نقیب قتل ڈیل کے تحت راؤ انوار کے خلاف کیس کمزور کر دیا گیا

جے آئی ٹی رپورٹ میں راؤ انوار کو موبائل فون ڈیٹا کی بنیاد پر مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے


کاشف ہاشمی April 27, 2018
جے آئی ٹی نے ڈیل کے مطابق راؤانوار سے صرف نقیب اللہ کیس کے کردارکی تفتیش کی ہے، ذرائع۔ فوٹو: فائل

SANAA: عدالت کے حکم پر ہائی پروفائل نقیب اللہ سمیت4 افراد کے قتل کیس میں گرفتاری دینے والے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی ڈسٹرکٹ ملیر راؤ انوار پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی ممبران نے تفتیش میں ڈیل کے مطابق راؤ انوار کو ٹیکنکل بنیاد پر ملزم قرار دے کر جان چھڑا لی۔

جوائنٹ انٹروگیشن رپورٹ میں مرکزی ملزم راؤ انوار کے دیگر جرائم اور سہولت کاروں پر پردہ ڈال دیا گیا جبکہ راؤانوار کو اس کی مفرور شوٹر ٹیم کے ساتھ موبائل ڈیٹا کے شواہد پر ماورائے عدالت قتل میں ملوث قرار دیا گیا تاہم رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ واردات میں استعمال ہونے والے آلہ قتل تاحال برآمد نہیں کیے جا سکے جن کی برآمدگی سے تفتیش کا رخ تبدیل ہوسکتا ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں راؤ انوار کے علاوہ دوسرے ملزمان کے کردار کا تعین نقیب کے ساتھ اغوا کیے جانے والے 2 گواہان، تفتیش کے دوران گرفتار کیے جانے والے پولیس افسر و اہلکاروں کے بیانات اور جائے وقوعہ سے حاصل شدہ شہادتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے جس میں گرفتار افسر و اہلکاروں اور گواہوں نے ملزمان کا نام لے کر ان کے جرائم کے عمل کو واضح کیا ہے جبکہ جے آئی ٹی کے 13صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہیں بھی کسی شہادت کی بنیاد پر کسی گرفتار اہلکار یا نقیب کے ساتھ اغوا کیے جانے والے 2 گواہان قاسم اور حضرت علی کے بیان کی بنیاد پر کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ نقیب سمیت چاروں افراد کے اغوا اور قتل کے لیے راؤ انوار نے کوئی ہدایت دی تھی یا راؤ انوار کو گواہان نے اغوا اور قتل میں ملوث ملزم کے طور پر شناخت کیا ہے۔

پوری رپورٹ میں راؤ انوار کو مرکزی ملزم موبائل فون ڈیٹا کی بنیاد پر قرار دیا گیا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ ٹیکنکل بنیادوں پر راؤ انوار کے وکیلC D R(کال ڈیٹا ریکارڈ) پر کئی سوالات اٹھاسکتے ہیں اور راؤ انوار کے اپنی ٹیم کے رابطوں پر کئی جواز پیش کرسکتے ہیں جس سے راؤ انوار کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ تفتیش کے درمیان جے آئی ٹی ممبران اور راؤ انوار کے درمیان ہونے والی ڈیل میں راؤ انوار نے پولیس کو بوتل میں اتار لیا ہے اور ڈیل کے تحت راؤ انوار کے باقی جرائم، سہولت کاروں کے حوالے سے کوئی تفتیش اور ذکر تک نہیں کیا ان حوالے سے الگ مقدمات بھی درج ہے جبکہ راؤ انوار نے تٖفتیشی ٹیم سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے مفرور ساتھیوں کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی بھی مدد فراہم نہیں کی اور اب یہ معاملہ پولیس کے ہاتھ سے نکل کر عدالت میں جاچکا ہے جہاںپر وکلا کے جرح اور سوالات میں پولیس کی تفتیش پر کئی سوال اٹھ سکتے ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔

ڈیجیٹل ثبوتوں کے تجزیے سے ذیل حقائق سامنے آئے جن کی تفصیل یہ ہے کہ ملزم راؤانوار 13جنوری 2018کو نقیب اللہ سمیت چار افراد قتلکے جائے وقوعہ پر 2بجکر 55منٹ سے لے کر 3بجکر 21منٹ پر موجودگی پائی گئی جبکہ جیو فینسنگ ڈیٹا کے مطالعہ و مشاہدہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملزم سابقہ ایس ایس پی راؤ انوار کے زیر استعمال موبائل فون نمبر 03002023318 کی لوکیشن مورخہ 4,،5،8،9،اور13جنوری کو سپر ہائی وے نزد سبزی منڈی چوکی پائی گئی تھی جبکہ اس طرح راؤ انوار کے زیر استعمال موبائل فون نمبر 0331 2101119,0336 3080041کے ڈیٹا سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ راؤانوار کی موجودگی2بجکر43منٹ پر جائے وقوعہ پر تھی۔

اس کی شوٹر ٹیم کے سابقہ سب انسپکٹر انار خان کے موبائل فون ڈیٹا کے مطابق ملزم ایک بجکر 55منٹ سے لیکر 3بجکر 34منٹ تک جائے وقوعہ پر موجود تھا، سابقہ سب انسپکٹر شعیب شوٹرکے موبائل فون ڈیٹا سے ملزم شعیب شوٹر کی موجودگی جائے وقوعہ کے قریب تھی، اس طرح کیس میں گرفتار ڈی ایس پی قمر احمد شیخ بھی واقعے والے روز جائے وقوعہ پر موجود تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سابقہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن 12جنوری 2018بوقت 4بجکر 34منٹ پر اہلکار شکیل فیرز کو فون کیا جبکہ اسی دن 6بجکر 40منٹ پر ملزم سابقہ اے ایس آئی گدا حسین نے ملزم شکیل فیروز کو فون کیا اس کے علاوہ تینوں ملزمان کا 12 جنوری 2018کو قتل جائے وقوعہ پر ساتھ ہونا پایا گیا ہے ۔

13 جنوری کو مفرور ملزم انار خان کی جائے وقوعہ پر 3بجکر 34 منٹ ،گدا حسین کا 11بجکر 18منٹ ،خیر محمد کا 2بجکر 12 منٹ ، اہلکار راجا شمیم کی3بجکر51منٹ پر موجود ہونا پایا گیا ہے ، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اب تک نقیب اللہ قتل میں جو افسر و اہلکار گرفتار ہوئے۔

ان ملزمان میں چند افسر و اہلکار بیان ہے کہ عباس ٹاؤن پولیس چوکی کے انچارج اے ایس آئی اکبر ملاح کے ہمراہ نقیب اللہ اور اسکے2دوستوں کو سہراب گوٹھ شیر آغا ہوٹل سے اغوا کیا تھا اور پہلے عباس ٹاؤن چوکی لے کر گئے اور وہاں سے پھر سبزی منڈی پولیس چوکی لے کر گئے تھے جہاں ان پر تشدد کیا گیا اور رقم کا مطالبہ کیا گیا اس رپورٹ میں ملزمان نے یہ کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ نقیب کو جعلی مقابلے میں مار دیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق سی ڈی آر شواہد سے چوکی انچارج اکبر ملاح نے نسیم عرف نقیب اللہ محسود اور اس کے 2 دوستوں کا شیر آغا ہوٹل سے اٹھانے کے بعد سب سے پہلا فون موبائل فون نمبر 0300.5915901 جوکہ بنام ملک حاجی محمد کو کیا تھا جس کی تصدیق اکبر ملاح کے گرفتاری کے بعد ہوئی تھی رپورٹ میں یہ ذکر بھی موجود نہیں کہ نقیب اور اسکے دوستوں کو اغوا کے بعد اکبر ملاح نے راؤ انوارکوموبائل فون پر کال کی تھی کہ نہیں۔

ذرائع کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی نے ڈیل کے مطابق راؤانوار سے صرف نقیب اللہ کیس کے کردار مطابق ہی تفتیش کی ہے اور ڈیل کے تحت جے آئی ٹٰی ممبران نے رپورٹ میں تحریر کیا ہے ملزم راؤ انوار نے تفتیش کے دوران ٹال مٹول سے کام لیا اور اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ نقیب اللہ کیس کے علاوہ جے آئی ٹی ممبران سے اس قبل ہونے والے مبینہ مقابلوں میں مارے جانے و الے افراد کی تفتیش سے گریز کیا ہے اگر ٹیم ان مقابلوں کی تفتیش بھی باریک بینی سے کرتی تو راؤانوار اور اس کی شوٹر ٹیم کے خلٓاف مضبوط شواہد مل سکتے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں