علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تین دن آخری حصہ
معاصر اردو نظم اور معاصر اردو افسانہ پر بھی ایک ایک گھنٹے کی دھواں دھار گفتگو ہوئی۔
ISLAMABAD:
وہ تین دن جو اسلام آباد میں گزرے، ہنگامہ خیز اور ولولہ انگیز تھے۔ ہم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تین روزہ ادبی اور ثقافتی جشن میں یونیورسٹی طلبہ و طالبات اور اساتذہ کا انہماک دیکھ رہے تھے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اب سے ساڑھے تین برس پہلے اس کا انتظام و انصرام سنبھالا اور ان برسوں کے دوران انھوں نے یونیورسٹی کو ایک دانش گاہ بنادیا ہے۔ اس کی راہداریوں سے گزرتے ہوئے مجھے باربار اقبال یاد آئے۔
جن دنوں اقبال لندن میں تھے، ان ہی دنوں ان کے بیٹے جاوید اقبال نے اپنے بابا کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر پہلا خط بھیجا تھا۔ ایک ایسا شخص جو ابتدا سے علم کا عاشق زار ہو، اس کے لیے یہ کتنا ہیجان انگیز اور ولولہ خیز لمحہ رہا ہوگا۔ باپ بیٹے سے ہزاروں میل کی دوری پر ہے، دل میں بیٹے کی تعلیم کے حوالے سے جانے کیسے کیسے خیال آتے ہوں گے اور جب بیٹے کے ہاتھ کا لکھا ہوا پہلا خط موصول ہوا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ ان کا سینہ مسرت سے بھر گیا ہوگا اور آنکھیں نم ہوگئی ہوں گی۔ اس کیفیت میں انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان ہے 'جاوید کے نام'۔
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
جاوید اقبال باپ سے کم عمری میں ہی جدا ہوئے لیکن انھوں نے اپنی شناخت بنائی اور ہمارے سماج میں اپنا مقام پیدا کیا۔ یہ بھی خانوادہ اقبال کی خوش بختی ہے کہ جاوید اقبال کی شریک زندگی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور قانون داں خاتون ہوئیں۔ وہ جج کے عہدے پر فائز ہوئیں اور آج ہم سب انھیں جسٹس ناصرہ اقبال کے نام سے جانتے ہیں۔
یونیورسٹیاں نوجوانوں کو تراشتی خراشتی ہیں، ان کے وجود میں علم و تجسس کا وہ شعلہ بھڑکاتی ہیں جس سے سماج کی راہیں روشن ہوتی ہیں۔ اسلام آباد کی یہ اوپن یونیورسٹی ایک ایسی ہی دانش گاہ ہے جو دور دور تک علم کی قندیل روشن کررہی ہے۔ یہ سہرا بھٹو کے سر ہے جنھوں نے ایک فاصلاتی یونیورسٹی کا خواب دیکھا، آج وہ خواب اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور اس کے دوسرے اساتذہ کی کوششوں سے شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔
ان تین دنوں کے دوران، ادب، صحافت اور سیاست، جیسے اہم موضوع پر بھرپور مذاکرہ ہوا، جس میں مجاہد منصوری، حامد میر اور رؤف کلاسرا نے شرکت کی۔ شمولیت تو اس میں سجاد میر اور وجاہت مسعود کی بھی ہونی تھی لیکن لاہور سے اسلام آباد آنے کے راستے میں کچھ دھرنا پسند لوگوں نے اپنے بستر بچھائے ہوئے تھے، اس لیے ہم ان دو معززین کی شعلہ بیانی سے محروم رہے۔ ایسے موقعوں پر جب بولنے والے کسی وجہ سے نہ آسکے ہوں تو قرعہ فال وہاں موجود لوگوں کے نام نکل آتا ہے۔ مجھ سے جب اس موضوع پر کچھ کہنے کے لیے کہا گیا تو میں نے یہ کہا کہ ادب، صحافت اور سیاست کا ہمارے برصغیر میں لگ بھگ تین سو برس سے چلن ہے۔
صحافت کا آغاز ہمارے یہاں ایک انگریز صحافی جیمز ہکی سے ہوا، جس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے بدعنوان افسروں کے خلاف اپنے اخبار میں بہت کچھ لکھا۔ اس کی تحریر کے شعلے جب کمپنی بہادر کے افسران کا دامن جلانے لگے تو اس کے اخبار پر پابندی لگی، وہ جیل میں ڈالا گیا اور آخرکار ہندوستان بدر کر کے واپس انگلستان بھیج دیا گیا۔ میں نے غالبؔ کے سیاسی شعور اور اس وقت کی صحافت سے ان کی دلچسپی کی بھی مثال دی۔
انھوں نے جب سرسید احمد خان کی کتاب کی منظوم تقریظ لکھی تو اس سے ان کے سیاسی شعور کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا ایک فارسی خط مرزا تپاں بیگ کے نام ہے، اس خط میں غالبؔ اپنے دوست مرزا تپاں کو لکھتے ہیں کہ تازہ حالات اور واقعات سے آگاہی کے لیے وہ 'جام جہاں نما' کے شمارے ملاخطہ کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ اپنا کہار بھیج رہے ہیں جو ان کے لیے یہ شمارے مستعار لے آئے گا۔
غالبؔ کے عہد میں صحافت جتنی اہمیت اختیار کرچکی تھی اس کا اندازہ اس واقعے سے ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ فارسی اخبارات جو بنگال کے ہندو اکابرین نکال رہے تھے، ملکی اور غیرملکی واقعات اور حالات سے پڑھے لکھے ہندوستانی کو آگاہ کرتے تھے۔ بیسویں صدی آتے آتے مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا محمد علی جوہر کی صحافت سے گہری وابستگی ہم سب کے علم میں ہے۔ یہ اخبارات اور ان کے مدیران ادب، سیاست اور صحافت سے جڑے ہوئے تھے اور انھوں نے تحریک آزادی کی راہ ہموار کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
ایک سیشن عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ہوا، جس میں انھوں نے اپنی شگفتہ نثر اور طنز ملیح سے محفل کو زعفران زار بنایا۔ مشاعرہ اس جشن کی جان تھا جس میں منتخب شاعروں اور شاعرات نے اپنا کلام سنایا۔ ادب کی اشاعت، مسائل اور امکانات، کے موضوع پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید، افضال احمد اور گگن شاہد نے جو گفتگو کی اس سے ہمیں ادب کی اشاعت، اس کی ترسیل اور اس سے وابستہ مسائل کے بارے میں آگاہی ہوئی۔ فرخ سہیل گوئندی جو خود بھی پبلشر ہیں اور ادب سے وابستگی رکھتے ہیں، انھوں نے اس موضوع سے یقیناً انصاف کیا۔
پاکستانی زبانوں کے اہم ادیبوں پر بھی گفتگو ہوئی جن میں شیخ ایاز پر فاطمہ حسن اور انعام شیخ نے تفصیل سے روشنی ڈالی۔ میاں محمد بخش کے صوفیانہ افکار زیر بحث آئے، اسی طرح پشتو کی مشہور ادیب زیتون بانو کے فکروفن پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ میرگل خان نصیرکی شاعری اور ان کے افکار بھی موضوع سخن بنے۔
معاصر اردو نظم اور معاصر اردو افسانہ پر بھی ایک ایک گھنٹے کی دھواں دھار گفتگو ہوئی۔ ایک موضوع 'فیض کے بعد' تھا جس کی نظامت ہماری خوش گو اور نہایت تہذیب یافتہ شاعرہ یاسمین حمید نے کی۔ وہ اپنے موضوع پر گہرائی میں جاکر گفتگو کرتی ہیں اور اس سے انصاف کرتی ہیں۔ 'فیض کے بعد' ایک مشکل موضوع تھا۔ اس گفتگو میں پروفیسر فتح محمد ملک، افتخار عارف اور کشور ناہید شریک تھے۔ یہ یقیناً ایک فکر انگیز مباحثہ تھا، جس سے سننے والوں نے لطف اٹھایا۔
پروفیسر شاہدصدیقی نے اس ادبی جشن کے دائرے میں خوشگوار اضافہ کیا۔ اس مرتبہ اس میں بیت بازی ہوئی اور ہماری ایک بھولی بسری ادبی روایت زندہ ہوئی۔ وہ دور جب ہمارے گھروں پر انٹرنیٹ، ای میل اور دوسری جدید ایجادات کی یلغار نہیں ہوئی تھی، جب ریڈیو کا طوطی بولتا تھا اور ٹیلی وژن آہستہ آہستہ ہمارے گھروں کے دیوان خانوں اور بیٹھکوں میں داخل ہورہا تھا۔ اس وقت پڑھے لکھے گھرانوں میں 'بیت بازی' ایک ایسا ذہنی اور ادبی کھیل تھا جو بڑوں اور بچوں سب ہی کو اپنے سحر میں گرفتار رکھتا تھا۔
بیت بازی میں حصہ لینے والے بچوں اور بچیوں نے سننے والوں کا جی خوش کردیا اور جیت کر نقد انعام بھی لے گئے۔ اس کے ساتھ ہی یہاں 'داستان گوئی' کا باب بھی کھلا۔ میر امن کی 'باغ و بہار' اور مرزا رجب علی بیگ سرور کی 'فسانہ عجائب' کے چند منتخب ٹکڑے ملک توقیر احمد اور آصف حسین شاہ نے سنائے۔
داستان گوئی یادِ رفتہ ہوچکی تھی لیکن چند برسوں پہلے دلی میں اس کو پھر سے زندہ کیا گیا اور اس کے بعد کراچی لٹریچر فیسٹیول میں داستان گوئی کی محفلیں ہوئیں۔ سنانے والوں نے سننے والوں سے خوب داد و تحسین وصول کی۔ اس کے ساتھ ہی یہ سلسلہ چل نکلا۔ ان تین دنوں میں کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی۔ 'ادب اور سوشل میڈیا' کے معاملات زیربحث آئے۔ عارفانہ کلام سنایا گیا۔
ہم وہاں سے اٹھے تو سیر ہوکر اٹھے۔ یہ خوشی بھی ہوئی کہ ایک فعال وائس چانسلر ایک یونیورسٹی کو کس طرح نئی جہتوں سے روشناس کرا سکتا ہے۔ انھوں نے بین الاقوامی اور قومی سطح پر کئی سیمینار کرائے۔ جیل کے وہ قیدی جو تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے علم کے دروازے کھلے، خواجہ سراؤں کو علم کے مرکزی دھارے سے جوڑنے کے لیے ان کی مفت تعلیم کا اہتمام کیا گیا اور اسی طرح دور دراز علاقوں میں علم کی رسد ان بچوں تک مفت پہنچانے کی سبیل کی گئی جن کے والدین ان کی تعلیم پر خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
شاہد صاحب کا ایک شاندار کام ان تحقیقی اور تخلیقی ادبی مجلّوں کا اجرا ہے جن کا معیار اعلیٰ ہے۔ ان کی نگرانی میں ''تعبیر'' اور ''ثبات'' شائع ہو رہے ہیں۔ ایک سالانہ مجلہ ''پاکستانی زبان وادب'' شائع ہوا ہے جو پاکستانی زبانوں کے شعبے کی طرف سے سامنے آیا ہے جس میں براہوی، سندھی، پنجابی، بلوچی، سرائیکی اور پشتو زبانوں کے وقیع مضامین شامل ہیں۔ اسی طرح ششماہی اردو زبان و ادب کا تحقیقی مجلہ 'تعبیر' ہے، جس میں مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ ہونے والی ادبی زیادتیوں کا ازالہ کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ وہ ایک بے بدل ادیب تھے۔
ششماہی ''ثبات'' اردو کے تخلیقی ادب کا ترجمان ہے۔ اس مجلے کا آغاز ہمارے صفِ اول کے افسانہ نگار رشیدامجد کے افسانے ''بادشاہ سوگ میں ہے'' سے ہوا ہے۔ سوا دو صفحے کا یہ قصہ ہمیں جس طرح اپنی گرفت میں لیتا ہے وہ تحریر کا اعجاز ہے۔ ایک ایسے شہر کا قصہ جس میں رہنے والے لوگ کچھ نہیں سوچتے تھے، جہاں انصاف نہیں ملتا تھا کیونکہ بادشاہ سوگ میں تھا، اس شہر میں کوئی خواب بھی نہیں دیکھتا تھا۔
انصاف نہ ملے تو شہروں اور ملکوں کا کیا حال ہوتا ہے ہم اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان دنوں ہم بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔