عورت کو عزت دو
دنیا میں جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان کی سوسائٹی کو پرکھنے کا بنیادی پیمانہ یہی ہے کہ وہاں کی عورت آزاد ہے۔
مجھے خان صاحب کی سیاست سے ضرور اختلاف ہے مگر اس مملکت خدادا میں کل تک جتنے بھی جلسے ہوتے تھے ان میں خواتین کی شرکت نہ ہونے کی برابر تھی۔ یہ روایت سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ نے توڑی اور پھر خان صاحب نے اس روایت کو ایک نیا موڑ دیا۔
خان صاحب کے جلسوں میں عورتیں بھرپور انداز میں شرکت کرنے لگیں، بالکل اسی طرح جیسے ہم کرکٹ اسٹیڈیم میں قومی ٹیم کوکھیلتے دیکھا کرتے ہیں، ہلا گلا، چیخیں شور شرابہ،نعرے اور ہلچل سے بھرپور۔ بالکل مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی بیٹھتی ہیں، مگر کبھی بھی کسی نے خواتین کے اس جوش وخروش کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ شاید اس لیے کہ کرکٹ کوئی سیاسی کھیل نہیں ہے۔
اس میں حواری اور انداز کے ہوتے ہیں۔ خواتین خانصاحب کی شخصیت سے ہمیشہ متاثر رہی ہیں، بالکل اس طرح جیسے ایک بہترین کھلاڑی سے متاثر ہونا چاہیے۔ خان صاحب کی شخصیت بھی متاثرکن ہے اور ہم متاثر ہوتے ہیں celebraties سے ان کی کارکردگی سے جو وہ اچھا یا غیر معمولی پرفارم کرتے ہیں۔
آج کل موسمی درجہ حرارت ہو یا پھر سیاسی درجہ حرارت دونوں ہی عروج پر ہیں اور لگتا ہے کہ اس گرمام گرمی کی ساری بھڑاس ہم عورتوں پر نکال رہے ہیں، وہ گھر ہو یا سیاسی میدان ہماری شعوری خستہ حالی اس وقت سامنے آئی جب رانا ثناء اللہ نے لاہور میں خان صاحب کے جلسے میں شرکت کرنیوالی خواتین کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ انھوں نے عورتوں کے جھمکوں اور گہنوں کو نشانہ بنایا اور ان جمھکوں کے ذریعے وہ ان کے کردار تک پہنچ گئے۔ یہ وہ ہی mindset ہے جو کل بینظیر بھٹو، عاصمہ جہانگیر کے کردار پر انگلیاں اٹھاتے اور آج مریم نواز پر۔ اس mindset کی کوئی سرحد نہیں۔ یہ اسی ذہنی پسماندگی کا عکس ہے کہ خان صاحب کے جلسوں میں انھیں کے کارکن انھیں کی خواتین کارکن کو تنگ کرتے ہیں۔
جب تک مریم نواز اپنے والد کے ساتھ جلسوں میں شریک نہیں ہوتی تھیں میں نے خود اپنے کانوں سے سنا تھا کہ میاں نواز شریف پاناما کیس کے بعد خان صاحب کے اسلام آباد کے جلسے میں عورتوں کی شراکت کو انھیں نازیبا الفاظ میں بیان کر رہے تھے۔ یہ ایک mindset ہے، مجموعی طور پر پاکستانی مرد کا لاشعور ہے۔
یہ ہماری ٹریننگ کا حصہ ہے اور یہی سوسائٹی کے مردوں کو سکھایا جاتا ہے کہ جیسے عورت کا کوئی وجود نہیں وہ فقط ایک جنس ہے، ایک commodity ہے یا پھر آدھا حصہ، وہ برابر کا وجود نہیں رکھتی۔ شعور اس mindset اور مروج بیانیہ کے خلاف جنگ کرتا ہے نا صرف ہمارے معاشرے میں بلکہ ہر مہذب معاشرے میں۔ شعور نے اس بیانیے کے خلاف counter narrative پیدا کیا۔ شعور کے ہاتھوں میں انسانی حقوق کے الم تھے، علم کے خزینے تھے۔
اس ارتقاء میں اگر ہم امریکا کے معاشرے کی مثال دیں کہ انھوں نے بنیادی حقوق کی پاسداری کے لیے آئین بنایا، اور جب امریکی معاشرہ مہذب ہونا شروع ہوا تو ان پر یہ بھی لازم تھا کہ وہ سیاہ فام لوگوں کی گردنوں سے غلامی کے طوق نکال کر پھینکیں اور پھر اسی معاشرے کے شعور نے عورتوں کے حقوق اور آزادی کی جدوجہد کواپنے ہاتھوں میں لیا۔ اپنے آئین میں 14 ترمیم کو شامل کیا اور 1920ء میں امریکی آئین کی انیسویں ترمیم نے امریکی معاشرے میں پہلی مرتبہ، خواتین کو ووٹ دینے کا حق دیا۔
1930 ء کے great economic depression نے امریکی معاشی نظام کو جھنجوڑ دیا، اس صورتحال میں امریکا کی عورت اپنے گھر سے باہر نکلی۔ مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرنے لگی۔ امریکی معاشرے میں جہاں پہلے ایک گھر میں ایک کمانے والا تھا، اب دو ہونے لگے۔ امریکا کی سوسائٹی میں گلی گلی ڈے کیئر سینٹر کھلنے لگے تاکہ کام کرنیوالی خواتین کے بچوں کی نگہداشت کی جا سکے۔ اس طرح امریکا کا معاشی نظام مضبوط ہوا۔
دنیا میں جو بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، خود کفیل ہیں ان کی سوسائٹی کو پرکھنے کا بنیادی پیمانہ یہی ہے کہ وہاں کی عورت آزاد ہے۔ جو ممالک معاشی پسماندگی کا شکار ہیں، خستہ حال ہیں، ناپید معشیت ہے، معاشرتی narrative کمزور ہے وہاں نوے فیصد امکانات یہی ہیں کہ وہاں کی عورت ذہنی، معاشی اور معاشرتی پسماندگی کا شکار ہے، وہ آزاد نہیں۔
رانا ثناء اللہ کے القابات اور امکان بھی یہی تھا کہ وہ ایسا ہی کہتے،کیونکہ ذہنی طور پر پست معاشروں کے لیڈران کی یہی سوچ ہے۔
پاکستان ان بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں کی عورت ذہنی، معاشی اور معاشرتی طور پر پسماندہ ہے۔ ٹھیک ہے کہ مشرف ایک آمر تھا۔ انھوں نے ملک کی سیاسی نشونما میں روڑے اٹکائے، رکاوٹیں پیدا کیں لیکن سماجی ارتقاء کو بہتر بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں عورتوں کی 33% شراکت کو یقینی بنایا۔
آج سوئٹزرلینڈ کی حکومت میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے جب کہ وہاں عورتون کو ووٹ ڈالنے کا حق 1971ء میں ملا۔ اسپین کی حکومت و پارلیمنٹ میں لگ بھگ یہی تناسب ہے اور وہاں پر خواتین امیدوار ڈائریکٹ الیکشن جیت کر آتی ہیں ۔ اس دنیا میں عورت اب آزاد ہونے لگی ہے، جیسے جیسے معاشرے مہذب ہوتے جائیں گے عورت آزاد ہوگی اور جہاں معاشرے پسماندہ ہونگے ان معاشروں میں خواتین، بچے اور اقلتیں مزید پسماندہ ہونگی۔
رونے کا مقام ہے!! kpk میں خان صاحب کی حکومت ہے اور اس صوبے میں زیادہ تر علاقوں میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں۔ کتنی سیاسی جماعتیں ہونگی جو خواتین کو ٹکٹ دے کر الیکشن میں براہ راست کھڑا کرتی ہیں۔ اس ملک میں کتنے لیڈر ہونگے جو براہ راست الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور ان میں خواتین کی تعداد کتنی ہوگی۔ جب کہ ملک کی تقریبأ آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔
اس بات سے شاید آپ کو حیرانی ہوگی کہ اسپتالوں میں pre mature births اور ان کی موت میں لڑکوں کی بہ نسبت لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ اب بھی ہمارے معاشرے میں عورت کا وجود اور اس کا پیدا ہونا بد نصیبی سمجھا جاتا ہے۔ ہماری سوسائٹی میں عزت و غیرت کے تمام افکار عورت کے گرد گھومتے ہیں۔ مرد کو ہر طرح کی آزادی ہے اور عورت اگر جھمکا بھی پہن لے تو رانا ثناء اللہ ان کو القابات سے نوازتے ہیں۔ میاں صاحب کا نعرہ ہے کہ ووٹ کو عزت دو تو میاں صاحب ووٹ صرف مردوں کا نہیں بلکہ برابری میں عورتوں کا بھی ہے۔
ہمارے چیف جسٹس انصاف و قانون کی بات کرتے ہیں بڑے احترام کے ساتھ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ ہماری عدالتوں میں عورتوں کی کتنی تعداد ہے؟ ہمارے معاشرے میں عورت کو اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کتنی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے جس کا بیان وہ شاید کبھی نہ کرسکے۔
#ME TOO کے نام سے پوری دنیا میں ایک مہم چل رہی ہے اور میں ہر اس عورت کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے اپنے اوپر گزری ہوئی harrassment کی کہانیوں کو بیان کیا۔ کرنا بھی چاہیے تاکہ ہر شعوری مرد، ہر اس عورت کے ساتھ کھڑا ہو جو کسی بھی زیادتی کا شکار ہے۔ خان صاحب کے جلسے میں جو عورتیں شریک تھیں نہ وہ بدکردار تھیں نہ بری تھیں یہ آپ کی بد نظر ہے جو ان کو برا سمجھ رہی تھی۔
برا جو دیکھن چلی
تو برا نہ ملیا کوئی
جو جھانکا من اپنا
تو مجھ سا برا نہ کوئی
بھگت کبیر
ہمارے معاشرے میں معاملہ صرف یہ نہیں کہ عورت کو عزت دی جائے بلکہ شعوری طور پر عورت کو برابری کا مقام دیا جائے۔ ان کی برابری کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔