مزدوروں کی جنگ جاری ہے

پاکستان میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں نے مزدوروں کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔


Manzoor Razi May 01, 2018

یکم مئی دنیا بھر کے محنت کشوں کا عالمی دن ہے ۔ مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں اور غلاموں کی یوں تو بڑی طویل صبر آزما صدیوں پر محیط جدوجہد کی داستان ہے ، جب سے دنیا میں تشکیل پائی ہے ، یہ کوشش جاری ہے اور جب پہلی مرتبہ زمین پر چند طاقتور لوگوں نے اپنی ہاتھوں سے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کردیا تھا اور کمزور لوگوں پر ظلم کرکے طاقت کے زور پر انھیں اپنا غلام بنالیا تھا ، تب ہی سے دنیا میں طبقاتی فرق پیدا ہوگیا تھا۔

اس وقت طاقتور لوگ جبر کرکے غلاموں، مظلوموں، محکوموں اور محنت کشوں سے جبری مشقت لیتے تھے اوقات کارکا تعین بھی نہ تھا لیکن اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ بھی منظم ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب صنعتی ترقی ہو رہی تھی بھاپ سے چلنے والے انجن اورکارخانے مشینی دور میں داخل ہو رہے تھے بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے بیگار لی جاتی تھی۔

محنت کشوں کے کوئی اوقات کار نہ تھے نہ ہی کوئی قانون تھا رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ نہ تھا یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں، سائنس بھی ترقی کر رہی تھی، کارخانوں کا جال بچھایا جا رہا تھا اور انجمن سازی کی طرف بڑھ رہا تھا ،کارل مارکس کے نظریات پھیل رہے تھے، سب سے پہلے برطانیہ میں مزدوروں نے جدوجہد شروع کی یونین بنائی۔

فیڈریشن بنائی اس سے قبل بھی مزدور جدوجہد کرتے رہے مگر شکاگو کے محنت کش ان سب میں پیش پیش رہے ، امریکا سامراج بن کر دنیا میں دندنا رہا ہے اور محنت کشوں کا دشمن نمبر ایک بن کر دنیا میں دہشت گردی، لوٹ مار، اسلحع کی منڈی، نیو ورلڈ آرڈر، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک،WTO کے تحت اپنے احکامات کے ذریعے چھوٹے غریب پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہا ہے ، اسے نہیں معلوم کہ آج سرمایہ دارانہ نظام انسانوں کی بھلائی کے لیے کوئی بھی قابل ذکرکارنامہ انجام نہیں دے رہا ہے۔

آج سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ نظام اپنے عروج پر پہنچ کر زوال پذیر ہے، آج دنیا کے غریب ملکوں کے عوام کو بھوک غربت جہالت، بیماری، بے روزگاری اور مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے ملکی حکمرانوں سمیت عالمی سامراج کے پاس عوام کے لیے خوشحالی لانے کے لیے نہیں غربت کی دلدل سے نکالنے کا کوئی واضح پروگرام نہیں ہے۔

آج عالمی سرمایہ داری نظام اپنی آخری اور بھیانک شکل میں عوام کو بد حالی کی طرف دھکیل رہا ہے لیکن اسی سامراجی ملک میں آج سے ٹھیک 132 سال قبل ایسے جوشیلے انقلابی نوجوان مزدور اور سیاسی رہنما پیدا ہوئے تھے جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کرکے اپنی قیمتی اور پیاری جانوں کا نذرانہ دے کر دنیا کی مزدور تحریک کو ایک نیا رخ نیا موڑ دیا تھا اور اپنا خون دے کر محنت کش طبقے کا سر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فخر سے بلند کر دیا تھا۔

انھوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ظالم حکمرانو! ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہم بھی انسان ہیں، ہمارے بھی اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمارے مطالبات پورے کرو یہ نعرے لگاتے ہوئے مزدور جلوس کی شکل میں مشہور زمانہ (HAY) مارکیٹ کی جانب بڑھ رہے تھے وہ نعرے لگا رہے تھے کہ دنیا بھر کے محنت کشو۔ ایک ہوجاؤ وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے اپنے حقوق اور مطالبات کی بات کر رہے تھے پورا صنعتی شہر شکاگو جام ہوگیا تھا ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہوگیا تھا۔

دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کرکے مکمل ہڑتال کردی تھی اور پھر یکم مئی 1886 کو صبح کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اخبار کے صفحہ اول پر مزدوروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے '' مزدورو ! تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا آگے بڑھو اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنے اوقات کار مقرر کرانے کے لیے جدوجہد جاری رکھو۔ حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی، ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا اسی میں تمہاری بقا اور اسی میں تمہاری فتح ہے۔''

صحافی کی اس تحریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کردیا اور انھوں نے زور دار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کردیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا ہم 8 گھنٹے کام کریں گے ہم 8 گھنٹے آرام کریں گے ہم 8 گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔

حکمرانوں، مل مالکوں، سرمایہ داروں کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، نہتے، کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کردیا، شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا پرچم سرخ ہوگیا۔

ایک محنت کش کی قمیض لہو سے تر ہوگئی پھر انھوں نے لہو میں ڈبوئے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ ہم اس وقت تک کام پر واپس نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کرلیے جاتے اور اب سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہوگا اس موقعے پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنماؤں فشر، انجیل، پیٹرسنز اور اسپائیز نے مزدوروں سے خطاب کرتے ہوئے حکمرانوں اور مل مالکوں کو للکارا تھا، آخر کار حکمرانوں نے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور پہلی مرتبہ 8 گھنٹے اوقات کار تسلیم کیے گئے۔

بعد میں حکمرانوں نے مزدوروں کے 7 سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا کہ انھوں نے جلسے میں بم چلایا تھا 4 رہنماؤں کو سزائے موت دیکر پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا گیا اور باقی تین رہنماؤں کو رہا کردیا گیا یہ عظیم مزدور رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اور کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ دنیا بھر میں بعدازاں محنت کش اپنی جدوجہد کے ذریعے کئی تبدیلیاں لائے اور مراعات حاصل کیں اور روس میں انقلاب برپا کیا، یورپ میں تو اب بھی 5 اور 6 گھنٹے اوقات کار ہیں جب کہ ہمارے ملک میں اوقات کار 8 گھنٹے کے بجائے 12 اور 16 گھنٹے ہیں۔

پاکستان میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور فرقہ پرستوں نے مزدوروں کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے آج پاکستان میں مزدور سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہب، فرقہ، زبان، قومیت اور علاقے کے نام پر تقسیم ہوچکے ہیں ٹریڈ یونین تحریک کمزور پڑ گئی ہے بلکہ اب تو دم توڑ رہی ہے۔

آج پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے لیکن اس وقت قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں محنت کشوں کی ایک بھی سیٹ نہیں ہے، بڑے بڑے جاگیردار، سرمایہ دار، بیوروکریٹ اور حکمران طبقات سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ موجود ہے ایسے میں کس طرح اسمبلیوں میں غریب عوام کے لیے قوانین بنائے جائیں گے اور بل پاس ہوسکیں گے، اس کے لیے محنت کشوں کو بڑی جدوجہد کرنا ہوگی ملک سے جاگیردارانہ اور قبائلی نظام کا خاتمہ کرانے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا ۔

ایک ملک میں دو قانون بلکہ کئی ایک قوانین چل رہے ہیں جن میں صوبہ پختونخوا میں نظام عدل کا مطالبہ ، بلوچستان میں جرگہ سسٹم سرداری نظام، سندھ میں جرگہ اور کاروکاری کا نظام ہے کاش اس ملک میں صحیح معنوں میں غیر طبقاتی نظام عدل نافذ ہو۔ دولت کی منصفانہ تقسیم ہو۔ جاگیر کی تقسیم ہو۔ ہر انسان کو زندہ رہنے کے لیے تعلیم، صحت، رہائش اور روزگار حاصل ہو تب ہی یہ ملک ترقی کرسکے گا اور یکم مئی 1886 شکاگو کے شہدا کی قربانیوں کا مقصد پورا ہوسکے گا۔

آج پاکستان میں محنت کشوں کا برا حال ہے، سیاسی افراتفری ہے، انتخابات قریب ہیں حکومت کے سربراہ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے، کئی ایک رہنماؤں پر کرپشن، بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں۔ عدالت بھی سرگرم ہے خفیہ ہاتھ کام دکھا رہے ہیں نیا بجٹ بھی آرہا ہے نجکاری کا عمل بھی جاری ہے ہم قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف ہیں اور متحد ہوکر نعرہ لگاتے ہیں کہ دنیا بھر کے مزدوروں ایک ہوجاؤ۔ یکم مئی 1886 شکاگوکے شہدا کو سرخ سلام!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔