پانی بجلی اور ٹرانسپورٹ

خیبر سے کرا چی تک سڑکوں کے کنارے اور پہاڑوں پر لاکھوں ہوائی پنکھے نصب کیے جاسکتے ہیں


Zuber Rehman April 25, 2018
[email protected]

پاکستان کے بڑے مسائل میں پانی، بجلی اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں،لیکن ایک اور چوتھا مسئلہ روزگارکا بھی ہے، اگر روزگار نہ ہو تو باقی سب بے کار ہیں۔ پانی کا دوسرا نام زندگی ہے، پانی سے ہی جانداروں کی تخلیق ہوئی تھی، اگر پانی ختم ہوجاتا ہے تو حیات بھی ختم ہو جاتی ہے جیسا کہ صحرائے اعظم اور تھر پارکر میں انسان، جانور اور پرندے ساتھ ساتھ مرتے ہیں۔ پاکستان میں تو پہاڑوں کی بھر مار ہے جہاں چشموں کا پانی ہمہ وقت دھرتی کو سیراب کرتا رہتا ہے۔

اس پانی کو محفوظ نہ کرنے سے یہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے یا پھر سمندر میں جا گرتا ہے۔ اس لیے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیموں، جھیلوں اور تالابوں کا جال بچھا دیا جائے تو ہماری زراعت، جنگلات اور باغات کو سیراب کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام شہریوں کو منرل سے بھر پور اور جراثم سے پاک وشفاف پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ بر سوں سے ہنزہ اور دیگر علاقوں سے چین لا کھوں کروڑوں گیلن پانی پائپ لائن سے اپنے ملک میں لے جاتا ہے جب کہ ہمارے ملک کے لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ ہمیں H2O یعنی حقیقی پانی تو میسر ہی نہیں سوائے چند چھاؤنیوں کے۔ پانی میں نہ منرلز ہوتے ہیں نہ شفاف ہوتا ہے بلکہ اس میں جراثم، مٹی، فضلے اور صنعتی کیمیائی مواد کی ملاوٹ ہوتی ہے۔کراچی میں تو عوام کو 50 فیصد امراض آلودہ پانی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ گندا پانی بھی بلا ناغہ سپلائی نہیں ہوتا ہے۔ ایک دن کے ناغے یا پھر دو تین دن کے ناغے کے بعد پانی آتا ہے۔ ہم اگرآئی ایم ایف کے قرضہ جات اور دفاعی بجٹ کوکم کرلیں تو سیوریج واٹرکو ری سائیکل کرکے اس میں سے کھاد، میتھائن گیس اور پینے کا پانی حاصل کرسکتے ہیں۔

اب رہ گیا بجلی کا مسئلہ ۔ ( وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کراچی آکر فرمانا ہے کہ مسئلہ حل کر دیا) ہم نے ایک مصنوعی بحران کو ہمیشہ کے لیے کھڑا کر رکھا ہے۔ ہماری حکومت اگر قیمتی گاڑیوں، وزراء کی فضول خرچیوں، ججوں اور جنرلز کی شاہ خرچیوں اور بجٹ کا بیشتر حصہ کمیشن، رشوت، کک بیک اور ری بیٹ سے پاک کرلیں تو ان رقوم سے تمام لو گوں کو شمسی توانائی کی پلیٹز خرید کر بلاسود آسان قسطوں پر عوام کو فراہم کرسکتے ہیں اور بیروزگاروں کومفت بھی فراہم کرسکتے ہیں اور جب ڈیمز کی بہتات ہوگی تو بجلی بھی پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ ونڈ انرجی پیدا کرنے کی پا کستان میں موثر صلاحیتیں موجود ہیں۔

خیبر سے کرا چی تک سڑکوں کے کنارے اور پہاڑوں پر لاکھوں ہوائی پنکھے نصب کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی میں بند پاور پلانٹ کو از سر نو بحال کیا جاسکتا ہے۔ جب کے ای ایس سی تھی تو بجلی بھی سستی تھی اور بحران بھی نہ تھا، اب نجکاری کی وجہ سے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اور لوڈ شیڈنگ کا لفظ زباں زد عام ہوگیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر کے الیکٹرک کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔

عوامی سواری یعنی پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر سے ایک منظم سازش کے تحت غائب ہو رہی ہیں ۔ صرف ڈی سیون، ڈبلیوگیارہ اور مروت کوچ نظر آتی ہیں باقی بسیں، کوچیں اور منی بسیں چند ہی رہ گئی ہیں۔ ہر روز حکو مت گرین و میٹرو بسیں، اورینج ٹرین، شٹل اور نہ جانے کیا کیا چلا نے کا اعلان کرتی رہتی ہے لیکن وہ سڑکوں پہ نظر نہیں آ تیں۔ پل اور سڑکیں تو بن رہی ہیں لیکن ٹریفک کا رش بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ کراچی کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ چند ہفتوں یا مہینوں میں با آ سانی حل کیا جا سکتا ہے۔ یہاں شہر بھر میں لوکل سر کلر ٹرین کی پٹریاں پڑی ہو ئی ہیں، انھیں مرمت کرکے اگر ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک ٹرین چلا دی جائے تو پچاس فیصد رش ختم ہوجائے گا۔

دوسرا حل ڈبل ڈیکر بسوں کا چلانا ہے۔ اس کے علاوہ ٹرام چلائی جا سکتی ہیں۔ اب تو درجنوں علاقوں میں ٹرام چلائی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر لانڈھی کورنگی، نیوکراچی اور اورنگی ٹاؤن، لالوکھیت، ناظم آباد، نارتھ کراچی، شاہ فیصل ، ملیرکھوکھرا پار وغیرہ میں با آسانی چلائی جا سکتی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی کر کے عوا می خدمات کے بجٹ بڑھائے جائیں۔ صرف جرات مندانہ قدم اٹھانے ہوں گے، اس لیے کہ ان عوامل سے پانی، بجلی مافیا اور ٹرانسپورٹ مافیا کو لوٹ مار میں معاشی طور پر شدید دھچکا لگے گا مگر ہمارے حکمران عوام کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے، بجٹ بڑھانے اور اقدامات کرنے کی بجائے نان ایشوز پر ٹاک شوز، عدالتی کارروائی اور پکڑ دھکڑکرتے ہیں۔

نان ایشوز یا کرپشن پر اگر ایکشن کیا جاتا ہے تو وہ بھی یکطرفہ جیسا کہ کرپشن صرف مسلم لیگ (نواز)، پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور نوکر شاہی کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے۔ ہر چند کہ ان کی کرپشن کے خلاف عدالتی کارروائی غلط نہیں ہے مگر صرف پنجاب تک کیوں؟ اس سے عوام کے ذہنوں میں چند سوالات ابھرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنرل اسکندر مرزا اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں یا ایوب خان تو ان پر نہ مقدمہ چلتا ہے اور نہ کوئی سزا۔ حالانکہ وہ بطور پروفیشنل سولجر حلف اٹھا چکے ہوتے ہیں کہ ہم سیاست نہیں کریں گے۔ سپاہی کو سیاست کرنے کی اجازت نہیں مگر جنرل 36 سال تک سیاست کرتے رہے۔

ایوب خان نے تمام سیاسی جماعتوں پر پا بندی لگا دی، لیاقت علی خان اور حسن ناصرکا قتل ہوا۔ جنرل یحییٰ خان نے مشرقی بنگال میں فوج کشی کر کے اکثریتی آ بادی کے منتخب کردہ رہنما شیخ مجیب کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے گرفتارکرلیا۔ جنرل ضیا الحق آئے تو عوام کو نسل اور برادری میں تقسیم کیا، طالبان کو امر یکا مخالف ڈاکٹر نجیب کی حکو مت کو امریکی اشاروں پرگرانے کے لیے بھیجا گیا، آج اسی طالبان سے فوج نبرد آزما ہے۔ حال ہی میں منتخب وزیراعظم نواز شریف کو تا حیات نا اہل اور آئین توڑنے والا پرویز مشرف سزائے موت کا مستحق آزادی سے پریس کانفرنسیں کرتا پھر تا ہے ۔

منظور کاکا دس ارب رو پے لے کر بھاگا، کامران کیانی نے دس ارب ہڑپ کیے، ڈاکٹر عاصم پر ستر ارب روپے غبن کا الزام ہے۔ شرجیل میمن اربوں روپے کی خورد برد کیے بیٹھے ہیں، اگر شہباز شریف نے کرپشن کی ہے تو دیگر صوبوں کے وزرائے اعلی ٰ اور نوکر شاہی نے بھی کی ہے، نیب میں تین جرنلوں پر چلنے والے مقدمات کا بھی نہیں معلوم سزا ہوگی یا نہیں۔ مشال خان، عاصمہ رانی، عابدہ کے اور ایسے نہ جانے کتنے قاتلوں کو سزا ہوگی یا نہیں۔ توہین عدالت پر وزراء کو عدالت میں بلایا گیا لیکن عدالت کو غلیظ گالیاں دینے والے خادم حسین رضوی کو گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے اور الٹا ان کے رفقاء کو ایک میجر جنرل نے ایک ایک ہزار روپے مظاہرے میں شرکت پر بانٹے ہیں۔ پارلیمنٹ تو ریاست کا اعلیٰ ٰترین ادارہ ہو تا ہے، فوج اور عدلیہ پارلیمنٹ کے ماتحت ہوتی ہیں ان کا کام سر حدوں کی حفاظت اور غیر سیاسی مقدمات کی سماعت ہے۔ یہ سرمایہ دارا نہ نظام کی برائیاں نہیں ہیں بلکہ سرمایہ داری کی نا گزیر نتیجہ ہے۔

جنگی جنونی امریکی صدر ٹرمپ نے شام پر حملے کے بعد وہائٹ ہاؤس کے باہرکانگریس سے منظوری لیے بغیر حملہ کرنے کے خلاف جنگ مخالف، امن پسند،کمیونسٹ اور انارکسٹوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اسی طرح برطانیہ کی حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کے سوشلسٹ رہنما جیمری کوربون نے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے منظوری لیے بغیر برطانوی وزیراعظم کی جانب سے شام پر حملے کی مذمت کی ہے۔ اس کے علاو ہ کینیڈا، فرانس، جرمنی، ہندوستان اور فلسطین میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں