فکری پسماندگی کیوں
قابل حیرت بات یہ ہے کہ جس مذہب کی بنیاد ’’اقرا‘‘ یعنی پڑھو سے ہو، اس کو ماننے والوں کی اکثریت علم سے دور چلی آرہی ہے۔
گزشتہ کافی دنوں سے بھارت کے ایک جید عالم مولانا(ڈاکٹر) خلیل الرحمان سجاد نعمانی کی ایک ویڈیو کلپ وائرل ہے۔ مولانا نعمانی نے اس کلپ میں علما اور اہل دانش سے خطاب کرتے ہوئے کھری کھری باتیں کی ہیں۔ ان کا موقف وہی ہے، جو ہر درد مند مسلمان کا طویل عرصہ سے چلا آرہا ہے۔ یعنی مسلمان علم سے دور ہیں، انھیں پڑھنے لکھنے سے کوئی علاقہ نہیں رہا ہے۔
دلیل کی بنیاد پر گفتگو اور مکالمہ کے بجائے کج بحثی، بدزبانی اور اشتعال انگیزی ان کا طرز عمل بن گیا ہے۔ جس کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی، عسکریت اور دہشتگردی عالمی سطح پر ان کی شناخت ہوگئی ہے۔ پھر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی تکفیر کے بڑھتے ہوئے رجحان نے انھیں تقسیم در تقسیم کا شکار بھی کردیا ہے۔
مولانا نعمانی کا کہنا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں مطالعہ کا ذوق و شوق پیدا نہیں ہوتا، وہ آج کی دنیا کے معاملات و مسائل کا ہمہ جہتی بنیادوں پر تقابلی جائزہ لینے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ جذباتی ردعمل سے گریز کرتے ہوئے عقل ودانش کی بنیاد پر مدلل ردعمل کی راہ نہیں اپناتے، بے علمی اور جہل کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے اور عالمی سطح پر ذلت وخواری ان کا مقدر رہے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں بلاامتیاز پڑھنے اور درپیش معاملات کو ہوش مندی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر تحریر کو بلاکسی امتیاز زیر مطالعہ لانے سے ذہنی وسعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اس خطے کے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ کم از کم تاریخ دان دھرم پال اگروال، پروفیسر ہربنس مکھیا اور سماجی ماہر ارندھتی رائے سمیت دیگر اہل علم ودانش کی تحاریر و تصانیف کا مطالعہ کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندو انتہاپسند تنظیم راشٹریہ سیوک سویم سنگھ (RSS) جو ایک انتہاپسند ہندو جماعت ہے، اس کے عام کارکن کا مطالعہ بھی ہمارے بیشتر جید علما سے زیادہ ہوتا ہے۔
مولانا کی گفتگو سے جو بات اخذ ہوتی ہے، وہ یہ کہ ہمیں اس خودساختہ تصور کو اپنے ذہنوں سے نکالنا ہوگا کہ دنیا کو کوئی اور کام نہیں، صرف ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں سے علم سے دوری، تجزیاتی مطالعہ اور مشاہدے کی باریک بینی سے دور ہونے کے سبب ہم جس فکری پسماندگی کا شکار ہیں، اس کے سبب دنیا کی کسی بھی چھوٹی یا بڑی کمیونٹی کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ (Threat) نہیں رہے ہیں۔ علم اور عمل سے دوری نے البتہ ہمارے اندر ایک طرح کا احساس کمتری پیدا کردیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ہر دوسرے شخص اور کمیونٹی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔
اگر بنظرغائر مسلم معاشروں کی پسماندگی کا مطالعہ کیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے 1258ء میں بغداد پر تاتاریوں کے حملہ کے بعد شدید فرسٹریشن کا شکار ہوکر اجتہاد کے دروازے مقفل کردیے۔ جس نے انھیں مزید فکری پسماندگی میں مبتلا کردیا ہے۔ جسمانی طور پر تو مسلم معاشرے جدید دنیا میں رہ رہے ہیں اور نئی ایجادات کے صارف بھی ہیں، مگر ذہنی اور فکری طور جمود کا شکار ہونے کے باعث دنیا کے بدلتے رجحانات کے ساتھ خود کو ذہنی طور پر ہم آہنگ نہیں کرپا رہے۔ چونکہ ان معاشروں میں سائنسی تحقیق وتخلیق کے راستے بند ہوگئے، اس لیے نئے پیداواری ذرایع کی دریافت کا سلسلہ رک جانے کے نتیجے میں سیاسی، سماجی اور فکری رجحانات میں تبدیلی کا عمل بھی رک گیا ہے۔
کئی صدیوں سے جاری علم اور تجزیاتی مطالعہ سے دوری کے نتیجے میں جو فکری پسماندگی اور کوتاہ بینی مسلمان معاشروں میں پیدا ہوئی ہے، اس کی ماضی اور حال میں ان گنت مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جن میں سے چند ایک پر یہاں گفتگو کررہے ہیں۔ 1492ء میں جب اسپین(ہسپانیہ)سے مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی، تو مسلمانوں کے ساتھ یہودی بھی اسپین سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ سلطنت عثمانیہ نے انھیں پناہ دی۔ اس وقت تک چھاپہ خانہ دریافت ہوچکا تھا اور یہودی اپنی کتابیں چھاپ کر شایع کررہے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے علما نے یہودی پبلشرز کو پابند کیا کہ وہ بے شک اپنی کتابیں چھاپیں، مگر مسلمانوں کی مقدس کتب صرف قلمی ہوں گی۔ یوں مسلمان تقریباً ایک صدی تک چھاپے خانے سے دور رہے۔
ذہنی بالیدگی اور فکری بصیرت کی کمی کی دوسری مثال سترھویں صدی میں سامنے آتی ہے۔ 1631ء میں شاہجہاں کی تیسری بیوی ممتاز محل کا چودھویں بچے کی ولادت کے دوران انتقال ہوجاتا ہے۔ بادشاہ اپنی چہیتی بیگم کی یاد میں جمنا کے کنارے آگرہ کے مقام پر اس کی قبر پر عالیشان مقبرہ تعمیر کراتا ہے، جو 1632ء میں شروع ہوکر 11 برس بعد 1643ء میں تکمیل پذیر ہوتا ہے اور دنیا کا ساتواں عجوبہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
لگ بھگ اسی زمانے میں آسٹریا (وسطی یورپ) کے حکمران لیوپوڈ پنجم کی ملکہ کا دوران زچگی انتقال ہوجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ جب بادشاہ تمامتر وسائل رکھنے کے باوجود اپنی ملکہ کو موت سے نہیں بچا سکا تو عام شہریوں کے لیے اپنی بیویوں کو زچگی کی مشکلات سے بچانے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا ہوتا ہوگا۔ لہٰذا اس نے اپنی ملکہ کی قبر پر کوئی شاندار مقبرہ تعمیر کرنے کے بجائے پورے ملک میں میٹرنٹی ہوم قائم کردیے۔ یہ وہ فکری بالیدگی ہے، جس نے آگے چل کر یورپ کو پوری دنیا پر فتح مند کیا۔
تیسری مثال برٹش انڈیا کی ہے۔ جہاں گنتی کے چند اکابرین نے مسلمانوں کو جدید عصری تعلیم کی جانب راغب کرنے کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ لیکن اس کے برعکس ہندو کمیونٹی نے شروع ہی سے عصری تعلیم کے حصول پر توجہ دی اور جدید علوم حاصل کیے۔ اس سلسلے میں راجہ رام موہن رائے کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انھوں نے نہ صرف جدید عصری تعلیم کے حق میں آواز بلند کی بلکہ صدیوں سے جاری سفاکانہ، بے رحمانہ اور غیرانسانی رسم ستی (شوہر کی موت پر بیوی کو شوہر کا ساتھ جلادیا جانا) کے خاتمہ کے لیے بھی جرأت مندی کے ساتھ مہم چلاکر اس پر پابندی کا قانون منظورکروایا۔ یہ کام مسلمان اپنے ساڑھے سات سو برس کی حکمرانی میں محض ویژن میں کمی کے باعث نہیں کرسکے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1813ء میں کلکتہ میں سنسکرت کالج کے قیام کے لیے ایک لاکھ روپے کی گرانٹ منظورکی۔ جسے راجہ رام موہن رائے نے رد کرتے ہوئے کمپنی پر زور دیا کہ یہ رقم جدید عصری تعلیم کے اداروں کے قیام کے لیے مختص کی جائے۔ ان کے دباؤ میں آکر کمپنی نے 1817ء میں ہندو کالج قائم کیا، جو بعد میں پریسیڈنسی کالج کے نام سے مشہور ہوا اور آج تک قائم ہے۔ اس کے برعکس مسلمان زعما کی اکثریت جدید علوم کے فروغ میں رکاوٹیں ڈالتے ہوئے روایتی تعلیم کے تسلسل پر اصرار کرتی رہی۔
قابل حیرت بات یہ ہے کہ جس مذہب کی بنیاد ''اقرا'' یعنی پڑھو سے ہو، اس کو ماننے والوں کی اکثریت علم سے دور چلی آرہی ہے۔ آج کی دنیا سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید سماجی علوم کی دنیا ہے۔ آج وہی اقوام ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہیں، جن کے اذہان علم کی دولت کے باعث کشادہ ہوچکے ہیں۔ جب کہ وہ مسلمان ممالک جنھیں قدرتی وسائل کی دولت میسر ہے، ان پر مسلط کوتاہ بین حکمران اشرافیہ اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر بزور طاقت انھیں صارف معاشرہ بنائے رکھنے پر مصر ہے۔ کیونکہ علم کے فروغ سے پیداواری ذرایع تبدیل ہوتے ہیں، جو بالآخر حکمرانی میں تبدیلی کا سبب بنتے ہیں۔ لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے معاشروں کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے اور ترقی کی نئی راہوں کی تلاش کے لیے ہمیں عسکریت کی نہیں علم کی ضرورت ہے۔