نیا تعلیمی سال نئے مسائل اور پرانا طرز تعلیم آخری حصہ
آج کے طلبہ اور والدین کو شاید یقین نہ آئے گا کہ ہمارے دور میں کام محنت سے اور درست کرنے کو اہمیت حاصل تھی۔
گزشتہ کالم میں پیش کردہ ہماری معروضات پر بعض قارئین کو اعتراض ہے کہ ''وہ خود تدریس کے سرکاری شعبے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھیں علم ہے کہ تمام اساتذہ اپنے مضمون (سبجیکٹ) میں ماہر، با صلاحیت اور بے حد ذمے دار ہیں اور وہ ہمارے اس نکتے سے بالکل اتفاق نہیں کرتے۔''
ہو سکتا ہے کہ ان کا خیال اور مشاہدہ درست ہو، میں نے اپنی معلومات کے مطابق صورتحال کا تجزیہ کیا تھا اور ظاہر ہے کہ میرا لکھا ''حرفِ آخر'' نہیں ہو سکتا لیکن ذرایع ابلاغ پر گھوسٹ اساتذہ، گھوسٹ سرکاری اسکولوں کے بارے میں جو خبریں، رپورٹس، تصاویر آتی رہتی ہیں اور جو''کہانیاں'' یعنی حقیقت نہیں گردش کرتی رہتی ہیں وہ سب جھوٹ کا پلندہ، نامہ نگاروں، رپورٹرز بلکہ خود مدیرانِ اخبارات، برقی ذرایع ابلاغ پر پروگرام کے ذمے داروں کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ سندھ بلکہ ملک بھر کے بے شمار اسکول وڈیروں کی اوطاق، ان کے جانوروں کے باڑوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔
کئی تعلیمی اداروں کی عمارت ہیں تو مگر انھیں بطور درس گاہ استعمال نہیں کیا جا سکتا، کسی کی چہار دیواری ندارد تو کہیں پنکھے غائب، کھڑکیاں دروازے کواڑوں سے محروم، گزشتہ دنوں کراچی شہر کے ایک مضافاتی علاقے کے گرلز اسکول کی خبر معہ تصویر اخبارات کی زینب بنی تھی کہ جو چہار دیواری سے نہ صرف محروم ہے بلکہ اس کی زمین پر مکانات بھی تعمیر ہو گئے ہیں اور طالبات کی تعداد گھٹ کر چوتھائی بھی نہیں رہ گئی ہے۔ گھوسٹ اساتذہ کے قصے الگ ہیں تو ایسے میں یہ کہنا کہ بات سو فی صد غلط ہے، کہاں کا انصاف ہے۔ سو فی صد نہ سہی پچاس فی صد بھی درست ہو تو ذمے داران قصور وار تو ہوئے۔
آج کے طلبہ اور والدین کو شاید یقین نہ آئے گا کہ ہمارے دور میں کام محنت سے اور درست کرنے کو اہمیت حاصل تھی۔ کتابوں، کاپیوں اور رجسٹر کی خوبصورتی، قیمت اور ان پر پلاسٹک کور وغیرہ کی نہیں تھی، جب ایک بہن یا بھائی اگلی کلاس میں جاتا تھا تو اول کو اس کی کتابیں جو پہلے ہی استعمال شدہ ہوتیں تھیں پورے سال استعمال کے باوجود دوسرے بہن بھائی کے لیے ان ہی کتابوں پر اکتفا کیا جاتا تھا۔ اگر کچھ کی حالت خراب ہوگئی تو انھیں گھر پر لئی (آٹے کو پکاکر گھریلو وائٹ گلو بنایاجاتا تھا) سے جوڑ کر اس پر کسی ڈبے (وہ جوتے والے ڈبے بھی ہوسکتے تھے (کارٹن وغیرہ کے گتے کی جلد بنائی جاتی تھی پھر دونوں جانب کے گتے کو آپس میں جوڑنے کے لیے کوئی فالتو کپڑے کی پٹی لگائی جاتی تھی اور ان پر اخبار کا کور چڑھاکر سفید کاغذ کا چوکور گول یا پھول کی شکل میں ٹکڑا کاٹ کر اس پر خوشخط انداز میں بچے کا نام، مضمون، ہوم ورک یا کلاس ورک وغیرہ جیسی معلومات درج کردی جاتی تھیں۔ طالب علم اگر چھوٹا ہے تو یہ کام اس کے بڑے بہن بھائی یا والدین کرتے تھے ورنہ پھر خود طالب علم کرتا تھا۔
اساتذہ ترسیل علم میں اتنے مخلص ہوتے تھے کہ کبھی اس پر اعتراض نہ کرتے تھے کہ تمہاری کتابیں پرانی کیوں ہیں ان پر اخبار کا کور کیوں چڑھا ہے (کیونکہ بحیثیت طلبہ براؤن کاغذ کا کور بھی چڑھا لیتے تھے) وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ بچہ کلاس میں دلچسپی لیتا ہے یا نہیں، گھر کا کام درست اور بروقت کرتا ہے، کسی بچے کے گھر پر اگر کوئی رہنمائی کرنے والا نہ ہو تو وہ جو بات سمجھ نہ آتی اس کو چھوڑ کر باقی کام مکمل کرتا اور سمجھ نہ آنے والے حصے کے لیے استاد کو بتا دیتا تو وہ اس کو الگ سے وقت دے کر سمجھاتے اور پھر کام بھی مکمل کرواتے۔ ٹیوشن پڑھنا اس زمانے میں بے حد معیوب سمجھا جاتا تھا اگر کوئی بچہ کسی مضمون میں کمزور ہوتا تو خاندان یا محلے کے کسی بھی بڑے یا بڑی لڑکے، لڑکی سے کچھ دیر کے لیے جاکر سمجھ لیتا، والدین بڑی شرمندگی سے اس کا ذکر کرتے کہ ان کا بچہ فلاں سے پڑھ رہا ہے یعنی یہ کوئی قابل فخر بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔
بچے کو والدین ہی نہیں بلکہ اساتذہ کی جانب سے مکمل اعتماد فراہم کیا جاتا تھا کہ اصل چیز کارکردگی ہے عمدہ اور قیمتی کاپیاں اور رجسٹر وغیرہ نہیں۔ ہمارے والد نے خود ہمیں کفایت شعاری اور چیزوں کی قدروقیمت کے بارے میں اتنا پر اعتماد بنادیا تھا کہ ہمارے ایک ٹیچر یا تو نئی نئی یا کسی دوسرے شہر سے تبادلہ ہوکر آئیں اور پوری کلاس کے ہوم ورک کی کاپی ان کی میز پر لے جاکر رکھی اور جب ہماری باری آئی تو ہماری کاپی تیار شدہ کاپیوں کے سائز سے بڑی تھی گھر پر جلد بندی اور اخباری کور سے آراستہ ہونے کے باعث سب سے الگ پہچانی گئی تو ان ٹیچر نے بغیر کاپی کھولے اور کام دیکھے کاپی اٹھاکر کلاس سے باہر پھینک دی اور فرمایا کہ یہ کاپی ہے؟ اور ہمیں کلاس سے باہر دیوار کے ساتھ بطور سزا کھڑا کر دیا گیا اسی دوران ہیڈ مسٹریس آگئیں، ہمیں کلاس سے باہر دیکھ کر احوال دریافت کیا ہمارا اعتماد دیکھیے کہ ہم نے بلا کم و کاست سارا واقعہ ان کے گوش گزار کر دیا۔
واضح ہو کہ ہیڈ مسٹریس ہمارے مالی حالات اور ہمارے والد کی بچوں کو پڑھنے کی لگن سے واقف تھیں یہ خیر پورکے سرکاری اسکول کا چالیس سال قبل کا واقعہ ہے وہ ہمیں کلاس میں اپنے ساتھ لے گئیں۔ ٹیچر سے معاملہ دریافت کیا تو انھوں نے بتایاکہ میڈم یہ کاپی کے بجائے کاغذ کے دستوں سے گھر میں بنائی ہوئی کاپی استعمال کرتی ہیں۔ ہیڈ مسٹریس نے پھر ان سے پوچھا کہ کیا انھوں نے کام مکمل کیا ہے تو انھوں نے فرمایا کہ یہ تو ابھی میں نے نہیں دیکھا میں نے ان کو کاپی واپس کردی ہے۔ کلاس کے کسی کونے سے آواز آئی۔
میڈم ٹیچر نے کاپی باہر پھینک دی تھی۔ اساتذہ کی عزت بھی اس زمانے میں اتنی ہوتی تھی کہ میڈم نے ہمارے سامنے انھیں کچھ بھی نہ کہا بلکہ معذرت خواہانہ انداز میں ان سے کہاکہ آپ آج ان کو کلاس میں بیٹھنے دیں تاکہ ان کا حرج نہ ہو۔ بعد میں ضرور انھوں نے ٹیچر کو کچھ کہا ہوگا کیونکہ ان کا رویہ ہمارے دیگر اساتذہ کی طرح ہمارے ساتھ نرم ہوگیا۔
عالم یہ کہ میں اور میرا بھائی ایک ہی کلاس میں تھے وہ بوائز اسکول اور ہم گرلز اسکول کے طالب علم تھے مگر ہمارا صرف ایک کورس ہوتا تھا اپنے اپنے ٹائم ٹیبل کے مطابق کتابیں لے جاتے تھے اور جو مضمون دونوں کا ایک ہی دن ہوتا تھا اس کی کتاب ایک دن بھائی اور ایک دن ہم اسکول لے جاتے تھے۔
یہ صورتحال ہیڈ مسٹریس کو بتادی گئی تھی انھوں نے تمام اساتذہ سے کہہ دیا تھا کہ یہ اپنے ساتھ بیٹھنے والی لڑکی سے کتاب شیئر کریںگی۔ کسی بھی استاد نے اس صورتحال پر کوئی اعتراض نہیں کیا کیونکہ اصل مقصد حصول علم تھا کسی قسم کا دکھاوایا نمائش نہیں۔ اس کے باوجود اسکول کے ہر پروگرام میں ہمیں وڈیروں کی بیٹوں پر ترجیح دی جاتی تھی۔ مباحثہ، ڈرامہ، ٹیبلو، تحت اللفظ، ہر کھیل میں ہم آگے آگے ہوتے تھے آج ایسے تعلیمی حالات کا تصور کیا جاسکتا ہے؟