سنگر صادق الاسلام سے کمپوزر خالد نظامی تک

سنگر صادق الاسلام کو ریڈیو پاکستان کراچی سے شہرت ملی۔


یونس ہمدم May 05, 2018
[email protected]

کچھ فنکارکبھی شوقیہ ہوتے ہیں مگر بعض اوقات ان کا فن اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ فنکار لازوال ہوجاتے ہیں۔ آج میرے کالم میں دو ایسے فنکاروں کا تذکرہ شامل ہے جن میں ایک گلوکار صرف شوقیہ سنگر تھا مگر پھر اس کی گائیکی نے بڑے بڑے گلوکاروں کو حیرت زدہ کردیا تھا اور دوسرا فنکار جو ہے تو پیدائشی فنکار وہ موسیقار بننے کا آرزو مند تھا مگر پھر وہ مزاحیہ ادا کار بننے پر مجبور ہوگیا ہے لیکن اس کی ایک ہی کمپوزیشن نے بہت سے مشہور موسیقاروں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ سب سے پہلے میں شوقیہ گلوکار صادق الاسلام کا ذکر کروںگا، صادق الاسلام آج اس دنیا میں نہیں ہے مگر اس کے گائے ہوئے گیتوں کی گونج آج بھی فضاؤں میں موجود ہے۔

سنگر صادق الاسلام کو ریڈیو پاکستان کراچی سے شہرت ملی جب کہ اس نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور ایک ٹیکنیشنز پہلے پشاور ریڈیو سے کیا اور پھر جب کراچی ریڈیو اسٹیشن پر اس کا تبادلہ ہوا تو ریڈیو کے پروڈیوسر عظیم سرور کے ساتھ بطور اسسٹنٹ کام کرنے لگا۔ ان دنوں عظیم سرور زیادہ تر اسپورٹس کے پروگرام کیا کرتے تھے۔ صادق الاسلام کے اندر ایک گلوکار چھپا ہوا تھا اور پھر وہ آہستہ آہستہ منظر عام پر آنا شروع ہوا اور اس کا جو پہلا گیت منظر عام پر آیا اس کی مقبولیت نے اسے بڑے مختصر سے عرصے میں مشہور گلوکاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ صادق الاسلام کے پہلے گیت کے بول تھے:

نینوں کی نگری میں آؤ کبھی تو

خوابوں کے نغمے سناؤ

آؤ اور آکے نہ جاؤ کبھی تو

خوابوں کے نغمے سجاؤ

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے صادق الاسلام ریڈیو کا سپر ہٹ سنگر ہوتا چلا گیا۔ ایک گیت کے بعد پھر اس کی آواز میں اسکے دوسرے گیت کو بھی بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی جسے اس نے خود ہی لکھا، خود ہی کمپوز کیا تھا، گیت کے بول تھے:

ہائے ہائے رلادیا، رلادیا

تو نے ہمیں کیوں بھلادیا

ہائے رلادیا

ہلکے پھلکے انداز میں یہ خوبصورت گیت بھی اپنی مدھر موسیقی اور آواز کے سوز و گداز کے ساتھ بہت جلد عوام الناس میں مشہور ہوتا چلا گیا۔ ابھی ان گیتوں کی شہرت کم نہ ہوئی تھی کہ ایک غزل بھی صادق الاسلام کی آواز میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی چلی گئی تھی اور اس غزل کا مطلع تھا:

یہ کیسا انتظار ہے مرا سکوں کدھر گیا

جدائی کا یہ ایک پل عجیب کام کر گیا

سنگر ایم کلیم کے بعد ریڈیو اسٹیشن کراچی کا یہ دوسرا شوقیہ سنگر تھا جس نے اپنے گیتوں اور غزلوں سے بہت سے مشہور گلوکاروں کو یہ احساس دلایا تھا کہ موسیقی کسی کی جاگیر اور میراث نہیں ہوتی اور آواز خدا کی دین ہوتی ہے اور فن کی دولت وہ جسے چاہے دے سکتا ہے۔ میری صادق الاسلام سے ریڈیو اسٹیشن پر بار بار ملاقات رہی۔ ایک بار میں نے صادق الاسلام سے اسکا ایک مختصر انٹرویو بھی کیا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ موسیقی کا شوق اسے بچپن سے تھا اور وہ بچپن میں محمد رفیع، سی ایچ آتما اور سہگل کے گیت ہی سنا کرتا تھا اور خود بھی آنکھوں میں ایک سنگر کے خواب سجایا کرتا تھا پھر جب وہ ریڈیو کی نوکری سے منسلک ہوا تو پشاور سے لے کر کراچی ریڈیو اسٹیشن تک بے شمار گلوکار اور گلوکاراؤں کے نہ صرف پروگرام نشر کرتا رہا بلکہ ان سے اچھی خاصی دوستی بھی ہوتی چلی گئی تھی۔

سر اور لے سے واقفیت صادق الاسلام کو ریڈیو کی ملازمت کے دوران ہی حاصل ہوئی تھی اور پھر اس نے کئی گیت پہلے خود ہی لکھے اور خود ہی انھیں کمپوز کرکے اپنی آواز میں ریکارڈ کیے اور اس طرح باقاعدہ گلوکار بننے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ صادق الاسلام نے بتیس سال تک ریڈیو کی ملازمت کی اور بحیثیت گلوکار اپنے دور میں خوب شہرت بھی کمائی۔ پھر یہ بیمار ہوگیا اور یہ بیماری طویل ہوتی چلی گئی اور اپنی اس بیماری کے دوران ہی 9 مئی 2005ء میں یہ دنیا سے منہ موڑ کر اپنے خالق حقیقی کی طرف چلا گیا۔

اب میں آتا ہوں اس شوقیہ موسیقار کی طرف جس نے پہلے اپنے منفرد انداز کے مزاحیہ کرداروں سے اپنی پہچان بنائی اور آج بھی وہ اسٹیج کے ساتھ ٹیلی ویژن کے نامور فنکاروں میں شامل ہے وہ ور سٹائل خالد نظامی تھا۔ اس فنکار کو یوں ور اسٹائل فنکار کا ٹائٹل دیا جاتا ہے یہ ہر فن مولا ہے۔ ٹیلی ویژن پر اس نے بے شمار ڈراموں میں اپنے کرداروں سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور اس کردار نگاری کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی اس کی زندگی کا ایک جزو رہی ہے۔ نیم کلاسیکل موسیقی کا بھی یہ دیوانہ رہا ہے یہ گاتا بھی بہت اچھا ہے۔

ایک دن یہ مجھے اپنی کچھ دھنیں سنانے کے لیے اپنے گھر لے گیااور پھر اس نے گٹار، ہارمونیم اور طبلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کمپوز کی ہوئی بہت سی دھنیں سنائیں، جنھیں سن کر میری حیرانی بڑھتی چلی گئی تھی۔ میرے اصرار کرنے پر خالد نظامی نے یہ بتایاکہ وہ چاہتا تھا بطور موسیقار اپنی کیریئر کا آغاز کرے پھر جب اس نے ٹیلی ویژن پر آنا شروع کیا تو اس کے دوست پروڈیوسر نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کمپوزیشن چھوڑ کر اداکاری کی طرف توجہ دے کہ اس کے اندر موسیقار سے زیادہ ایک اداکار چھپا ہوا ہے جسے باہر لاکر وہ بے پناہ مقبولیت حاصل کرسکتا ہے۔

پھر خالد نظامی نے موسیقی کے شوق کو اپنے گھر کی دیواروں میں مقید کر دیا اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے اس کی فنکارانہ زندگی کا حصہ بنتے چلے گئے پھر ایک وقت ایسا آیا کہ موسیقی کا جادو دوبارہ سر چڑھ کر بولنے لگا۔ خالد نظامی نے نئے سرے سے ہلکی پھلکی موسیقی کے پروگرام کرنے شروع کردیے اور اسی دوران اس کی ایک کمپوزیشن نے بڑے بڑے موسیقاروں کو حیران کردیا تھا۔ ایک گیت گلوکارہ روبینہ بدر کی آواز میں ٹیلی ویژن کے لیے ریکارڈ کیا گیا جس کی موسیقی نے اس گیت کو لازال بنادیا تھا اور وہ گیت گلوکارہ روبینہ بدر کا بھی پہلا ہٹ گیت تھا۔

تم سنگ نیناں لاگے

مانے نہ ہی جیا را

پیا پیا بولے جیسا

من کا پپیہا را

سپنوں میں آؤ پیا کہوں ساری باتیں

رو رو گزاریں پیا کیسی کیسی راتیں

تم کو بھلاؤں کیسے مانے نہ ہی جیارا

پیا پیا بولے پیا من کا پپیہا را

یہ گیت ریڈیو کے مقبول شاعر اسد محمد خان کا لکھا ہوا تھا، خالد نظامی کی اس دلکش کمپوزیشن کی شہرت ٹیلی ویژن سے نکل کر فلمی دنیا تک بھی پہنچ گئی تھی۔ ایک دن میں ایورنیو اسٹوڈیو سے باری اسٹوڈیو کی طرف جا رہا تھا کہ سامنے سے خالد نظامی آتا ہوا نظر آیا، ہم دونوں بے تکلفی سے راستے ہی میں کھڑے کھڑے ہی گفتگوکرتے رہے۔

خالد نظامی شاہ نور اسٹوڈیو میں کسی فلم پروڈیوسر سے ملنے گیا تھا، اس کی باتوں سے پتہ چلا کہ وہ کئی مہینوں سے لاہور میں ہے۔ فلموں میں موسیقی دینے کا جنون اسے لاہور لے آیا ہے پھر کچھ دنوں کے بعد مجھے خالد نظامی دوبارہ ایورنیو اسٹوڈیو میں ملا تو اس نے بڑی مایوسی کے ساتھ کہا۔ یار لاہور میں تو بڑی خطرناک حد تک گروپ بندی چل رہی ہے۔یہاں بطور موسیقار میری دال کبھی نہیں گل سکتی میں تو اب واپس کراچی جارہا ہوں۔ پھر پتہ چلا کہ خالد نظامی کراچی سے بھی دل برداشت ہوکر امریکا چلا گیا ہے اور ریاست ہوسٹن میں رہتا ہے۔ میں جب کراچی سے امریکا گیا تو میں نے خالد نظامی کے بارے میں کافی چھان بین کی تو پتہ چلا کہ اسے امریکا بھی راس نہیں آیا وہ واپس کراچی چلا گیا ہے۔

میں جب تین چار سال پہلے کراچی گیا تھا تو میری ایک تقریب کے دوران خالد نظامی سے بڑی طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے اس کی موسیقی کے بارے میں پوچھا تو اس نے جواب دیا تھا ''یہ پاپی پیٹ بڑا ظالم ہے اس نے میرے موسیقی کے شوق کو میرے اندر ہی دفن کردیا ہے۔اب میں صرف ٹیلی ویژن کا اداکار ہوں اور اداکاری ہی سے اپنا گھر چلارہا ہوں۔'' میں اس کا دکھ سمجھ سکتا تھا، میں نے خالد نظامی کو گلے سے لگاتے ہوئے کہا تھا یار فنکار کا فن کبھی نہیں مرتا۔ تمہاری ایک ہی کمپوزیشن کئی مشہور موسیقاروں کی دھنوں پر بھاری ہے اور وہ تمہارا نام زندہ رکھے گی۔میری بات سن کر خالد نظامی کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں