کراچی جائے بھاڑ میں
کراچی کے لیے آنے والا وقت اچھا نہیں، مگر کراچی پر جو گزراگیا، وہ بھی بدتر تھا۔
صاحبو! وہ 2 اور 3 مئی کی درمیانی شب تھی، جب پوری قوم فاروق ستار کے احسان تلے دب گئی۔
یہ اُس بابرکت رات کا ذکر ہے، جب فاروق بھائی نے اپنی ''درخشاں روایت'' کے برخلاف صرف بارہ تیرہ منٹ خطاب کیا اور اُن کے مائیک چھوڑتے ہی الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز نے سکون کا سانس لیا، جو ماضی میں رات رات بھر جاری رہنے والی ان کی تقاریر بھگتا کرتے تھے۔ خالد مقبول صدیقی کی تقریر مزید مختصر تھی، وہ ایک فاتح کی تقریر تھی۔
سینیٹ انتخابات کے موقعے پر منظم ترین ہونے کی دعوے دار اس جماعت میں جس انتشار نے جنم لیا، اس کے نتیجے میں مڈل کلاس کے یہ نمایندے چوکوں پر اپنے پوتڑے دھوتے نظر آئے۔ مہ جبینوں کو ٹکٹ دینے سے خفیہ ویڈیوز تک کا ذکر ہوگیا۔ رہ کیا گیا؟
اس بے وقعت معاملے (کراچی ملکی سیاست میں بے وقعت ہے) پر نظر رکھنے والے رقم الحروف جیسے چند حقیر بہادر آباد گروپ کو قصوروار ٹھہراتے ہیں، کچھ فقیر پی آئی بی گروپ۔ البتہ یہ طے ہے کہ پورے معاملے میں برد باری، سمجھداری اور برداشت کا مظاہرہ (کم از کم ٹی وی اسکرین کی حد تک) بہادر آباد گروپ نے کیا۔
فاروق ستار، جو 22 اگست کے بعد ایک لیڈرکے طور پر ابھرے، اُن کی لیڈری کی دکان کے پکوان پھیکے نکلے۔ ٹیسوری سے ان کی بے پناہ انسیت، بے تکان تقاریر، رابطہ کمیٹی کا پی آئی بی آنا، مگر اِن کا بہادر آباد نہ جانا، پرانے ساتھیوں کو اپنی چھت پرگھنٹوں انتظار کروانا، اپنی باتوں سے پھر جانا اور سب سے بڑھ کو خالد مقبول صدیقی کو (جو کینسر جیسے مرض سے جوجھ رہے ہیں) ایک سے زاید بار بیمار آدمی کہہ کر مخاطب کرنا۔ الغرض فاروق ستار وہ لیڈر ٹھہرے، جن کی لیڈری کا بت تراشے جانے سے قبل ہی ریزہ ریزہ ہوگیا۔
انھوں نے 4 مئی کا جلسہ ملتوی کر کے بہادر آباد پر بہرحال کوئی احسان نہیں کیا۔ وہ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے۔ سینیٹ انتخابات میں ایم کیو ایم کے کس دھڑے کے ووٹ نتیجہ خیز ثابت ہوئے؟ کس دھڑے کو خادم اعلیٰ نے (جو آج کل مسلم لیگ ن کے صدر بھی ہیں) ملاقات کا شرف بخشا؟ سب کو خبر ہے اور پھر بہادر آباد ایک کمیٹی کے گرد گھوم رہی ہے، اور پی آئی بی ایک فرد کے گرد (وہی پرانا چورن)
خیر، جب فاروق ستار بہارد آباد پہنچے، توکامران ٹیسوری کو باہر چھوڑا۔ کہا: ''آپ ٹھہریں، ہم ابھی آتے ہیں!'' اندر گئے۔ مختصر سی ملاقات رہی، مختصر سی پریس کانفرنس۔ فیصل سبزواری 2 مئی کی سہ پہر ہی پی آئی بی کا چکر لگا چکے تھے۔ بہت کچھ طے تھا۔ اب سوال یہ ہے صاحب کہ یہ اکٹھ کتنا بابرکت ثابت ہو گا؟
جواب سے زیادہ امیدیں مت لگاؤ کہ سوال جتنا سنجیدہ ہے، جواب اتنا رنجیدہ۔
ایم کیو ایم کوابھی کئی مصائب درپیش۔ عشق کے ایسے ایسے امتحان، جنھیں عسکری ونگ کے بغیر عبورکرنا دشوار۔ پی پی پی نے ایک دو نہیں، پورے چھے بڑے جلسے کرنے کا اعلان داغا ہے۔ سب میں بلاول بھٹو جلوہ گر ہوں گے۔ آغاز ہو گا بلدیہ ٹاؤن سے۔ 12 مئی کی طرح بلدیہ ٹاؤن بھی ایم کیو ایم کی دُکھتی رگ۔ جیالوں کا جلسہ بھی 12 مئی کو ہو گا۔ سمجھو، جلسہ کیا ہے، دو دھاری تلوار ہے۔ ایسے میں ایم کیو ایم کا سٹپٹانا اور سٹپٹا کر مل جانا قابل فہم، لیکن کیا یہ ملاپ دیرپا ثابت ہوگا؟ اِس بابت کچھ کہنا دشوار۔
سیاست تاش کی بازی ہے اور فاروق ستار کے ہاتھ میں اچھے پتے نہیں۔ بہادرآباد مضبوط پوزیشن میں ہے۔ کل تک اکلوتے فاروق ستار لیڈر، کنوینر، سربراہ وغیرہ تھے، اب خالد مقبول کو یکساں اہمیت، بلکہ کہہ لیجیے برتر حیثیت حاصل۔فاروق ستار کو ان حضرات سے بھی کنارہ کشی اختیار کرنا پڑے گی، جو اس بگاڑ کی وجہ ٹھہرائے گئے۔
کراچی کے لیے آنے والا وقت اچھا نہیں۔۔۔مگر کراچی پر جو گزراگیا، وہ بھی بدتر تھا۔ 2008ء سے 2013ء تک جو قتل وغارت گری ہوئی، ظلم کی جو داستان رقم ہوئی، جو مکروہ لسانی سیاست کی گئی، وہ ہیبت اور وحشت کا ایک بے انت باب ہے۔ اس بربادی میں صوبے پر مسلط پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کا برابر کا حصہ تھا۔ بدقسمتی سے سیکیورٹی ادارے بھی اپنا کردار موثر انداز میں ادا نہ کر سکے۔ ہاں، 2013ء کے بعد کچھ بہتری آئی، جس کا کریڈٹ ن لیگ کو صرف اتنا جاتا ہے کہ اُس نے کراچی آپریشن میں ایک اچھے سامع اور ناظرکا کردار نبھایا۔
خیر، ماضی کو رہنے دیں۔ بات دُور نکل جائے گی، یوں بھی ماضی میں فقط زخم اور مزار ہیں۔
آؤ، حال کی سمت متوجہ ہوتے ہیں، جو بے حال ہے۔ کراچی کے لیے خیر کی کوئی خبر نہیں۔ ایم کیو ایم کے لیے بحرانوں سے نکلنا سہل نہیں۔ آیندہ انتخابات میں اگر پتنگ کا نشان دکھائی نہ دے، تو حیرت کیسی۔ ممکن ہے، ایم کیو ایم کے ہاتھ سے پھسلتے شہر کے کچھ حصے پی پی پی اچک لے، کچھ پی ایس پی، جس کا پی ٹی آئی سے الحاق امکانی ہے۔ ممکن ہے، مذہبی جماعتیں بھی خلا بھرنے کو جست لگائیں۔
یوں کراچی چوں چوں کا مربہ بن جائے گا، جو یہ الحمدللہ اب بھی ہے۔ آج بھی اِسے کوئی 'اون' کرنے کو تیار نہیں، کل بھی نہیں ہوگا۔
یوں بھی کراچی کے مسائل لسانی، مذہبی، صوبائی جماعتوں کے بس کی بات نہیں۔ ڈھائی کروڑ کا یہ پھیلتا، بگڑتا شہر وفاقی توجہ کا متقاضی ہے۔ البتہ وفاق کے لیے برسرپیکار دو جماعتوں (ن لیگ اور پی ٹی آئی) کو چنداں اِس کی پروا نہیں۔ عمران خان کے چند دعوے، شہباز شریف کے چند دورے اِس تلخ حقیقت کو جھٹلانہیں سکتے۔ پی پی پی سے خیر کی امید رکھنا پرائیویٹ اداروں میں سالانہ انکریمنٹ کی آس لگانے کے مترادف۔ یعنی کراچی لاوارث ہے۔
مرکز پنجاب ہے جناب۔ جی، اُدھر ہی حق و باطل کا معرکہ ہوگیا۔ اُدھر ہی نئی صف بندی ہوگئی۔ اُدھر ہی فیصلہ ہو گا۔ اُدھر ہی سے مستقبل کے فیصلہ ساز کا ظہور ہوگیا۔
اِدھر بھلا کیا رکھا ہے۔ کراچی جائے بھاڑ میں!