بے باک صحافی کا ہر لفظ ہے آئینہ

ہم صحافی ہیں،کیا کہنے، صحیفہ لکھنے والے صحافی، بااثر اور اہم ہیں ہم، ہمارا کام کیا ہے؟



بہت یاد آتے ہیں وہ لوگ مجھے، بہت یاد آتے ہیں، کبھی بھولتے ہی نہیں، کیسے بھول جاؤں انھیں، نادرونایاب لوگ۔ عظیم سے آگے کوئی لفظ ہے تو ان کی شخصیت کا عکاس ہوگا۔ بہت بڑے لوگ تھے وہ بے مثل،ان جیسا تو اب مجھے کوئی بھی نظر نہیں آتا ۔ وہ لوگ جنھوں نے مجھے پہلے تو قدم رکھنا سکھایا اور پھر چلنا اور پھر یونہی نہیں چھوڑدیا کہ جاؤ جہاں جانا ہے چلے جاؤ، بلکہ ہر قدم پر بتایا بھی ، یہ ٹھیک ہے، یہ غلط ۔ان کی باتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ وہ میری متاع حیات ہیں ، سانس کی ڈوری تو ٹوٹ سکتی ہے ،ان کا ساتھ نہیں چھوٹ سکتا،ایسے لوگ تھے وہ ۔

وہ بھی ان میں سے ایک تھے ۔ کیا بات تھی ان کی، سفید داڑھی، سر پر جناح کیپ، شیروانی میں ملبوس، مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ان کے چہرے پر، میں انھیں بھائی جان کہتا تھا، اصغر بھائی جان ۔ وہ پہلی جماعت سے تیسری تک میرے استاد تھے۔ پھر انھوں نے مجھے کتابت سکھائی۔ صبح سویرے وہ بورڈ پر لکھتے تھے۔ آج کا درس،آج کا عمل، میں انھیں لکھتے ہوئے دیکھتا رہتا تھا ، وہ ایک اسٹول پرکھڑے ہوکر لکھتے تھے اور میں انھیں چاک پکڑاتا تھا۔

لکھتے ہوئے جب چاک ختم ہوجاتا تھا تب وہ دوسرا مانگتے تھے اور پھر اس دوران میں سنتا تھا ، پیار میں بسا ہوا یہ جملہ ''پاجی دُورہٹ کے کھڑے ہوجاؤ، چاک کا سارا برادہ تمہارے بالوں میں گر رہا ہے۔'' پھر آہستہ آہستہ میں بھی لکھنے لگا، تب انھوں نے مجھے کتابت سکھانا شروع کی، بات بہت طویل ہوجائے گی۔ ایک دن میں نے کہا۔ بھائی جان سیاہی لے آؤں، اس زمانے میں ہم سب تختی لکھا کرتے تھے۔ پہلے تو انھوں نے مجھے گُھورا ، پھر مُسکرائے اور کہنے لگے ''اسے سیاہی نہیں روشنائی کہتے ہیں، سیاہی کو ختم کردینے والے روشنائی۔''

مجھے تو بہت بعد میں پتا چلا، اس جملے کا مطلب ،کیا خوبصورت جملہ کہا کرتے تھے وہ ۔

ہم صحافی ہیں،کیا کہنے، صحیفہ لکھنے والے صحافی، بااثر اور اہم ہیں ہم، ہمارا کام کیا ہے؟ یہی نا کہ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے، جو دیکھیں گے اسے سرعام بیان کریں گے، اسے ریکارڈ پر لائیں گے، سچ کیا ہے جھوٹ کیا، بتائیں گے، ظالم کون ہے مظلوم کون بتائیں گے، کون استحصالی ہے ، لگی لپٹی بغیر کسی اسکینڈیلائز کیے ہوئے، حقیقت بیان کرنا ہی تو ہمارا کام ہے ، اور یہ بھی کہ کون چھین رہا ہے ان کے حقوق، سب کچھ بلا کسی خوف کے،کسی بھی لالچ اور دھمکی میں آئے بغیر ۔اسے ہی کہتے ہیں نا ذمے دار فرض شناس صحافی۔ لیکن!

ہم سب بس لکھتے رہتے ہیں ، صفحات کے صفحات سیاہ کردیے ہم نے۔ ہم نے اپنے قلم کی روشنی کو سیاہی میں بدل دیا اور اندھیروں کے پیام بر بن گئے۔ ہم بے جان و بے روح لفظ لکھتے رہتے ہیں، لکھتے کچھ ہیں کرتے کچھ ، دوغلے ہیں ہم ، آپ رنجیدہ ہوں اور خفا بھی نہیں ، یہ میں خود سے مخاطب ہوں ، خود کو کہہ رہا ہوں یہ سب ، ہم نہ جانے کیسے ہیں۔ قول وفعل میں تضاد ہے ہمارے اور پھر ہم رونا روتے ہیں کہ وطن عزیز میں ہر طرف ظلم کی حکمرانی اور جبرکی فراوانی ہے۔ وہ بھی بس چند ہی ہیں جو یہ کہتے ہیں ورنہ تو ہر طرف سے شانتی شانتی کی صدائیں ہی بلند کرتے ہیں ۔ بے کار ہے سب کچھ،کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ،کیا اثر ہوگا۔

ہم سب انسان ہیں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ۔ ایک سماج میں رہتے ہیں، ہم سب ایک طرح کے ہو نہیں سکتے ، لیکن یہ جو ہم قلم قبیلے کے لوگ ہیں سب سے زیادہ منافقت کا شکار ہیں ، ہم بااثر ہیں، ہمارے ہاتھ قلم کیا آگیا ہے ، ہم اسے صرف اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ہم قلم کو ڈاکوکا خنجر بنائے گھوم رہے ہیں اور پھر گھمنڈی اتنے کہ پناہ مانگنی چاہیے ، سب سے زیادہ مفاد پرست ہم ہیں ۔جی ہاں ، اس میں پھر طبقات بھی ہیں ، ایلیٹ کلاس کے قلمکار اورکچھ مجھ جسے اچھوت اور شودر ، فضول لکھنے کے ماہر ، ہاں اپنا کوئی کام پڑجائے تو پھر دیکھیے حق کے لیے برسر پیکار صرف اپنے حقوق کے لیے شمشیر بہ دست ۔ خلق خدا سراپا احتجاج ہے، دہائی دے رہی ہے، انصاف طلب کر رہی ہے، اور ہم امن و شانتی کا راگ الاپ رہے ہیں ۔

لوگ بھوکے مر رہے ہیں، خودکشیاں کررہے ہیں،گردے بیچ رہے ہیں ، بیٹے اور بیٹیاں بیچ رہے ہیں ، چلتی پھرتی لاشیں بن گئے ہیں اور جیتے جاگتے قبرستان جب کہ ہمیں اپنے کھوکھلے، فضول اور بکواس سیمیناروں سے فرصت نہیں ۔ ہم گورنر کے ساتھ لنچ اور وزیراعلیٰ کے ساتھ ڈنر کرتے ہیں اور پھر دعویٰ ہے ہمارا ''ہم ہیں خلق خدا کی آواز'' ۔ بس قلم پکڑا اور صفحے کو سیاہ کر ڈالا ، بے جان لفظوں کے سوداگر ، اندر آگ ہی نہیں ہمارے اور جب تک اندرکی آگ نہ ہو پھر کیا فائدہ لکھنے کا، ہاں فائدہ ہے، واہ واہ کے رسیا ہیں ہم ، پنج ستارہ ہوٹلوں میں غربت مٹاؤ مہم کے سیمینار اور ہماری فضول باتیں ، لوگ گندے پانی کو ترس گئے ، ہم منرل واٹرکی بوتلیں اپنے اندر انڈیلتے چلے جاتے ہیں۔ تصویریں دیکھ کر نہال ہوجانے والے بونے ، تعریف سن کر پُھول جانے والے غبارے ، ذرا ان غباروں میں سے ہوا نکل جائے ، تب انھیں اپنی اوقات معلوم ہو جائے گی۔

اگرکچھ سر پھرے میدان میں نکل آئیں جو اپنے حقوق مانگ رہے ہوں، وہ پر امن احتجاج کر رہے ہوں ، دلیل سے بات کر رہے ہوں، آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہوں ، ریاست سے سوال کر رہے ہوں کہ بتائیے آپ ہمارے ساتھ یہ ظلم و جبرکیوں کررہے ہیں۔ وہ پوچھ رہے ہوں کہ جب عدالتیں موجود ہیں تو ماورائے عدالت قتل کیوں ہو رہے ہیں، وہ آئین کی بالادستی چاہتے ہوں اور منصفانہ حقوق کے طلبگار ہوں تو بہ جائے اس کے کہ ان کا ساتھ دیا جائے تاکہ امن ہو، سلامتی ہو۔ یہ انھیں بھی یہ مشورہ دیتے ہیں ،کیا کررہے ہو تم ، پاگل ہوگئے ہو کیا ، مت کرو ، خود پر رحم کرو ، ارے بے وقوفو، اپنا نہیں تو اپنے بچوں ہی کا خیال کرلو ۔

حق گوکو بھی اپنے رنگ میں رنگنے کے ماہر ، اپنے ریکٹ کا حصہ بنانے والے چمتکار اور پھر اپنے جتھے کی طاقت استعمال کرتے ہوئے ہر جگہ قبضہ کرلینے والے قبضہ گیر، پھر جو پٹی کہیں اوپر سے پڑھا دی جائے اسی کا راگ الاپنے والے قوال اور خلق خدا کو اپنی ڈگڈگی پر نچانے والے مداری۔ بھتا خور مافیا بن گئے ہیں ہم ، اپنے اثرات اور اپنے تعلقات کو استعمال کرکے ناجائزکام کرانے کے ماہر ۔

کچھ بھی نہیں ہوگا جناب،کچھ بھی نہیں جو لوگ اپنا قلم بیچ دیں ، ضمیر بیچ دیں ، لاکھ کالم لکھیں ، تقریریں کریں ، سیمینار سجائیں ، ان کے کھوکھلے الفاظ اور دعوے کبھی ثمر بار نہیں ہوسکتے، کبھی بھی نہیں۔ کب تک ہم اپنے معصوم لوگوں کو گمراہ کرتے رہیں گے ، کب تک ، ہم خود معصوم خلق خدا کے استحصالی ، خدا نے ہمیں قلم دیا ، صلاحیت دی ، اس لیے کہ ہم اسے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں لگا دیں ، یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی ، برگر بیچنے والا ، چھولے بیچنے والا ، چھاپڑی والا ، مزدوری کرنے والا ، یہ سب عظیم لوگ ہیں۔ وہ لقمۂ حلال تلاش کرنے کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں اور ہم ایک ہی جھٹکے میں ان کے ارمانوں کا خون کردیتے ہیں اور پھر کہلاتے ہیں خلق خدا کی آواز۔ ہم نے اپنے لوگوں کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا ہے ، بھوکے بھیڑیے انھیں بھنبھوڑ رہے ہیں اور ہم تماشائی ہیں ، ان بھیڑیوں کی شان میں قصیدے لکھ رہے ہیں۔

ہاں سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے جناب ، بس ذرا اپنے قول کو فعل سے جوڑیے ، آپ کے اندر اگر آگ ہی نہ ہو تو مت کیجیے یہ کام ، کچھ اورکر لیجیے ، بہت کام ہیں دنیا میں کرنے کے ، خلق خدا کوگمراہ نہ کرو ۔ بس اپنے قلم کی سیاہی کو روشنائی بنا لو ، آپ کے قلم سے پھوٹنے والی روشنی اس گھٹا ٹوپ اندھیرے کو نیست و نابود کردے گی ، آپ متحد ہوجائیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ، کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، جو لکھا ہوا ہے ، وہ تو ہوکر رہے گا۔ خلق خدا کے آنسو آپ سے سوال کرتے ہیں،آپ نے ہمارے آنسو بیچ کھائے،کیا آپ ثابت کر دکھائیں گے۔ ٹھیک ہے، کہہ دیجیے ، ہاں ہم سے غلطی ہوگئی، اب ہم اپنے لوگوں کے ساتھ رہیں گے، ہم اپنا قلم نہیں بیچیں گے ، ہم نوحہ لکھیں گے، اس سماج کا اور ان استحصالیوں کے منہ پر پڑے ہوئے نقاب الٹ دیں گے ، بس آپ اتنا سا کام کردیجیے، باقی کام خلق خدا خود کرلے گی۔

اپنی اس تلخی پر بالکل معذرت نہیں کروں گا ، میں بھی آپ میں سے ہوں ، یہ سب کچھ خود کوکہہ رہا ہوں ، بس مجھ میں اور آپ میں اتنا فرق ہے ، آپ اعلیٰ کلاس کے ہیں اور میں شودر۔

آپ کے لیے صرف اتنا کہنا ہے:

اندر لالچ بھر جائے تو/کیسے کوئی لکھ سکتا ہے/خالی آوازوں کے پیچھے /کیسے کوئی چل سکتا ہے/دکھ کی لہریں/ سوچ کا ماتم/حرف اکیلے/دل کا درد ہی تھم جائے تو/کیسے کوئی لکھ سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں