عجب صورتِ احوال ہوئی ہے

اس صورتحال کے مظاہر ریاست سے سماج تک اور سیاسی جماعتوں سے اہل دانش تک ہرجگہ جابجا نظر آرہے ہیں۔


Muqtida Mansoor April 18, 2013
[email protected]

میں بنیادی طور پر ایک رجائیت پسند انسان رہا ہوں، مگر اب مجھ پر اکثر و بیشتر قنوطیت طاری ہونے لگی ہے۔ اس کا سبب معاشرے میں بہتری کے بجائے ہر گزرنے والے لمحہ نظر آنے والی مزید ابتری ہے۔ گوکہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران تعلیمی اداروں کی تعداد میںکئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ شرح خواندگی میں بھی ماضی کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔ مگر بحیثیت مجموعی معاشرہ ذہنی اور فکری تنزلی کی طرف گیا ہے۔

وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں سے سیاسی قیادتوں تک اور منصوبہ سازوں سے اہل دانش تک سبھی اپنے اردگرد رونما ہونے والی تبدیلیوںکو سمجھنے کے بجائے تہذیبی نرگسیت کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اس احساس برتری نے غوروفکر اور خود احتسابی کے تمام دروازے بند کردیے ہیں۔ چونکہ ریاست اور سماج کے بارے میں تصورات غیر واضح اور مبہم ہیں، اس لیے کسی واضح سمت کا تعین نہیں ہو پا رہا۔ پورا معاشرہ کم علمی، کج فہمی اور خودنمائی میں مبتلا ہونے کے باعث تنگ نظری، اناپرستی اور ہٹ دھرمی کا شکار ہے۔ ان رویوں کی وجہ سے فکری کثرتیت اور اختلاف رائے کے لیے گنجائش کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور معاشرہ تحمل، برداشت اور رواداری سے عاری ہوتا جارہا ہے۔

اس صورتحال کے مظاہر ریاست سے سماج تک اور سیاسی جماعتوں سے اہل دانش تک ہرجگہ جابجا نظر آرہے ہیں۔ حالیہ انتخابات کے دوران مختلف حلقوں کا جو انداز فکر سامنے آیا ہے، وہ ہماری اجتماعی فکری تنزلی کی منہ بولتی دلیل ہے۔ عام آدمی کی تو بات ہی کیا، عقل و دانش اور علم و حکمت کے دعویداروں میں معاملات و مسائل کی نزاکتوں کو سمجھنے اور قانونی امورکی موشگافیوں کا ادراک کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے سماجی اقدار اور قانون کی صحیح اور ضرورت کے مطابق تفہیم و تشریح نہیں ہوپا رہی۔ معاشرے میں مروجہ دو اصطلاحات یعنی گناہ (Sin) اور جرم (Crime) ہی کو لیجیے۔ دونوں کے بارے میں انتہائی مبہم اور غیر واضح تصورات پائے جاتے ہیں۔

حالانکہ جہاں تک گناہ کا تعلق ہے یہ بندے کا اپنے معبود سے معاملہ ہے اور اس کا فیصلہ تقریباً ہر مذہب کے مطابق یوم حساب میں ہوگا، جب کہ جرم کا تعلق چونکہ معاشرے سے ہوتا ہے، اس لیے جرم کی گرفت معاشرے کے مروجہ تعزیری قوانین کے تحت ممکن ہوتی ہے۔ یہ قوانین معاشرے کی ضروریات کے مطابق تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں گناہ اور جرم کے بارے میںکوئی خط امتیاز موجود نہیںہے، اس لیے کسی فرد کے ذاتی اوصاف اور معاشرتی کردار کے درمیان فرق واضح نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ عوام کی اکثریت گناہ اور جرم کو ایک دوسرے سے گڈمڈ کررہی ہوتی ہے۔

یہی کنفیوژن قیادت کے انتخاب میں بھی پایا جاتا ہے۔ قیادت کے انتخاب کے لیے کسی فرد یا افرادکی اہلیت کو جانچنے کے عالمی سطح پر دو طریقے مروج ہیں۔ اول، ذاتی اوصاف۔ دوئم، قابلیت اور اہلیت۔ قیادت کے لیے جو ذاتی اوصاف ضروری ہیں، ان میں مضبوط کردار، دیانتداری اور صاف گوئی شامل ہیں۔ راسخ العقیدگی اور عبادت گزاری اضافی اوصاف ہیں۔ جب کہ جس قابلیت اور اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں قائدانہ صلاحیت کا پایا جانا، سیاسی عزم و بصیرت، قومی اور مقامی مسائل کا ادراک اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت ہونا شامل ہیں۔

قیادت کا انتخاب کرتے وقت اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ مختلف سطحوں پر مختلف نوعیت کی قائدانہ صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ یعنی مقامی سطح پر ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں کمیونٹی کی سطح کے معاملات و مسائل کو سمجھنے اور فوری حل کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہو۔ جب کہ قومی سطح پر ایسی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے، جو مختلف قومی اور بین الاقوامی امور کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت، مربوط قانون سازی کرنے کی قابلیت اور عالمی سطح پر ملک کو درپیش مسائل کی بہتر انداز میں پیروی (Advocacy) کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔

عوام کے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ مقامی سطح کی قیادت اپنے علم، سیاسی بصیرت اور حاصل کردہ تجربہ کی بدولت ترقی کرتے ہوئے اگلی منزل یعنی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمایندگی کی جانب بڑھ سکتی ہے، بشرطیکہ اس نے اپنی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہو۔ حلقہ انتخاب کے علاوہ جماعت کی اعلیٰ قیادت اس کی کارکردگی سے مطمئن ہو۔ اس کی واضح مثال پڑوسی ملک کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ہیں۔ معاشیات میں Ph.D کرنے کے باوجود وہ کئی برس تک امرتسر میونسپل کارپوریشن میں کونسلر اور معاشی امور کے مشیر رہے۔

پھر دو مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اس کے بعد انھیں لوک سبھا کا ٹکٹ دیا گیا۔ لوک سبھا میں ایک مدت بحیثیت رکن گزارنے کے بعد جب دوسری بار منتخب ہوئے تو انھیں آنجہانی نرسمہارائو کی کابینہ میں وزیر خزانہ لگایا گیا۔ جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے معیشت میں بہتری کے لیے معاشی پالیسی میں کلیدی تبدیلیاں کیں۔ یوں تقریباً 35 برس میونسپل کارپوریشن سے پنجاب اسمبلی اور پھر لوک سبھا کے رکن اور وزیر خزانہ رہنے کے بعد 72 برس کی عمر میں پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے۔

جن معاشروں میں سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے اور جہاں جمہوری عمل کی بنیاد نچلی سطح کی مقامی حکومت پر ہوتی ہے، وہاں نہ صرف ووٹر کو بہتر قیادت کے انتخاب میں سہولت ہوتی ہے، بلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے کارکنوں کی اہلیت کو جانچنے اور انھیں اگلی منزل پر فائز کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ دنیا کی معروف جمہوریتوں میں سیاسی جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی نظریات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہیں۔ جس کا اظہار ان کی پالیسیوں اور انتخابی منشور سے ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر برطانیہ کی لیبر پارٹی محنت کشوں کے حقوق کی ضامن تصور کی جاتی ہے، جب کہ ٹوری پارٹی امرا کے مفادات کی نگہبان جماعت ہے۔ اسی طرح امریکا کی ڈیموکریٹ پارٹی عام آدمی کے مفادات کی محافظ اور خاصی حد تک لبرل اور سیکولر جماعت متصورہوتی ہے۔ اس کے برعکس ریپبلکن پارٹی اشرافیہ کی نمایندہ ہونے کے علاوہ قدامت پسندجماعت ہے۔ ان دونوں جماعتوں کے انتخابی نشانات بھی ان کے فکری رجحانات اور سماجی کردار کی عکاسی کرتے ہیں، یعنی ڈیمو کریٹ پارٹی کا انتخابی نشان گدھا ہے اور ریپبلکن پارٹی کا ہاتھی۔

بھارت میںبھی سیاسی جماعتیں اسی نوعیت کی شناخت رکھتی ہیں۔ یعنی کانگریس آزادی سے پہلے ہی Left to Centre رجحان کی سیکولر جماعت کے طور پر اپنی حیثیت تسلیم کراچکی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی اور مختلف سوشلسٹ جماعتیں بائیں بازوکی جماعتیں ہیں، جب کہ جن سنگھ میں کئی جماعت کے ادغام سے تشکیل پانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) دائیں بازو کی قدامت پسند جماعت ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر کوئی سیاستدان کمیونسٹ پارٹی سے کانگریس یا کسی دوسری جماعت میں جاتا ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ کمیونسٹ خیالات سے تائب ہوچکا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی کانگریسی BJP میں شامل ہوتا ہے، تو یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ اس نے سیکولر خیالات چھوڑ کر ہندوتوا کا نصب العین اپنالیا ہے۔ بھارت میں اس قسم کی تبدیلیاں شاذونادر ہی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ ایسے رہنما جن کے کوئی واضح نظریات نہ ہوں، عوام میں اپنی وقعت کھودیتے ہیںاور ان کے منتخب ہونے کے امکانات کم سے کم ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں بھی 1980 کے عشرے تک سیاسی جماعتیں نظریاتی بنیادوں پر ہی استوار تھیں۔ مگر ایک طرف ملک پر تسلسل کے ساتھ فوجی آمریتوں کی چیرہ دستیوں اور دوسری طرف بنگلہ دیش بن جانے کے بعد سیاست پر مڈل کلاس کے اثرات عملاً ختم ہوگئے۔ جس کی وجہ سے سیاست میں نچلی سطح سے نئے کیڈر کی آمد اور نظریاتی سیاست تقریباً ختم ہوگئی۔ اس صورتحال کا شکار دائیں اور بائیں، دونوں طرح کے رجحانات رکھنے والی جماعتیں ہوئی ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتیں مکمل طور پر گہنا گئی ہیں اور پورے ملک میںان کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہے۔

دائیں بازو کی جماعتیں اب مسلکی جماعتوں کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ جب کہ Left to Centre اور Right to Centre نظریات کی حامل جماعتیں جو زیادہ ترعوامی مقبولیت رکھتی ہیں، اقتدار کی خاطر ہر قسم کے نظریات سے مبرا ہوچکی ہیں اور Electables کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (تمام دھڑوں) میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ متوسط طبقے کی ترقی پسند جماعت نیشنل عوامی پارٹی، جب عوامی نیشنل پارٹی میں تبدیل ہوئی، تو یہ پختون مفادات تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح میر غوث بخش مرحوم کی پاکستان نیشنل پارٹی ان کے انتقال کے بعد کئی دھڑوں میں تقسیم ہوکر بلوچستان تک محدود ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے کوئی واضح نظریات نہیں ہیں، جب کہ ایم کیوایم اپنے ماضی سے جان نہیں چھڑا پائی ہے۔

یہ وہ عجیب وغریب صورتحال ہے جس نے سیاسی عمل کو بری طرح متاثر کیا ہے اور عوام کے سامنے کسی بھی جماعت کا کوئی واضح تصور موجود نہیں ہے۔ ان جماعتوں کے انتخابی منشور اور سیاسی حکمت عملیوں میں بھی کسی قسم کا کوئی فرق نظر نہیں آرہا۔ یہی وجہ ہے کہ عام شہریوں کے لیے سیاسی جماعتوں کے نظریات اور منشور کے بجائے ذاتی یا برادری کی بنیاد پر وابستگیاں ووٹ دینے کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ اس رجحان کو ختم کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے اور انھیں موقع پرستی کے رویوں کو خیر آباد کہتے ہوئے واضح سیاسی نظریات اپنانا ہوں گے، اس کے بغیر مختلف نوعیت کے کنفیوژن سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں