مریخ کی حرکت الٹ جائے گی قیامت آنے والی ہے

اسلام کو ملحدوں اور دہریوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا ہر سچی جھوٹی بات کو بغیر تحقیق آگے بڑھانے والوں سے ہے


علیم احمد May 04, 2018
تقریباً ہر 26 مہینے کے بعد مریخ کی ظاہری حرکت لگ بھگ سوا دو مہینوں کےلیے اُلٹ جاتی ہے۔ (فوٹو: جے پی ایل/ ناسا/ ای ایس اے)

''کیا سائنسدانوں نے اعلان کیا ہے کہ مریخ کی سمت اُلٹنے والی ہے؟'' محترم شیخ صاحب کے لہجے میں تشویش کم اور تشکیک زیادہ تھی۔ میں نے فوراً وضاحت کی کہ جناب، مریخ کی حرکت کا بظاہر پلٹ جانا کوئی عجیب و غریب بات نہیں بلکہ یہ مشاہدہ تو ہزاروں سال سے کیا جارہا ہے۔ ہاں! قدیم زمانے میں ہم اس کی سائنسی وجہ سے واقف نہیں تھے؛ البتہ آج ہم اس بارے میں جانتے ہیں۔

ہوا کچھ یوں کہ ہمارے بہت ہی عزیز و محترم بزرگ جناب صدیق شیخ کو کسی نے ایک پیغام واٹس ایپ کیا، جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ناسا کے ماہرین نے اعلان کیا ہے کہ مریخ کی اپنے مدار میں حرکت کی سمت اُلٹنے والی ہے؛ اور اس اعلان سے حضورﷺ کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوتی ہے کہ قیامت سے ذرا پہلے سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہونے لگے گا... اور توبہ کا دروازہ بند ہوجائے گا!

پیغام کے اگلے حصے میں توبہ اور نیک اعمال کی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ تاکید بھی کی گئی تھی کہ اس پیغام کو آگے بڑھانا، ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ (گویا ''فارورڈ'' نہ کرنے والا، گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔)

بھلا یہ تو بتائیے کہ وہ کونسا مسلمان ہوگا جو نیک اعمال اور توبہ کرتے رہنے کی اہمیت سے واقف نہ ہوگا؟ مانا کہ آج ہم اس دنیا کی رنگینیوں میں پڑ کر آخرت کو بھول چکے ہیں لیکن آخرت کی یاد دلانے اور عامۃ الناس کو مائل بہ توبہ و اعمالِ صالحہ کرنے کےلیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی کسی طور قابلِ تعریف عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سچ تو یہ ہے کہ اسلام کو ملحدوں اور دہریوں سے اتنا خطرہ نہیں جتنا اُن لوگوں سے ہے جو ہر سچی جھوٹی بات کو، بغیر تحقیق کیے آگے بڑھا دیتے ہیں؛ اور ''سبحان اللہ کہہ کر شیئر کرائیں'' یا ''شیطان اسے شیئر کرانے سے ضرور روکے گا'' جیسے جملے لکھ کر دوسروں کو بھی یہی باتیں آگے تک پہنچانے پر مجبور کرتے ہیں۔ بے بنیاد اور بلا تحقیق پھیلائی گئی باتوں سے دنیا بھر میں اسلام، قرآنِ پاک اور پیغمبرِ اسلامﷺ کی (نعوذ باللہ) جگ ہنسائی تو ہوسکتی ہے، کوئی خدمت بہرکیف نہیں ہوپاتی۔

مریخ کی حرکت اُلٹنے کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔

اس بارے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ تقریباً ہر 26 مہینوں میں ایک مرتبہ ایسا موقعہ ضرور آتا ہے کہ جب مریخ اپنے مدار میں معمول کے مطابق آگے بڑھتے بڑھتے (بظاہر) رُکتا ہے، پلٹتا ہے، اور پھر کچھ دن بعد ایک بار پھر رُک کر آسمان میں اپنی معمول کی حرکت پر واپس آجاتا ہے۔ یہ کوئی نئی دریافت نہیں بلکہ ایک ایسا مشاہدہ ہے جو اس زمین پر بسنے والے انسانوں کو ہزاروں سال سے ہورہا ہے۔

مریخ کی اس غیرمعمولی ''اُلٹی چال'' کےلیے فلکیات میں ''رجعی حرکت'' (Retrograde Motion) کی اصطلاح رائج ہے... اور یہ صرف مریخ تک محدود نہیں بلکہ نظامِ شمسی کے تقریباً تمام سیاروں میں ہی اس ''اُلٹی چال'' کا مشاہدہ کیا جاچکا ہے۔ البتہ عطارِد، زہرہ، مریخ اور مشتری چونکہ زمین سے نسبتاً قریب اور آسمان میں زیادہ نمایاں ہیں، اس لیے ان میں رجعی حرکت کا مشاہدہ بھی زیادہ آسان رہا ہے۔

مریخ پر حضرتِ انسان کی توجہ اس لیے زیادہ رہی کیونکہ اپنی منفرد سرخ روشنی کی بناء پر زمانہ قدیم میں یہ ''جنگ کا دیوتا'' قرار دیا جاتا تھا؛ اور اس کی چمک میں تبدیلی کو جنگ و جدل وغیرہ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مریخ کی ''اُلٹی چال'' بھی ہزاروں سال سے انسان کے علم میں تھی۔ البتہ، جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں، پہلے ہمارے پاس اس کی کوئی سائنسی وجہ نہیں تھی۔

 

یہ کیسے ہوتا ہے؟


تاریخی تفصیلات میں جائے بغیر، کوشش کروں گا کہ مریخ کی اُلٹی چال یعنی ''رجعی حرکت'' کو ہر ممکن حد تک آسان اور عام فہم الفاظ میں بیان کیا جائے۔ البتہ اس سے پہلے کچھ بنیادی باتیں، نکتہ بہ نکتہ بیان کرنا چاہوں گا:

  • سورج سے دور ہونا شروع کریں تو ہماری زمین اس نظامِ شمسی (سولر سسٹم) کا تیسرا سیارہ ہے جبکہ مریخ کا چوتھا نمبر ہے۔

  • زمین کا سورج سے اوسط فاصلہ 14 کروڑ 96 لاکھ کلومیٹر جبکہ مریخ کا سورج سے اوسط فاصلہ 22 کروڑ 79 لاکھ کلومیٹر ہے۔

  • یہی بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے کہ سورج کے گرد زمین کا مدار، مریخ کے مدار سے چھوٹا ہے۔

  • اسی طرح اپنے مدار میں زمین کی اوسط رفتار 108,000 کلومیٹر فی گھنٹہ (30 کلومیٹر فی سیکنڈ) جبکہ مریخ کی اوسط رفتار 86,871 کلومیٹر فی گھنٹہ (24 کلومیٹر فی سیکنڈ) ہے، جو زمین کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔

  • اپنے بڑے مدار اور نسبتاً کم رفتار کی بناء پر مریخ کو سورج کے گرد ایک پورا چکر لگانے میں جتنا وقت لگتا ہے، وہ زمین پر گزرنے والے 687 دنوں کے مساوی ہوتا ہے؛ جبکہ زمین اپنا ایک چکر 365 دنوں میں پورا کرلیتی ہے۔ اب چونکہ یہی وہ چیز ہے جسے ہم ''ایک سال'' کہتے ہیں، اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ زمین کا ایک سال 365 دنوں کا، جبکہ مریخ کا ایک سال 687 دنوں کا ہوتا ہے۔

  • یعنی مریخ کا ''ایک سال'' زمین کے ایک سال کے مقابلے میں 322 دن (تقریباً 11 ماہ) طویل ہوتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ جس عرصے میں زمین (اپنے مدار میں) سورج کے گرد تقریباً دو چکر پورے کرتی ہے، اس مدت میں (سورج کے گرد) مریخ کا صرف ایک چکر ہی مکمل ہو پاتا ہے۔


تقریباً ہر 26 مہینے بعد ایک موقعہ ایسا آتا ہے جب زمین (اپنے مدار میں حرکت کرتے کرتے) مریخ کی سیدھ میں آتے ہوئے اس کے قریب بھی ہونے لگتی ہے؛ لیکن، اپنے چھوٹے مدار اور (مریخ کے مقابلے میں) تیز رفتار کے باعث، جلد ہی اسے پیچھے چھوڑتے ہوئے (اپنے مدار میں) نہ صرف آگے بڑھ جاتی ہے بلکہ مریخ سے اس کا زاویہ بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہی وہ موقعہ ہے جب (زمین سے دیکھنے پر) ایسا لگتا ہے جیسے مریخ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنے لگا ہے؛ اور چند دن تک (اپنے مدار میں) پیچھے ہٹتے رہنے کے بعد وہ واپس پلٹتا ہے اور معمول کی حرکت پر واپس آجاتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ سب کچھ ''بظاہر'' ہوتا ہے ورنہ درحقیقت مریخ کی اپنے مدار میں حرکت معمول کے مطابق ہی جاری رہتی ہے اور ''اصل میں'' اس کی سمت بھی تبدیل نہیں ہوتی۔

اس بات کو بہتر طور پر سمجھنے کےلیے اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کی یہ مختصر سی ویڈیو ملاحظہ کیجیے جو 2016 میں مریخ کی رجعی حرکت واضح کرنے کی غرض سے جاری کی گئی تھی:


اسی طرح کی ایک اور ویڈیو بھی ملاحظہ کیجیے جو ''ایسٹرو گرل ویسٹ'' نامی یوٹیوب چینل پر 2009 میں پوسٹ کی گئی تھی۔ اس میں اکتوبر 2009 سے مئی 2010 تک مریخ کی رجعی حرکت واضح کی گئی ہے جبکہ اس کا پس منظر بھی پیش کیا گیا ہے (یہ ویڈیو بے آواز ہے):


یہ دونوں ویڈیوز دیکھ کر آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ مریخ کی ''اُلٹی چال'' نہ تو قیامت کی نشانی ہے اور نہ ہی اس کا قیامت سے ذرا پہلے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے کوئی تعلق ہے۔

مریخ کی اُلٹی چال (retrograde motion) ایک ایسا مظہرِ قدرت ہے جسے سمجھنے کے بعد انسان اس قابل ہوا کہ وہ نظامِ شمسی کی ساخت سے بہتر طور پر واقف ہوسکے۔ بعض سائنسی مؤرخین کا یہاں تک دعوی ہے کہ سولہویں/ سترہویں صدی عیسوی میں نکولس کوپرنیکس اور جوہانس کیپلر نے مریخ کی رجعی حرکت کی سائنسی توجیح بیان کرتے ہوئے جدید فلکیات کی بنیاد بھی رکھ دی تھی۔

حالیہ صدی کی بات کریں تو مریخ کی اُلٹی چال کا مشاہدہ...

  • 2001 میں (10 مئی سے 19 جولائی تک)؛

  • 2003 میں (29 جولائی سے 28 ستمبر تک)؛

  • 2005 میں (2 اکتوبر سے 8 دسمبر تک)؛

  • 15 نومبر 2007 سے 30 جنوری 2008 تک؛

  • 20 دسمبر 2009 سے 10 مارچ 2010 تک؛

  • 2014 میں (یکم مارچ سے 19 مئی تک)؛ اور

  • 2016 میں (17 اپریل سے 29 جون تک)...


کیا جاچکا ہے۔ اس سال یعنی 2018 میں بھی مریخ 26 جون سے لے کر 27 اگست تک اُلٹی چال چلے گا۔

اب ہوا یوں کہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علمِ نجوم (ایسٹرولوجی) کا پرچار کرنے اور ستاروں کی چال سے لوگوں کی قسمتوں کا حال بتانے کی دعویدار ویب سائٹس نے یہ بات اُچک لی اور یہ کہنا شروع کردیا کہ ہوشیار ہوجاؤ! مریخ اُلٹی چال چلنے والا ہے!

خیر سے ہمارے یہاں نجومی اور ماہرِ فلکیات میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا اس لیے قیامت کی پیش گوئی کرنے والوں نے اس بات کو ''ماہرینِ فلکیات کا اعلان'' کہنا شروع کردیا... اور ''ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی'' کے مصداق، جب یہ بات زیادہ پھیلی تو کسی ستم ظریف نے (صرف توجہ حاصل کرنے اور اپنا اُلّو سیدھا کرنے کےلیے) اس میں ترمیم و اضافہ کرکے کچھ یوں بنادیا:

''ناسا کے سائنسدانوں نے اعلان کیا ہے کہ مریخ کی حرکت اُلٹنے والی ہے!''


ہمارے ہاں عجیب و غریب رواج یہ بھی ہے کہ ہر وہ چیز جو انگریزی زبان کے کسی غیرملکی اخبار/ رسالے میں یا ویب سائٹ پر شائع ہوجائے، ہم اسے آنکھیں بند کرکے مستند و معتبر مان لیتے ہیں (صرف اس لیے کیونکہ وہ انگریزی میں ہوتی ہے) اور اس پر مزید تحقیق کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے۔

لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم ایک اور فکری بیماری کا شکار بھی ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ ہمیں جہاں کہیں بھی کوئی نئی سائنسی دریافت یا ایجاد نظر آتی ہے، فوراً ''یہ تو اسلام نے 1400 سال پہلے بتادیا تھا'' کہہ کر اس کی تحقیر کرتے ہیں اور مذہب کی پرتوں میں لپٹے ہوئے، اپنے کھوکھلے احساسِ تفاخر کو ''ٹھوس'' بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

مریخ کی ظاہری اُلٹی چال یعنی رجعی حرکت (retrograde motion) کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ سائنس اور مذہب، دونوں سے سطحی واقفیت رکھنے والے ''عقیدت مندوں'' نے غلط انداز میں پیش کی گئی ان معلومات کو درست سمجھا اور ان پر اپنے عقیدے کی مہر ثبت کرتے ہوئے آگے بڑھادیا۔

ایسا کرکے انہیں کیا حاصل ہوا؟ یہ میں نہیں جانتا، لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس حرکت سے انہوں نے اسلام اور سائنس، دونوں کا نقصان کیا ہے۔

نہ جانے کب ہمیں عقل آئے گی اور ہم سچ کو ثابت کرنے کےلیے جھوٹی، غلط اور بے بنیاد باتوں کا سہارا لینا چھوڑیں گے۔ اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے (آمین)۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں