نیا تعلیمی سال اور نئے مسائل

غریبوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے کہ حصول علم ان کا حق ہی نہیں۔


نجمہ عالم April 27, 2018
[email protected]

زندہ، با ضمیر قومیں اپنی بقا، خود مختاری اور ترقی کے لیے پیشگی منصوبہ بندی کرتی ہیں، ان کے سائنس دان، ماہر معاشیات، سماجیات اور ماہر تعلیم آنے والے وقت کو مد نظر رکھ کر سو سالہ منصوبے تشکیل دیتے ہیں اور پوری تندہی سے وقت اور حالات کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھ کر ملک و قوم کو اپنی آنے والی نسلوں کو بہتر سے بہتر سہولیات، ضروریاتِ زندگی اور ماحول دینے کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ۔

ہر حکومت اپنی استطاعت سے بڑھ کر ان کو وسائل مہیا کرتی ہے۔ اس ساری کوشش میں شعبۂ تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے، اندازے لگائے جاتے ہیں کہ آیندہ دس برس میں ہماری آبادی میں کتنا اضافہ ہوسکتا ہے تو اس کے لحاظ سے کتنے ڈاکٹر، کتنے انجینئر، کتنے اساتذہ، کتنے تکنیکی ماہرین اور کتنے ماہرین ارضیات، کان کن، قدرتی وسائل کو ملکی ضروریات کے مطابق حاصل کرنے اور ان کی عوام تک رسائی کے لیے کتنے افراد، اداروں، سڑکوں، پلوں، ریلوے وغیرہ کی ضروریات میں کتنا اضافہ اور کہاں کہاں تک اس کی توسیع کی ضرورت پیش آئے گی، مگر افسوس 70 برس میں کوئی ترقیاتی منصوبہ بندی تو کجا شرح خواندگی ہی صد فی صد تو بڑی بات 80 فی صد تک نہ پہنچ سکی۔

بلکہ جو تعلیمی پالیسی بنی وہ بھی پڑھے لکھے افراد میں اضافے کے بجائے جہالت کا اعلیٰ نمونہ، نصاب رٹنے کے علاوہ ان کے ذہن سے آزادانہ سوچنے ازخود کچھ کہنے کی صلاحیت سے محروم ، مجال ہے کہ اچھے بھلے ڈگری یافتہ کسی موضوع پر حقائق ودلائل کی بنیاد پر دومنٹ اظہار خیال کی صلاحیت رکھتے ہوں، کیسے رکھیں جب ان سے ہم نصابی و غیر نصابی تمام سرگرمیاں چھین لی گئیں ہوں، ان کے سروں پر دولہ شاہ والی ٹوپی چڑھادی گئی ہو کہ بس جو ہم کہہ رہے ہیں وہ کہو اور جو ہم چاہتے ہیں وہ ہی کرو۔

ملکی سطح پر یکساں نصاب و نظام تعلیم نہ ہونا اور پھر نصاب کو علاقائی تعصب کے پیش نظر مرتب کرنا۔ بیک وقت کئی طرح کے نظام تعلیم رائج کرنا اور پھر آپس میں ان کا ایک دوسرے سے کسی بھی سطح پر کسی قسم کا رابطہ نہ ہونا ملک و قوم کو واضح طور پر متحد نہ ہونے دینے کا منصوبہ نہیں تو اورکیا ہے۔ ہر نظام تعلیم سے ایک مخصوص نظریاتی طبقہ وجود میں آنا جس کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ سب طبقے ایک دوسرے کو مراعات یافتہ اور اپنے حقوق کے دشمن قرار دیتے ہیں۔

آج کل ملک کے بیشتر علاقوں میں نئے تعلیمی سال کا یا تو آغاز ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے۔ 16 اپریل کے ایکسپریس کے میٹروپولیٹن صفحہ پر نئے تعلیمی سال کے آغاز پر کتابوں کی قیمت، والدین کے لیے اپنے کئی بچوں کے لیے نصابی کتب کے حصول کے مسائل، پرانی کتابوں کی قیمت میں بھی اضافے سے غریب والدین نئی کتب اور پین پنسل سے قاصر کر رکھا، پنسل تک پرانی خریدنے سے بھی معذور ہیں۔

غریبوں کو تو چھوڑ ہی دیجیے کہ حصول علم ان کا حق ہی نہیں وہ تو بلا وجہ جانے کس خوش فہمی کے تحت نام نہاد انگلش میڈیم (گلی گلی کھلنے والے) اسکولوں میں اپنے بچوں کو دن رات محنت کی کمائی سے پڑھارہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کل ان کے بچے بھی اعلیٰ ملازمتوں پر فائز ہوںگے تو اگر وہ محنت کرتے کرتے مر نہ گئے تو کم از کم ان کا بڑھاپا تو آرام سے گزر جائے گا۔ مگر گزشتہ دنوں دو دن کی غیر حاضری کے بعد جب ہماری ''ماسی'' صاحبہ تشریف لائیں تو میں نے پوچھا کہ تمہارے بچوں کا رزلٹ کیسا آیا۔ ماشا اﷲ سب پاس تو ہوگئے ہوںگے؟ تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

میں نے تسلی دی اور تفصیل معلوم کی تو بتایا باجی ہم دن رات کتوں کی طرح ہر ایک کی جھڑکیاں سنتے رہتے ہیں اور کام میں لگے رہتے ہیں تنخواہ ملتے ہی سب سے پہلے بچوں کی فیس بھرتے ہیں۔ استانی نے پورے سال کبھی کوئی شکایت نہیں کی کہ بچہ پڑھائی میں اچھا نہیں، باجی ہم تو پڑھے لکھے نہیں جو ہمیں کچھ پتا چلے مگر ٹیچر نے میرے بیٹے کو یہ کہہ کر میرے حوالے کردیا کہ اس کو تو اپنا نام اردو تک میں لکھنا نہیں آتا انگریزی میں تو کیا لکھے گا۔

باجی دو دن سے میرے آنسو نہیں تھم رہے مسلسل چکر آرہے ہیں کہ پورے سال ہم نے بھوکے رہ کر بچوں کی فیس دی سال بھر میں انھوں نے میرے بچے کو نام تک لکھنا نہیں سکھایا، اگر بچہ نالائق تھا تو پورے سال کبھی تو شکایت کی ہوتی تو میں کسی کی خوشامد کرکے اس کو پڑھوالیتی۔ کیا کوئی ایسے واقعات پر ایکشن لینے والا ہے؟ کہیں ان محنت کشوں کی شنوائی ہوسکتی ہے؟ کیا ایسے اسکولوں کے لائسنس منسوخ ہوسکتے ہیں، اس پر ہر حکومت کی تعلیمی خدمات اﷲ اﷲ ، سکھر میں خواتین کی یونی ورسٹی بنے گی، ٹھ

ٹھہ میں میڈیکل کالج بنے گا فی الحال تو یہ سب حصول ووٹ کے نعرے کے علاوہ اور کچھ نہیں اگر ان وعدوں پر کبھی عمل ہوگیا تو سبحان اﷲ نہ ہوا تو کون ان کا دامن پکڑے گا؟

اگر واقعی حکمران علم دوست ہوتے تو سرکاری اسکولوں کو پہلے کی طرح فعال کرتے، وہاں تعلیمی ماحول فراہم کرتے، اپنے حمایتی جاہل، متعصب، کم علم اساتذہ کو محض خانہ پری کے بجائے قابل، با صلاحیت روشن خیال منصب تدریس کو عبادت سمجھنے والے اساتذہ کا تقرر کرتے۔ تعلیم کے نام پر جو نمائشی اور طبقاتی طور طریقے رائج کیے گئے ہیں ان سے معیار تعلیم کے بلند ہونے کا کوئی تعلق دور دور تک نہیں۔

نام نہاد نجی اعلیٰ تعلیمی اداروں کے پڑھے لکھے بچے بھی معلومات عامہ تو دورکی بات ہے خود اپنے نصاب سے کما حقہ واقف نہیں ہوتے۔ سوائے فوڈ گالہ، میوزک فیسٹیول، مقابلہ انگریزی گانے اور رقص کے ان نام نہاد تعلیمی اداروں میں کبھی مباحثے، ڈرامے، مذاکرے، فی البدیہہ تقاریر، بیت بازی، مقالہ، شعرگوئی یا تحت اللفظ ہوئے اور اگر کسی ایک دو نجی اسکول یا کالج نے ایسی ہمت کرلی تو، اساتذہ تک ان مقابلوں کے قواعد و ضوابط تک سے لا علم ہوتے ہیں۔

ایسے ایسے مناظر پیش آتے ہیں کہ ہم جیسے سرکاری اسکولوں سے پڑھے ہوئے (ہمارے دور کے سرکاری اسکول آج کے مہنگے نجی اسکولوں سے ہزار درجے بہتر تھے) جن کی اول تک آخر بہترین گرومنگ کی گئی ہوتی تھی یعنی ہر فن مولانا بنایاجاتا تھا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر کچھ بتانے کی کوشش کرو تو کہاجاتا ہے سب چلتا ہے، اتنا اچھا توہوگیا ہے۔

پچھلے پیراگراف میں نمائشی طور طریقوں کا ذکر ہوا ہے وہ کیا ہیں؟ ان تمام اسکولوں میں اپنا اپنا نصاب جن کی کتابوں اور کاپیوں پر اسکول لوگو پرنٹ کیا جاتا ہے۔ یونیفارم یا تو خود اسکول یا پھر ان کے تجویز کردہ اسٹور سے خریدنا پڑتا ہے۔ پھر تمام کتب کاپیوں اور رجسٹروں پر پلاسٹک کور ہونے ضروری ہیں۔ والدین نصاب خرید کر پلاسٹک کور چڑھوانے کے لیے دھوپ میں لائن بنائے گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں ۔ کتب فروشوں کی دکان کے سامنے پوری فٹ پاتھ پر کئی کئی میزیں لگاکر بیک وقت کئی افراد کور چڑھارہے ہوتے ہیں ۔ پھر بھی بہت سے افراد سے کتابیں وغیرہ کے اگلے دن آنے کا کہاجاتا ہے۔

میرے خیال میں اس میں والدین کی بھی غلطی ہے کہ وہ ان حالات پر احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ مگر یہ بھی تو سامنے کی بات ہے کہ فیسوں میں بے تحاشا اضافے پر احتجاج کا کوئی نتیجہ نکال ا؟ جب حکمران صرف حکومت کرنا اپنا فرض سمجھیں، خدمت عوام نہیں تو پھر سب ہی اپنی من مانی کرتے ہیں اور عوام ''مرتے کیا نہ کرتے'' کے مصداق ہر ستم ہر ظلم خاموشی سے برداشت کرتے ہیں۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں