ریڈیو انجینئر سے ریڈیو گلوکار تک
ان گیتوں کا گلوکار کراچی ریڈیو اسٹیشن پر ملازم ایک انجینئر ایم کلیم تھا۔
KARACHI:
کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان کراچی سے کئی گیت بڑے مقبول ہوئے تھے اور ان گیتوں کی دھوم پاکستان سے ہندوستان تک پہنچ گئی تھی۔ یکے بعد دیگرے کئی گیت منظر عام پر آئے اور عوام الناس میں پذیرائی ملتی چلی گئی۔ ان گیتوں کے مکھڑے قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش کر رہا ہوں ۔ایک گیت تھا۔
او گوری گھونگھٹ میں شرمائے
آنچل ڈھل ڈھل جائے حیا سے
گوری سمٹی جائے
او گوری گھونگھٹ میں شرمائے
یا پھر یہ گیت جس کا آغاز ایک دوہے سے ہوتا تھا اور دوہے کے بول تھے۔
صلہ وفا کا اگر یہ ہے دل لگانے میں
وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
اور اس دوہے کے بعد یہ گیت شروع ہوتا تھا۔
ناکام رہے میرے گیت بد نام ہوا میرا پیار
میری بینا کے کچھ ایسے ٹوٹے تار
ناکام رہے میرے گیت
یہ گیت اس وقت کے کسی نامورگلوکار نے نہیں گائے تھے بلکہ ان گیتوں کا گلوکار کراچی ریڈیو اسٹیشن پر ملازم ایک انجینئر ایم کلیم تھا اور ایم کلیم کی اپنی ایک منفرد اندازکی آواز جس میں سروں کا رچاؤ بھی تھا اور گلے میں سوز وگداز بھی تھا۔ اس آواز میں انڈیا کے پہلے لیجنڈ گلوکار کندن لال سہگل کی جھلک ملتی تھی اورکبھی یوں لگتا تھا کہ پاکستان میں انڈین گلوکار ہیمنت کمار چلا آیا ہے۔ میں ان دنوں فری لانس صحافی تھا اور ایک ہفت روزہ فلمی اخبار کے لیے بھی لکھتا تھا۔ ایک دن کراچی ریڈیو اسٹیشن کے کینٹین پر میری ملاقات ایم کلیم سے ہوگئی، گہری سانولی رنگت کے ساتھ بڑا محبت بھرا اجلا لہجہ تھا۔
میں نے ایم کلیم کی آواز کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔ آج کل آپ کے چند گیتوں کی بڑی دھوم مچی ہوئی ہے، بہت سے بڑے بڑے گلوکار آپ سے آج کل حسد کرنے لگے ہیں۔ ایم کلیم نے اپنی بے ساختہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا '' ارے نہیں میاں ایسی کوئی بات نہیں ہے یہ آپ کی محبت ہے کہ آپ نے میری تعریف کا یہ انداز اپنایا ہے'' اور پھر چائے کے دوران کافی دیر تک ایم کلیم سے باتیں ہوتی رہیں اور وہ خوبصورت ملاقات آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے، اسی زمانے میں پہلی بار میں نے نامور شاعر قتیل شفائی کی ایک ادبی نظم جو میں طالب علمی کے زمانے میں مختلف ادبی رسائل میں پڑھتا رہا تھا۔ وہی نظم ایم کلیم نے گا کر اسے امر بنا دیا تھا۔ اور وہ نظم تھی:
سہیلی ترا بانکپن لٹ گیا آئینہ توڑ دے
تیری آرائشوں کا چمن لٹ گیا آئینہ توڑ دے
اس زمانے میں یہ نظم پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے تسلسل کے ساتھ نشر ہوا کرتی تھی اور پھر جب فلمساز، ہدایت کار، مصنف و شاعر شباب کیرانوی نے قتیل شفائی کی اس مشہور نظم کو اپنی فلم ''دامن اور چنگاری'' میں شامل کیا تھا مگر یہ نظم دوبارہ میڈم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کی گئی تھی اور اسے فلم میں نئی اداکارہ عالیہ پر عکس بند کیا گیا تھا اور اس نظم کی پسندیدگی اور مقبولیت کی وجہ سے اداکارہ عالیہ کی شہرت کا چاند بھی چمکتا چلا گیا تھا۔ اب میں پھر گلوکار ایم کلیم کی طرف آتا ہوں۔
وہ دورگلوکار منیر حسین اور سلیم رضا کا دور تھا اور ابھی مہدی حسن اور احمد رشدی صرف کراچی کی حد تک مشہور ہو رہے تھے، مگر ایم کلیم کی آواز کا سفر بھی بڑی پذیرائی کے ساتھ جاری تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ ریڈیو انجینئر ایم کلیم 10 سال کی عمر سے موسیقی اور گائیکی سے دلچسپی رکھتے تھے۔ آل انڈیا ریڈیو سے موسیقی کے پروگرام سننا ایم کلیم کا روزانہ کا مشغلہ تھا۔ موسیقی سے یہ دلچسپی انھیں اپنے چچا محمد ابراہیم کی وجہ سے تھی جو موسیقی کے دلدادہ تھے اور خود بھی گاتے تھے۔ ان کے چچا کی دوستی اس دور میں دہلی کے ایک موسیقار استاد فیروز خان سے تھی۔
ایم کلیم نو عمری ہی میں اپنے والدین کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے اور پھرکراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔ ریڈیو پر بحیثیت انجینئر ملازمت کے دوران ان کا موسیقی کا شوق آہستہ آہستہ مزید پروان چڑھتا چلا گیا یہ ریڈیو ہی پر اپنی آواز میں اساتذہ کی غزلیں گاتے اور خاموشی سے ریکارڈ کرتے رہتے تھے۔ پھر جب ان کے چند گیت ریڈیو سے نشر ہونے لگے تو ایم کلیم بھی باقاعدہ گلوکاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے اور ان کے گیتوں نے جہاں ریڈیو پر دھوم مچائی وہاں ان کو ٹیلی ویژن والوں نے بھی سر آنکھوں پر بٹھایا۔ پھر ان کے یکے بعد دیگرے بہت سے سپرہٹ گیتوں کا البم بھی مارکیٹ میں آگیا اور یہ بڑی خوش آیند بات تھی کہ ریڈیو انجینئر ایم کلیم کی گائیکی لوگوں کے دلوں کو چھونے لگی تھی اور ان کی ایک میوزک البم ہٹ ہونے کے بعد پھر کئی البم مارکیٹ میں آتے گئے اور چھاتے چلے گئے۔
انھی دنوں کراچی میں فلمساز فضل احمد کریم فضلی نے فلم ''چراغ جلتا رہا'' کا آغاز کیا اور اس فلم میں تمام نئے اداکاروں کو کاسٹ کیا تھا جن میں محمد علی، زیبا،دیبا، عارف، کمال ایرانی شامل تھے۔ فلم کی موسیقی ریڈیو کے کمپوزر اور کلاسیکل سنگر نہال عبداللہ کے سپرد کی تھی۔ ان دنوں ایم کلیم کی غزلوں اور گیتوں کی بڑی دھوم تھی لہٰذا فضل احمد کریم فضلی نے ایم کلیم کی آواز میں ایک غزل اپنی فلم کے لیے ریکارڈ کرائی جس کا مطلع تھا۔
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقشِ ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
فلم ''چراغ جلتا رہا'' تو زیادہ نہ چل سکی مگر اس کے تمام فنکاروں کی شہرت کے چراغوں نے مستقبل میں فلم انڈسٹری کو جگمگا دیا تھا۔ ایم کلیم اس دور میں موسیقی کی بڑی بڑی محفلوں میں بھی بلائے جاتے تھے اور وہ منہ مانگا معاوضہ بھی وصول کیا کرتے تھے پھر کئی مشہور میوزک کمپنیوں نے بھی ان کے کئی البم مارکیٹ کیے اور انھیں موسیقی سے محبت کرنیوالوں نے بڑا سراہا تھا۔ ذیل میں ایم کلیم کے گائے چند غزل گیتوں کے مکھڑے درج کر رہا ہوں جو اس دور میں موسیقی کی محفلوں میں گلوکار ایم کلیم سے فرمائش کرکے سنے جاتے تھے۔
ہم محبت کا بھرم کچھ اس قدر رکھتے رہے
آنکھ میں آنسو بھی آئے ہم مگر ہنستے رہے
٭نہ تم ہم سے پوچھو نہ ہم تم سے پوچھیں
٭چھوڑ کے نہ جا میرے بچپن کے او ساتھی
٭تم سے ہے رنگین یہ موسم' سما سہانا ہے
٭آئے سکھی نہ بالما بیت گئی بہار
اور ایک غزل بھی ایم کلیم کی گائی ہوئی ان دنوں بڑی مقبول تھی۔ جس کا مطلع تھا۔
ان کے آنسو سرِ مژگاں نہیں دیکھے جاتے
سچ تو یہ ہے وہ پشیماں نہیں دیکھے جاتے
گیت اور غزلوں کے علاوہ ایم کلیم کی گائی ہوئی کئی نعتیں بھی بڑی مقبول ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک نعت نے ایم کلیم کو روحانی حلقوں میں بھی بڑی شہرت بخشی تھی۔ اس نعت کے بول تھے۔
صبا مدینے اگر ہو جانا
نبی سے میرا سلام کہنا
ایم کلیم کی شہرت پھر انھیں امریکا، یورپ اورکینیڈا تک لے گئی جہاں ایم کلیم نے بے شمارکامیاب کنسرٹ کیے پھر ایم کلیم کراچی سے کینیڈا شفٹ ہوگئے تھے۔ ایم کلیم جہاں ایک اچھے سنگر تھے وہاں وہ ایک بہترین کمپوزر بھی تھے اور ان کے بیشتر گیتوں کی موسیقی ان کی اپنی ذہنی کاوشوں کا نچوڑ ہوتی تھی۔ ایم کلیم جو 25 جون 1925ء میں دہلی میں پیدا ہوئے تھے، کامیاب گلوکاری کے ایک لمبے سفر کے بعد 17 نومبر 1994ء میں گیتوں کے خوبصورت نگر کو ویران کرکے دیار غیر ہی میں اس دنیا سے منہ موڑ کر گہری نیند سو گئے مگر ان کے گیتوں کی گمبھیر آواز موسیقی کی دنیا میں برسوں تک گونجتی رہے گی۔