جہاں علم بکتا ہے
کہاں وہ ٹاٹ کے اسکول تھے جہاں سے علم ملتا تھا اور کہاں یہ ٹھنڈے کمروں والے اسکول ہیں جہاں علم بکتا ہے۔
قارئین کی جانب سے کالم کے بارے میں آراء تو موصول ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن آج کل سب سے زیادہ قارئین کی جانب سے اس بات پر اصرار کیا جا رہا ہے کہ تعلیم اور تعلیمی اخراجات کے بارے میں کالم تحریر کیا جائے۔
خط و کتابت کا زمانہ گزر گیا اب برقی مواصلات کے تیز ترین ذرایع موجود ہیں جن کو قارئین استعمال کرتے ہیں اور کالم اخبار کے ذریعے گھر بعد میں پہنچتا ہے قارئین کے پاس اس سے پہلے انٹرنیٹ پر موجود ہوتا ہے اوریوں دنیا بھر کے قارئین اخبار کے ساتھ ساتھ کالموں پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں اور اس پر اپنا تبصرہ یا رائے کا بھی اظہار بھی فوری کر دیتے ہیں۔
میں اس سے پہلے بھی حکومت کی جانب سے تعلیم کے میدان میں کوتاہیوں کا کئی بار ذکر کر چکا ہوں لیکن حکمران دوسرے معاملات کی طرح اس اہم ترین معاملے میں بھی بے حسی کا شکار ہیں اور قوم کے بچوں کو کاروباری لوگوں کے حوالے کر کے خود حکومت کے مزے اڑا رہے ہیں۔ جس طرح ہر ماہ گھریلو ضروریات کے بل جن میں بڑا بل بلکہ عفریت بجلی کا بل ہوتا ہے جس کو دیکھ کر اوسان خطا ہوجاتے ہیں اور انسان اپنے آپ کو کوستا ہے کہ وہ کیوں اتنی زیادہ بجلی استعمال کر بیٹھا جس کا اب خمیازہ بھگتنا ہے لیکن یہ ایک ایسی ضرورت بن گئی ہے جس کے بغیر گزارا بھی ممکن نہیں اور ہر ماہ اس کی ہوشربا قیمت کی ادائیگی بھی اوقات سے باہر ہو جاتی ہے۔
انھی مجبوریوں میں زندگی اپنے آپ کو اور حکومتوں کو کوستے کسی نہ کسی طرح گزر ہی گئی کسی دردمند حکمران کے انتظار میں اور اب بھی اس بات کا انتظار ہے کہ کوئی تو آئے گا جو اس بے رحم معاشرے میں جکڑے غریب لوگوں کے دکھ درد کا مداوا کرے گا۔ بجلی کے بلوں کی طرح دوسرے بڑے بل بلکہ بھاری بھرکم بل بچوں کے تعلیمی اخراجات کے ہوتے ہیں جو کہ ہر تین ماہ کے بعد واقعی ایک بم بن کر والدین پر گرتے ہیں۔
عدالت نے نجی اسکولوں پر اس بات کی پابندی لگا دی ہے کہ وہ تین ماہ کی یکمشت فیس لینے کے بجائے ہر ماہ فیس لیا کریں جس پر بعض نجی اسکول عملدرآمد تو کر رہے ہیں لیکن والدین کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اکٹھی فیس ادا کریں یا ہر ماہ کے حساب سے ان کو فیس تو بہرحال ادا کرنی ہی ہے اور وہ بھی اسکول کی انتظامیہ کی مرضی سے ان کی لاگو کی ہوئی فیس ہی ادا کرنی پڑتی ہے۔
بات تو تب بنے کہ جب حکومت خاص طور پر نجی اسکولوں کے بارے میں کوئی ایسا نظام وضع کرے جس میں والدین اور اسکول مالکان کی مشاورت سے نجی اسکولوں کے اخراجات کا ایسا توازن قائم کیا جائے جو کہ والدین اور اسکول مالکان دونوں کے لیے قابل قبول ہو ۔ ورنہ جس طرح کی صورتحال اس وقت نجی اسکولوں کے مالکان نے بنا رکھی ہے اس میں صرف اور صرف انھوں نے اپنا مفاد ہی سامنے رکھا ہوا ہے اور والدین ان کے رحم و کرم پر ہیں، ہر سال کم ازکم دس فیصد کے حساب سے فیسوں میں اضافے کا بوجھ والدین پر ڈال دیا جاتا ہے جس کو والدین طوہاً کراہاً قبول کرنے پر تیار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی ایسا متبادل انتظام نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچے کو ایک اسکول سے اٹھا کر کسی دوسرے میں داخل کرا سکیں۔
ہر اسکول کے داخلے کی بھاری فیسیں ہیں اور اسکولوں کی تبدیلی بچوں کی پڑھائی پر بھی اثر انداز ہوتی ہے یعنی والدین دونوں صورتوں میں پس رہے ہیں بلکہ ان کو بچوں کی تعلیم کے نام پر بلیک میل بھی کیا جا رہا ہے۔ خود میرے پوتے اور نواسے لاہور کے سب سے بہترین اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور مجھے یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے والدین کس طرح ان کے تعلیمی اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر روز یہ بچے اسکول کے بعد شام کو کسی نہ کسی اکیڈمی میں بھی جا رہے ہوتے ہیں مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ بہترین نام والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ان کو اکیڈمیوں میں تعلیم کی بھی ضرورت ہے تو پھر کیوں بڑے اسکولوں کی بھاری فیسیں ادا کی جا رہی ہیں یعنی تعلیمی معیار کی پستی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے نام والے اسکولوں میں بھی طالبعلموں کو پڑھائی کی وہ سہولتیں میسر نہیں جن کی وجہ سے یہ بڑے ناموں والے اسکول مشہور ہیں ۔ اونچی دکان پھیکا پکوان والی مثال شائد انھی اسکولوں کے لیے ہی کہی گئی۔
حکومت نے تعلیمی میدان میں اپنے زیر اہتمام اسکولوں کی حالت میں بہتری کی کوشش ہی نہیں کی، ہاں چند ایک بڑے اسکولوں کی داغ بیل ڈالی گئی لیکن وہ بھی شائد دوسرے فلاحی منصوبوں کی طرح اورنج ٹرین کا شکار بن گئے۔ ہماری یہ بدقسمتی رہی گزشتہ کئی حکومتوں نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی توجہ نہیں دی جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
صحت کے شعبے میں نجی اسپتال لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں جب کہ تعلیمی میدان میں والدین اسکول مافیا کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب میرے بڑے بھائی صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھے دینی تعلیم دلائی جائے گی تو میرے ننھیال نے اس پر بڑا احتجاج کیا کیونکہ میرے ماموں زاد اور دوسرے رشتہ دار بھائی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم حاصل کر چکے تھے یا کر رہے تھے۔
وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن میرے بھائی نے دینی تعلیم کا فیصلہ کیا اور مجھے مدرسے میں داخل کرا دیا گیا اور پھر لاہور میں مختلف زبانوں کے اپنے وقت کے بڑے استادوں کے زیر سایہ تعلیم مکمل کی، یہ ایک طویل داستان ہے، میرا عرض کرنے کا مطلب ہے کہ گزرے وقتوں میں ٹاٹوں کے اسکولوں سے پڑھ کراپنے اپنے شعبہ میں عروج حاصل کرنے والوں کو کیا کمال کے استاد دستیاب تھے جو تعلیم کو اپنی ذمے داری سمجھ کر کچے اور نوجوان ذہنوں کی آبیاری کرتے تھے۔ ان کے لیے ہر طالبعلم ملک کے معماروں میں شمار ہوتا تھا اس لیے جو جوہراور کمالات ان استادوں کے شاگردوںنے دکھائے وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ کہاں وہ ٹاٹ کے اسکول تھے جہاں سے علم ملتا تھا اور کہاں یہ ٹھنڈے کمروں والے اسکول ہیں جہاں علم بکتا ہے۔