصاف حمیدہ، بلندی اخلاق اور عفو و درگزر، شفقت و محبت سے غیر مسلم بھی اچھی طرح واقف ہیں ۔ پڑوسی ملک ہندوستان کے بہت سے شعرا کرام نعت گو ہیں، حمدیہ اشعار میں اللہ جل جلالہ کی کبریائی لکھتے ہیں، اسی طرح مغرب کے مفکرین اور اہل قلم ہیں، یہ اہل علم بے حد محبت اور عقیدت کے ساتھ نبی پاکؐ کی شان و رفعت اور معجزات پر قلم اٹھاتے ہیں اور دنیا کے سو بڑے آدمیوں میں اعلیٰ و ارفع شخصیت حضرت محمدؐ پہلے نمبر پر قرار دیے جاتے ہیں وہ آپؐ کے اسوہ حسنہ کی تعریف و توصیف تو کرتے ہی ہیں، ساتھ میں خود بھی دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔
آج کے دور کے مسلمان بھٹک گئے ہیں اور طالبان و داعش کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ ڈالروں کی کشش نے ان سے ان کا ایمان خرید لیا ہے۔ تبلیغی جماعتوں اور علما دین نے اپنا فرض اس طرح نہیں نبھایا جس طرح ان کا حق تھا۔ ان کوچوں میں اسلام کی روشنی حضرت لال شہباز قلندر، حضرت سلطان باہو، حضرت سچل سرمست اور دوسرے بزرگوں اور صوفیوں کی بدولت پہنچی تھی۔
اگر موجودہ دور میں جہاں کفر کا اندھیرا تھا تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا جاتا اور ہر ایسے محلوں اور علاقوں میں مدارس و مکاتب کھولے جاتے جہاں کے لوگ اپنے آپ کو مسلمان تو ضرور کہتے ہیں لیکن وہ اسلامی تعلیم اور دین کے ارکان سے ناواقف ہیں اسی غفلت نے جہل کی تاریکی کو بڑھادیا ہے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا اور چینلز کی بے جا آزادی نے پوری کردی۔
میرے پاس آئے دن ایسی میلز آتی رہتی ہیں جن میں اس بات کا اصرار ہوتا ہے کہ میں حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرواؤں، قوم کے معصوم بچے برباد ہو رہے ہیں، وہ والدین کے نافرمان ہیں، اشتہارات اور فلموں کے ذریعے وہ وقت سے پہلے بہت سی باتوں سے واقف ہوگئے ہیں، انھی میں سے کچھ بچے اثر قبول کرکے کبھی ہیرو اور کبھی ولن کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی حکومت سے معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کریں؟
حکومت تو خود ہی شامل ہے، دن دہاڑے چھوٹی اور نوجوان لڑکیوں کا قتل کیا معنی رکھتا ہے۔ سفاکی بڑھ گئی ہے۔ تشدد کی فضا پروان چڑھی، وڈیروں اور جاگیرداروں نے اپنے ہاتھوں سے نیکی کے چراغ کو گل کردیا ہے اور اندھیرا بڑھ گیا ہے۔