زوال پذیر معاشرہ
حکمرانوں نے یہ بات کبھی نہیں سوچی کہ مکافات عمل سے ہر شخص کو گزرنا ہے۔
بڑھتی ہوئی گداگری نے بہت سے جرائم کو پروان چڑھایا ہے۔ یہ فقرا دراصل اتنے بے کس اور مفلس نہیں ہوتے جتنے وہ نظر آتے ہیں یا وہ اپنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ زیادہ تر پیشہ ور اور جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو نوزائیدہ بچوں کو اغوا کرتے ہیں، حال ہی میں ایک اسپتال کی جعلی ڈاکٹر عائشہ کا کیس سامنے آیا ہے۔ وہ تقریباً دو سال سے مریضوں خصوصاً خواتین کا علاج معالجہ کررہی تھی۔ ساتھ میں پیدائشی بچوں کے اغوا کا بھی اس پر الزام تھا۔ گائنی کے ڈپارٹمنٹ میں اس کی تقرری تھی، اسے ملازمت کس نے دی تھی؟
یہ وہ سوال ہے جو حقیقت پر پڑا پردہ اٹھا سکتا ہے اور یہ بات تو اہل بصیرت پر عیاں ہوچکی ہے کہ مجرموں کی سرپرستی باقاعدہ اور منظم طریقے سے کی جاتی ہے اور ان کے ذریعے جو آمدنی حاصل ہوتی ہے اس کا ففٹی ففٹی حصہ حق داروں کو مل جاتا ہے۔
سیکڑوں جعلی لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں، اکثر نجی چینلز کی کاوشوں کی بدولت گرفتار بھی ہوئی ہیں، لیکن گرفتاری کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس کی وجہ بھاری رقم رشوت کی شکل میں دے کر مُک مکا بڑی آسانی سے ہوجاتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی تباہی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اسپتالوں میں بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، دوائیں غائب ہیں، اگر ہیں تو جعلی ادویات، انھیں بھی قیمتاً خریدنا پڑتا ہے۔ علاج کے لیے جدید مشینری اور آپریشن کے آلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
گاؤں، گوٹھ سے آنیوالے مریض سرکاری اسپتالوں میں بیرونی جگہوں پر ڈیرہ ڈالنے پر مجبور ہیں، بستروں کا فقدان، ڈاکٹروں کی تعداد بے حد کم، دوسرے اداروں میں بھی انسانیت کی لاش اس قدر گل سڑک گئی ہے کہ اس سے تعفن اٹھ رہا ہے، ان حالات میں اﷲ تعالیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو فرشتہ بناکر بھیج دیا ہے جہاں جاتے ہیں مجبور و بے کس سوالی بن کر سامنے آجاتے ہیں، بھیڑ لگ جاتی ہے۔
یہ سب حکومت کے ستائے ہوئے ہیں، اب اگر ان حالات میں وہ مددگار بن گئے ہیں تو اس معاملے میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ سابق وزیراعظم نواز شریف مظلوم کو انصاف ملنے پر ناخوش نظر آتے ہیں۔ وہ بارہا اعتراض کرچکے ہیں، حال ہی میں انھوں نے کہا یہ کام حکومت کے کرنے کے ہیں، چیف جسٹس کے نہیں۔
بے شک کام تو وزیراعظم اور صوبائی وزرا کے ہی ہوتے ہیں لیکن کام کریں، تو؟ اپنے فرائض کو ایمانداری کے ساتھ انجام دیتے اور غریب کے ووٹ کی لاج رکھتے اور ووٹرز کا احسان مانتے تو آج ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوتا، کوئی معصوم بچہ بے بسی سے جان نہ دیتا، گاؤں میں اسپتال نہ ہونے کے برابر ہیں اور اگر ایک آدھ ہے تو وہاں ڈاکٹر تعینات نہیں کیے گئے اور غلطی سے کوئی ڈاکٹر آبھی گیا تو وہ اسپتال سے غائب ہے۔ وہ اپنا ذاتی کلینک کھول کر بیٹھ گیا ہے، تاکہ غریبوں اور مفلسوں کا خون چوسے۔
سالہا سال سے اقتدار میں آنیوالوں نے ملک عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے ان سب کی دلچسپی شان و شوکت دکھانے اور ملک کی دولت لوٹنے سے ہے۔ بیرون ممالک تفریح اور علاج کے لیے دوڑیں لگی رہتی ہیں، ذرا تاریخ پڑھیں، بانیٔ پاکستان اور نواب زادہ لیاقت علی خان کے حالات زندگی پر غور کریں تو انھیں اندازہ ہوگا کہ یہ تھے محب وطن جنھوں نے سرکاری خزانے سے چائے تک نہیں پی اور ان حضرات نے محلوں میں زندگی بسر کی تھی، نوکروں کی ریل پیل تھی لیکن اپنے ملک میں آکر خود نوکر بن گئے۔
اپنا مال و اسباب، جان و متاع قربان کیا، معماران پاکستان نے ہر قسم کی اذیت اٹھائی، تب ملک پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ ہمارے حکمرانوں کو تو دیدہ زیب پلیٹ میں رکھا ہوا، وطن حاصل ہوگیا، کیا کیا ان لوگوں نے اپنے ملک کے لیے، سوائے بربادی کے، پی آئی اے، اسٹیل مل جیسے ادارے پوری دنیا میں اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے تھے، کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا جسے اسلام آباد لے جایا گیا۔
کبھی یہ سوچا نفرت انگیز چالیں چلنے کے بعد کتنے لوگ بے روزگار ہوئے، گھروں کے چولہے بجھ گئے، تعلیمی سلسلے روک دیے گئے، علاج معالجہ نہ ہونے کی وجہ سے مفلوک الحال قبروں میں اتر گئے۔ باقی رہی سہی کسر سیاستدانوں نے پوری کردی، شاہراہوں اور سڑکوں پر لاشوں کا جال بچھادیا، یہ ان والدین کے بیٹوں کی لاشیں تھیں جنھوں نے پاکستان کی بنیادوں کے لیے اپنا خون دیا تھا۔
جو لوگ اپنے وطن کے وفادار نہیں ہوتے ہیں ان سے وقت بدلہ لے لیتا ہے اور ایسی جگہ لے جاکر مارتا ہے جہاں پانی نصیب نہیں ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے غداروں کا ہمیشہ برا اور عبرتناک انجام ہوا ہے اور کرسی سے اتار کر دلدل میں اتارا گیا ہے۔ محض اپنے کرتوتوں کی بنا پر، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کانٹوں کے بیج بونے والے پھولوں اور پھلوں کی فصل نہیں کاٹ سکتے ہیں۔
حکمرانوں نے یہ بات کبھی نہیں سوچی کہ مکافات عمل سے ہر شخص کو گزرنا ہے، اللہ نے قرآن پاک میں واضح طور پر فرمادیا ہے کہ انسان جس چیز کی طلب کرتا ہے اسے وہ ہی دے جاتی ہے، اب دین و دنیا میں سے ایک کا انتخاب کرنیوالے گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔ دین اور دنیا لازم و ملزوم ہے جہاں حقوق العباد، نفع نقصان، ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
جیسا عوامل ہوتا ہے ویسا ہی پھل کھانے کو میسر آتا ہے۔ماہ رمضان کی آمد ہے۔ اس کے ساتھ بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصاً پنجاب سے گداگر زکوٰۃ و خیرات کی رقم بھیک کی شکل میں لینے آئیںگے۔ اگر حکومت پاکستان زکوٰۃ کو غربا، فقرا اور مستحقین میں پابندی اور ایمان داری کے ساتھ تقسیم کرے اور گداگروں کو شیلٹر فراہم کردے تو جرائم میں کمی ضرور آئے گی اور ان لوگوں کی ضرورتیں پوری ہوجائیں گی جو نادار ہیں۔
روزہ کھولنے کے لیے کھجور، ٹھنڈے پانی کے محتاج ہیں، ان کے بچے عید کے کپڑوں کے لیے ترستے ہیں اور جب میسر نہیں آتے تو خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ لیکن مقتدر حضرات کو عوام کی خودکشی، غربت اور فاقہ کشی سے کوئی مطلب نہیں۔ بس ووٹ بینک کو بڑھانے کے لیے دورے کرتے ہیں اور چٹکلے سناتے ہیں، اکثر اوقات تو زخموں پر نمک پاشی کرتے ہیں۔ وہ تاریخ سے واقف نہیں اور قرآنی تعلیم سے بھی نا آشنا، خوف خدا سے دل خالی ہیں، اپنے ساتھیوں کو قبر کی تاریکی میں تنہا اترتے دیکھتے ہیں لیکن عبرت نہیں سیکھتے۔
قرآن حکیم میں زکوٰۃ کا ذکر بار بار آیا ہے، زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم توریت میں بھی ملتا ہے، مقدس انجیل کے عہد نامہ قدیم و جدید میں بھی زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے اور قرآن کریم میں تقریباً 28 مقامات پر زکوٰۃ اور نماز کی ادائیگی کا ذکر ہے، زکوٰۃ کا تعلق خالصتاً عبادت سے ہے اور یہ اسلام کا تیسرا رکن، پانچوں ارکان پر عقیدہ نہ رکھنے والا مسلمان نہیں ہوتا ہے۔اسلامی نظام حیات انصاف اور مساوات پر مبنی ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی اسی وجہ سے لازمی قرار دی گئی تاکہ مساکین و نادار ضروریات زندگی سے محروم نہ رہ سکیں، صدقہ و خیرات دینے والے کی مشکلات کو دور کرتا ہے اور مال میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مستحقین اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں اور حکومتی کارندے مزے کرتے ہیں۔ نئی کاروں اور بنگلوں کی خرید و فروخت میں زکوٰۃ کی رقم معاون ثابت ہوتی ہے لیکن یہ عیش و عشرت لمحہ بھر میں زندگی کو عذاب الٰہی میں بدل دیتے ہیں اور غریب کی بد دعا پل میں حیاتِ انسانی کو نگل جاتی ہے۔ کاش ایسی سوچ رکھیں تو۔